آئینی ترمیم پارلیمان کی بالادستی کیلئے اہم سنگ میل
تحریر: راشد حسین عباسی
حکمران اتحاد بھرپور جدوجہداورطویل مشاورتی عمل کے بعدبالآخر 26ویںآئینی ترمیم پارلیمنٹ کے دونوں ایوانوں( سینیٹ اور قومی اسمبلی) سے ایک ہی روز میں منظورکرانے میں کامیاب ہوگیا،بلاشبہ ملکی آئینی اور عدالتی تاریخ میںیہ آئینی ترمیم ایک سنگ میل کی حیثیت رکھتی ہے،یہ حکومتی اتحاد کی عدلیہ پر پارلیمانی بالا دستی قائم کرنے کا ایک تاریخی آئینی اقدام ہے ، عدلیہ کے حوالے سے اصلاحات انتہائی اہمیت کی حامل ہونے کے ساتھ ساتھ وقت کی ضرورت تھی کیونکہ پاکستان میں عدالتوں کی کارکردگی کسی سے ڈھکی چھپی نہیں، لہذا عوامی مفاد میں آئینی ترمیم پر پیشرفت یقینی بنانے خوش آئندہے،آئینی ترمیم سےجہاں ملک کے عدالتی نظام میں نمایاں بہتری کی امیدہے وہیں ممکنہ طورپر پارلیمانی بالادستی یقینی بنانے کے حوالے سے بھی یہ سنگ میل ثابت ہو گی ،یہ کہناغلط نہ ہوگاکہ آئینی ترمیم کے ذریعے پارلیمان کی بالادستی یقینی بنائی گئی ہے، مثال کے طور پر آئینی ترمیم کے تحت سنیارٹی کی بنیاد پر چیف جسٹس کی تقرری کی بجائے اب 12 رکنی خصوصی پارلیمانی کمیٹی 3 سینئرموسٹ ججوں کے ناموں میں سے ایک کا انتخاب چیف جسٹس کے طور پر کرے گی جس کی حتمی منظوری وزیر اعظم اور صدر دیں گے،چنانچہ اس عمل سے عدلیہ کی خود ہی سینئرترین جج کو چیف جسٹس بنانے کی اجارہ داری ختم ہو گئی اوریہ اختیارپارلیمان کو منتقل ہوگیا،اسی طرح سپریم کورٹ کے ججز کی تقرری کے طریقہ کار کو بھی پارلیمان کے زیر اثر لایا گیاہے، سپریم کورٹ کے ججز کا تقرراب کمیشن کرے گا، چیف جسٹس کی سربراہی میں کمیشن میں 4 سینئر ترین ججز شامل ہوں گے، وفاقی وزیر قانون اور اٹارنی جنرل کے علاوہ قومی اسمبلی اور سینیٹ کے دو،دواراکین بھی کمیشن میں شامل ہوں گے ،اس حوالے سے بھی پارلیمان کا عمل دخل اہمیت اختیارکرگیاہے ، آئینی ترمیم کے مسودے میں سب سے اہم معاملہ آئینی بینچ کے قیام کاہے ،یہ امر بھی قابل ذکر ہے کہ آئینی عدالت کی دنیا میں مثالیں موجود ہیں،دنیا کے 85 ممالک میں آئینی عدالتیں قائم ہیں اور یہ کامیاب ماڈل ہے،ابتدائی تجویزپاکستان میں بھی آئینی عدالت کے قیام کی ہی تھی تاہم اتفاق رائے نہ ہونے پر اس شق کو آئینی بیچ میں تبدیل کردیاگیا،جوڈیشل کمیشن ہی آئین بینچ اور ججز کی تعداد کا تعین کرے گا،آئینی بینچ میں جہاں تک ممکن ہو تمام صوبوں سے مساوی ججز تعینات کیے جائیں گے، – آرٹیکل 184 کے تحت از خود نوٹس کا اختیار آئینی بینچ کے پاس ہوگا، آرٹیکل 185 کے تحت آئین کی تشریح سے متعلق مقدمات آئینی بینچ کے دائرہ اختیار میں آئیں گے، آئینی بینچ صرف آئینی معاملات کو سنے گا جب کہ دیگر مقدمات سپریم کورٹ معمول کے مطابق سنتی رہے گی ،اس سے عدلیہ کی کارگردگی میں نمایاں بہتری آنے اور عام سائلین کو فوری انصاف ملنے کی راہ ہموار ہوگئی ہے ، سپریم کورٹ پر مقدمات کا بوجھ کم ہوگا،دراصل سیاسی اور آئینی مقدمات کی بھرمار سے اعلیٰ عدلیہ پر مقدمات کا بوجھ تھاجس سے عام سائلین کے مقدمات التواء کا شکار ہورہے تھے ،وزیراعظم یا کابینہ کی جانب سے صدر مملکت کو بھجوائی گئی ایڈوائس پر کوئی عدالت، ٹریبونل یا اتھارٹی سوال نہیں اٹھا سکے گی ،یوں عدلیہ کا حکومت کے انتظامی امور میں عمل دخل ختم ہو جائے گا اور حکومت