News Views Events

‘نظام انصاف کے لیے ابھی بہت کچھ کرنا باقی

0

تحریر: راشد حسین عباسی

صدرمملکت نے وزیر اعظم کی ایڈوائس پر 26ویں آئینی ترمیم کی توثیق کر دی جس کے بعد نئی قانون سازی کا باضابطہ طورپر نفاذ ہوگیاہے، آئینی ترمیم اعلیٰ عدلیہ کی کارکردگی میں بہتری لانے اور پارلیمنٹ کی بالادستی یقینی بنا نے کے حوالے سے اہمیت کی حامل ہے، وزیراعظم محمد شہباز شریف نے آئینی ترمیم کی منظوری کے بعدقومی اسمبلی میں اپنی تقریر میں اس اعتماد کا اظہار کیا کہ یہ عام آدمی کو آسان اور فوری انصاف کی فراہمی کو یقینی بنائے گا۔انہوں نے بجاطور پرکہا کہ سیاسی جماعتوں کو چاہیے کہ وہ ذاتی مفادات اور انا سے بالاتر ہو کر بہترین قومی مفاد میں آگے بڑھیں،قانونی برادری سمیت مختلف حلقوں کی طرف سے آئینی ترمیم کو سراہاجارہاہے، حتیٰ کہ پاکستان تحریک انصاف نے بھی اعتراف کیا کہ یہ آئینی ترمیم کا مسودہ ابتدائی طور پر پیش کیے جانے والے مسودے سےقدرے بہترہےتاہم پی ٹی آئی ترمیم کی منظوری کے عمل کا حصہ نہیں بنی اور اس نے تر میم کے لیے ووٹنگ کے عمل کا بائیکاٹ کرکے تجاویز فراہم کرنے کے اہم موقع کو گنوا دیا، 26ویں آئینی ترمیم کی منظوری حکمران اتحاد کے لیے تقویت کا باعث بنی ہے کیونکہ گزشتہ ماہ آئینی ترمیم منظورکرانے میں ناکامی کے باعث حکومت پر بہت دباؤ تھااور اس سے طرح طرح کی افواہیں جنم لے رہی تھیں ،نئی قانون سازی کے اطلاق کے بعد قانونی ماہرین کے مطابق اب پہلا چیلنج یہی ہوگا کہ سیاسی جماعتیں کتنا جلد اور اتفاق رائے سے نئے چیف جسٹس کے نام پر متفق ہوتی ہیں،تاہم امید ہے کہ جس جذبے کے ساتھ آئینی ترمیم لائی گئی ہیں اس جذبے کے تحت اس پر عملدرآمدبھی یقینی بنایاجائے گاتاکہ کوئی نیا تنازع جنم نہ لے اور نہ ہی ترمیم کی مخالفت کرنے والوں کو پروپیگنڈا کرنے کا موقع میسرآئے ،یقیناً آئینی ترمیم سے اعلیٰ عدلیہ کی کارکردگی میں بہتری کی راہ ہموارہوئی ہے،خاص طور پر آئینی بینچزکی تشکیل سپریم کورٹ پر مقدمات کابوجھ کم کرنے میں معاون ثابت ہوگی تاہم اس حقیقت سے انکارنہیں کیاجاسکتا ہے کہ ملک میں نظام انصاف کی مجموعی بہتری کے لیے ابھی بہت کچھ کرنے کی ضرورت ہے ، انصاف کے نظام کی پہلی سیڑھی ماتحت عدلیہ ہے جہاں انصاف کی فراہمی کے حوالے سے صورت حال دگرگوں ہیں ،ماتحت عدلیہ میں سائلین کو انصاف کے حصول کے لیے آج بھی پاپڑبیلنے پڑتے ہیںلیکن دیکھاجائے توبروقت اور سستے انصاف کی فراہمی کے اس فقدان میں ساراقصور ماتحت عدلیہ کاہی نہیں اس حوالے سے بہت سی دیگررکاوٹیں بھی حائل ہیں جنہیں حکومت نے ہی دورکرناہے، ماتحت عدالتوں میں انصاف کی بروقت فراہمی میں سب سے بڑی رکاوٹ مقدمات کی زیادتی اور جوڈیشل افسروں کی کمی ہے،اسی طرح عدالتی کمروں، عملے اور دیگر ضروری سہولیات کی کمی ہے،پھر بار کونسلز کے ممبران کا رویہ اور آئے روز ہڑتالوں کا کلچر بھی ایک بڑا مسئلہ ہے جو انصاف کی راہ میں اہم رکاوٹ ہے،ماتحت عدلیہ کے ججوں پر دھونس دباؤکامعاملہ بھی سنگین ہے جس کی وجہ سے بہت سے کیسزمیں میرٹ پر فیصلے نہیں