امریکہ چین کی ترقی کو معروضی اور معقول انداز میں دیکھے، چینی وزیر خارجہ
بیجنگ(نیوزڈیسک)کمیونسٹ پارٹی آف چائنا کی مرکزی کمیٹی کے سیاسی بیورو کے رکن اور وزیر خارجہ وانگ ای نے 14 ویں نیشنل پیپلز کانگریس کے دوسرے اجلاس کے موقع پر ایک پریس کانفرنس کی۔انہوں نے چین کی خارجہ پالیسی اور خارجہ تعلقات سے متعلق امور پر چینی اور غیر ملکی صحافیوں کے سوالات کے جوابات دیئے۔
وانگ ای نے کہا کہ ایک ایسے وقت میں جب دنیا گہری تبدیلیوں سے گزر رہی ہے اور انسانی معاشرے کو متعدد چیلنجز کا سامنا ہے، چین ایک افراتفری سے دوچار بین الاقوامی ماحول میں امن، استحکام اور ترقی کے لئے ایک طاقت رہے گا۔رواں سال چین کی سفارت کاری بین الاقوامی یکجہتی اور تعاون کو فروغ دینے، مختلف بحرانوں اور چیلنجوں سے نمٹنے کے لئے "چینی حل” فراہم کرنے اور عالمی امن اور ترقی کے مقصد کو آگے بڑھانے میں نمایاں کردار ادا کرے گی۔
وانگ ای نے کہا کہ چین نے ہمیشہ امریکہ کے بارے میں اپنی پالیسی کے استحکام اور تسلسل کو برقرار رکھا ہے اور امریکہ پر زور دیا ہے کہ وہ چین کی ترقی کو معروضی اور معقول انداز میں دیکھے اور اپنے وعدوں کو اپنے قول و فعل سے ثابت کرے ۔
اُن کا کہنا تھا کہ چین اور روس نے بڑے ممالک کے تعلقات کا ایک نیا نمونہ تخلیق کیا ہے جو پرانے سرد جنگ کے دور سے بالکل مختلف ہے ، اور دونوں فریق اقوام متحدہ کی مرکزی حیثیت سے بین الاقوامی نظام اور علاقائی و عالمی سلامتی اور استحکام کو برقرار رکھیں گے۔
جب تک چین اور یورپی یونین باہمی مفاد کے لئے تعاون کرتے رہیں گے ، بلاک محاذ آرائی جنم نہیں لے گی، اور جب تک چین اور یورپی یونین کھلے پن پر قائم رہیں گے اور جیت جیت نتائج کی جستجو کریں گے، گلوبلائزیشن کے خلاف تحریک زور نہیں پکڑے گی.
وانگ ای نے مزید کہا کہ صدر شی جن پھنگ کے بنی نوع انسان کے ہم نصیب معاشرے کے تصور کو نمایاں پزیرائی ملی ہے ۔ بنی نوع انسان کے ہم نصیب معاشرے کی تعمیر کا تصور تجویز سے سائنسی نظام کی جانب، ایک چینی انیشی ایٹو سے بین الاقوامی اتفاق رائے تک، اور ایک خوبصورت نقطہ نظر سے عملی نتائج تک ترقی کر چکا ہے، جو مضبوط قوت کا مظاہرہ کر رہا ہے.اس تصور کے تحت چین نے دوطرفہ سے لے کر کثیر الجہتی، علاقائی سے عالمی، صحت سے لے کر سائبر اور سمندر تک، درجنوں ممالک اور خطوں کے ساتھ مل کر مختلف شعبوں میں ہم نصیب کمیونٹیز کی مختلف شکلوں کی تعمیر کے لیے کام کیا ہے۔ اقوام متحدہ کی جنرل اسمبلی کی قراردادوں کے ساتھ ساتھ شنگھائی تعاون تنظیم (ایس سی او) اور برکس جیسے کثیر الجہتی میکانزم کی قراردادوں یا اعلانات میں انسانیت کے ہم نصیب معاشرے کے تصور کو بار بار شامل کیا گیا ہے۔
وانگ ای نے مزید کہا کہ جو سب سے طاقت ور ہے اُسے حتمی فیصلے کی اجازت نہیں دی جا سکتی۔ اس بات کو یقینی بنانا ضروری ہے کہ تمام ممالک، چاہے وہ بڑے ہوں یا چھوٹے، مضبوط ہوں یا کمزور، مساوی بنیادوں پر ملٹی پولرائزیشن کے عمل میں حصہ لے سکیں، اپنے حقوق سے لطف اندوز ہوسکیں اور اپنا کردار ادا کر سکیں۔