بھی پوری آزادی کے ساتھ نظم ونسق اور کارکردگی پر توجہ مرکوز کرسکے گی ، یقیناً آئینی ترمیم پر اتفاق رائے پیداکرنے کےحوالے سے حکومتی اتحادکی کاوشیں قابل تعریف ہیں ، تاہم اس سلسلے میں جے یو آئی کے سربراہ مولانا فضل الرحمان کی تحسین بھی کی جانی چاہئے جنہوں مجوزہ ترامیم کی اہمیت کومدنظر رکھتے ہوئے حکومت کے ساتھ بات چیت کے دروازے بند نہیں کئے اور اپنی تجاویز پیش کیں اور بالآخر اتفاق رائے بھی ہو گیا،اس سارے عمل میں مولانانے ایک بارپھر ایک زیرک اور تجربہ کار اور بصیرت کے حامل سیاست دان ہونے کاثبوت دیاہے، امرواقعہ ہے کہ حکومت نے گزشتہ ماہ جس طرح عجلت کا مظاہر کرتے ہوئے آئینی ترمیم کے پیکیج کوپارلیمنٹ سے منظور کرانے کی کوشش کی تھی وہ قطعی طور پر جمہوری تقاضوں اور اصولوں سے مطابقت نہیں رکھتاتھا، حکومت کی ناقص حکمت عملی اس کے لیے سبکی کا باعث بنی تھی اور اتوار کو چھٹی کے روز خصوصی طور پر بلائے گئے سینیٹ اورقومی اسمبلی کے اجلاس بارہاموخر اور بعدازاں دونوں ایوانوں کے اجلاس غیرمعینہ مدت کے لیے ملتوی کرناپڑے تھے، اسی طرح حکومت کی جانب سے آئینی ترمیم کے مسودے کوغیرضروری طور پر پُراسراریت کے حصار رکھے جانے سے ابہام پیداہوا تھا، اس سے افواہوں اور قیاس آرائیوں نے جنم لیا ،بدقسمتی سے ایک سیاسی جماعت کی طرف سے اس ضمن میں پروپیگنڈابھی کیا گیا،اگر حکومت ابتداء سے ہی مشاورت اور افہام و تفہیم کا راستہ اپناتی اور تمام پارلیمانی جماعتوں کو اعتماد میں لیتی،آئینی ترامیم کا مسودہ متعلقہ کمیٹی میں جاتا وہاں اس پر غور ہوتا، حزب اختلاف کے ارکان کی بھی تجاویز اور رائے لی جاتیں پھر اس معاملے پرپارلیمان میں بحث کرائی جاتی تاکہ عوام کو پتہ چلتا کہ حکومت آئین میں کیا ترامیم کرنے جا رہی ہے اور اس سے ان کی زندگیوں پر کیا اثرات ہو ں گے؟ تو ممکن تھا کہ حکومت کو اتنی تگ ودونہ کرناپڑتی اور معاملہ غیرضروری تاخیرکا شکار نہ ہوتا، بہرحال دیر آئے درست آئے کے مصدق حکومت نے آئینی ترامیم پر اتفاق رائے پیداکرنے کے بعدانہیں سینیٹ اور قومی اسمبلی سے منظورکرایا جس سے یہ معاملہ خوش اسلوبی سے پایاتکمیل تک پہنچ گیا ہے اوراب صدرمملکت کی منظوری کے بعدنئی قانون سازی کاعملاًنفاذہوجائے گا ، بہترہوتا کہ پی ٹی آئی بھی قانون سازی کے اس اہم عمل کاحصہ بنتی اور متفقہ طور پر آئینی ترمیم منظورکی جاتی جس سے پارلیمان کو مضبوط کرنے میں اس جماعت کا کرداربھی تاریخ کاحصہ ہوتا،اس میں کوئی دورائے نہیں پارلیمنٹ کی بالادستی ہمیشہ سیاسی جماعتوں کے رویوں کی وجہ سے ہی مجرو ح ہوئی ہے ، چنانچہ وقت آگیا ہے کہ سیاسی رویوں کو بدلاجائے ، پارلیمان کی مضبوطی اور بالادستی کے لیے تمام سیاسی قیادت مل کر کام کرناچاہئے ،ذاتی مفاد کی بجائے قومی مفاد کو ترجیح دی جانی چاہئے، خاص طورپرقومی وعوامی مفاد میںقانون سازی کے عمل اور آئینی معاملات کو سیاسی رنگ دے کر پروپیگنڈا کرنے کی بجائے اپنی ماضی کی غلطیوں سے سیکھتے ہوئےتعاون اور رواداری کی سیاست کوپروان چڑھاناچاہئے،اس سےپارلیمان اور سیاسی نظام پر عوام کا اعتماد بڑھے گا ، اسی طرح اجتماعی دانش کے بہترین نتائج کے حصول کے لئے بھی باہمی مشاورت اور اتفاق رائےکی خاص اہمیت ہےتاکہ غوروفکر کا دائرہ وسیع ہو اور ممکنہ حد تک مؤثراوربہتر قانون سازی یقینی بنائی جاسکے۔