ہوتے ہیں ،اس وجہ سے بھی اعلیٰ عدلیہ میں مقدمات کا بوجھ بڑھتا ہے،اس میں کوئی دورائے نہیں کہ  عوام الناس کوبروقت انصاف مہیا کرنا کسی بھی ملک کی عدلیہ کا فرض عین ہوتا ہے اور عدالتی افسروں کو تمام ضروری سہولیات بہم پہنچانا ریاست کی ذمہ داری ہوتی ہے،جب تک کسی قاضی یا جج کو ذہنی طور پر سکون میں نہیں رکھا جاتا اس سے بہتر اور میرٹ پر فیصلوں کی توقع رکھنا عبث ہے،جب عدالتیں بروقت انصاف مہیا نہیں کرتیں،جس کے نتیجے میں معاشرے میں افراتفری، لاقانونیت، دھونس دھاندلی، بدامنی، خوف و ہراس اور عدم مساوات جیسی قباحتیں بھی پروان چڑھ رہی ہیں،لہذا حکومت کو صحیح معنوں میں فوری انصاف کی فراہمی یقینی بنانے کے لیے ماتحت عدلیہ کی کارکردگی بہتر بنانے اور مسائل کے حل کےلیے بلاتاخیر ٹھوس اقدامات کرنے کی ضرورت ہے ، ہنگامی بنیادوں پر مزید جوڈیشل کمپلیکسز تعمیر کئے جانے چاہئیں، ماتحت عدلیہ میں جوڈیشل افسروں کی تعداد کم از دوگنا کیاجاناچاہئے ، جوڈیشل افسروں کو سردی اور گرمی کی طویل چھٹیاں دینےکی پالیسی پر نظرثانی کرناہوگی، ماتحت عدلیہ کے جج صاحبان کی مایوسی کو کم کرنے کے لیے انہیںکارکردگی کی بنیادپر ترقی کے مواقع فراہم کرنے ہوں گے ، ڈائریکٹ جسٹسز کی بھرتی کاسلسلہ بھی بندکرناضروری ہے، ڈسٹرکٹ اینڈ سیشن ججز میں سے سنیارٹی کم فٹنس کی بنیاد پر ترقی دے کر جسٹسز بنانے کے لیے آئین میں ترمیم کی جا ئے، بارکے ہڑتالوں کے کلچر کو ختم کرانے کے لیے وکلاء کی مشاورت سے اقدامات کئے جائیں ، علاوہ ازیں 26 ویںآئینی ترمیم میں سود کے خاتمے کی شق بھی شامل ہے ، جس کے تحت یکم جنوری 2028 تک سود کو مکمل طور پر ختم کردیا جائے گی،یہ شق شامل کرانے پرجمعیت علمائے اسلام کےسربراہ مولانافضل الرحمان کا کردار لائق تحسین ہے ،   پاکستان ایک اسلامی مملکت ہے اور سود کی ہمارے دین میں کوئی گنجائش نہیں ، سود کا حرام ہونا قرآن وسنت میں بالکل واضح ہے، سودی نظام کو جاری رکھنا نہ صرف ملکی معیشت کیلئے زہر قاتل ہے بلکہ اللہ تعالیٰ اور اس کےآخری نبی حضرت محمدؐ کے غضب کو دعوت دینے کے مترادف ہے،اسلامی جمہوریہ پاکستان کے آئین میں بھی بنیادی نکتہ بھی یہی ہے کہ اس ملک خداداد میں قرآن و سنت سے متصادم کوئی قانون نہیں بن سکے گا لیکن گزشتہ کئی سال سے اب تک ہماری معیشت، ہماری بینکاری اور ملک کا مالیاتی نظام سود جیسی لعنت سے آلودہ ہے، سابق پی ڈی ایم دورحکومت میں فیڈرل شریعت کورٹ کے فیصلے کے مطابق ملکی معیشت کو سود سے پاک بنانے کے حوالے سے دعوے کئے گئے تھےلیکن عملی طور پر اس ضمن میں کوئی پیشرفت نہیں ہوئی اب جب کہ ایک بارپھر معیشت کو سود سے پاک کرنے کا وعدہ کیاگیاہے امید ہے کہ اس وعدے کو ایفاکیاجائے گااور یہ آئینی ترمیم معیشت کو مکمل طور پر سود سے پاک کرنے کے حوالے سے بھی کلید ثابت ہوگی،اسی طرح جے یوآئی نے جس طرح سود کے خاتمے کی شق کو آئینی ترمیم میں شامل کرایااسی طرح وہ اس شق پرعملدرآمدیقینی بنوانے میں بھی کوئی کسراٹھانہ رکھے گی۔

Leave A Reply

Your email address will not be published.