اسرائیل فلسطین جاری تنازع کے حوالے سے وانگ ای نے کہا کہ عالمی برادری کو فوری طور پر جنگ بندی کے نفاذ اور تنازع کے خاتمے کو اولین ترجیح دینی چاہیے۔ انہوں نے کہا کہ کہ غزہ کے عوام کو دنیا میں جینے کا حق حاصل ہے۔ چین فلسطین کی اقوام متحدہ کی مکمل رکنیت کی حمایت کرتا ہے۔
وانگ ای نے مزید کہا کہ یوکرین بحران پر چین نے جنگ کے خاتمے اور امن مذاکرات کی راہ ہموار کرنے اور مناسب وقت پر تمام فریقین کی مساوی شرکت کے ساتھ بین الاقوامی امن کانفرنس کے انعقاد کی حمایت کی ہے۔
انہوں نے واضح کیا کہ چین بحیرہ جنوبی چین کے معاملے پر دانستہ خلاف ورزیوں کے ردعمل میں قانون کے مطابق اپنے حقوق کا دفاع کرے گا۔ غیر معقول اشتعال انگیزیوں کے خلاف بروقت اور معقول جوابی اقدامات کیے جائیں گے اور خطے سے باہر کے بعض ممالک کو مشورہ دیا جاتا ہے کہ وہ کشیدگی پیدا نہ کریں اور بحیرہ جنوبی چین میں تخریب کار یا مجرم نہ بنیں۔
وانگ ای نے مزید کہا کہ چین کی ترقی دنیا کے لیے لازم و ملزوم ہے اور دنیا کی ترقی چین کے لیے لازم و ملزوم ہے۔
وانگ ای نے مزید کہا کہ چین اور اس کے ہمسایہ ممالک ایسے ہمسایہ ہیں جنہیں "بدلا” نہیں جا سکتا اور ایشیا ہمارا مشترکہ گھر ہے اور خطے کے ممالک کی مشترکہ خواہش ہے کہ وہ اس گھر کو اچھی طرح تعمیر کریں۔ صدر شی جن پھنگ کے اپنے ہمسایہ ممالک کے ساتھ ہم آہنگی، خلوص، خیرخواہی اور رواداری کے تصور کی روشنی میں، چین نے اپنے پڑوسی ممالک کے ساتھ اچھی ہمسائیگی اور دوستی کی ایک نئی صورتحال کا آغاز کیا ہے، اور ساتھ رہنے کا ایک انوکھا ایشیائی راستہ بھی شروع کیا ہے۔
وانگ ای نے واضح کیا کہ”تائیوان کی علیحدگی” کے لیےکارروائیاں آبنائے تائیوان میں امن اور استحکام کے لئے سب سے بڑا نقصان دہ عنصر ہیں۔ آبنائے تائیوان میں حقیقی معنوں میں امن برقرار رکھنے کے لیے ہمیں "تائیوان کی علیحدگی” کے خلاف واضح موقف اپنانا ہوگا۔ جس قدر مضبوطی سے "ون چائنا پالیسی” کو برقرار رکھا جائے گا، آبنائے تائیوان میں اُسی قدر امن کی ضمانت دی جا سکتی ہے۔
وانگ ای نے کہا کہ برکس ممالک کی ترقی ،امن اور عالمی انصاف کے میدان میں نمایاں قوتوں کی مزید توسیع ہے۔ "گلوبل ساؤتھ” بین الاقوامی نظام کی تبدیلی اور ایک صدی کی تبدیلی کی امید میں ایک کلیدی طاقت بن چکا ہے.
چینی وزیر خارجہ نے کہا کہ ہم بین الاقوامی مسافر پروازوں کی بحالی میں تیزی لائیں گے،ویزا فری امور کے حوالے سے چین کے حلقہ احباب کو وسعت دینا جاری رکھیں گے ، اور مزید ممالک کے ساتھ کثیر سالہ ویزا انتظامات کی مختلف شکلوں کی جستجو کی جائے گی۔
وانگ ای نے کہا کہ چین کا ہمیشہ یہ موقف رہا ہے کہ دنیا میں اقوام متحدہ کی مرکزی حیثیت سے صرف ایک بین الاقوامی نظام ہے، یہ نظام بین الاقوامی قانون پر مبنی ہے ، اور اصولوں کا صرف ایک مجموعہ ہے، جو اقوام متحدہ کے چارٹر کے مقاصد اور اصولوں کی بنیاد پر بین الاقوامی تعلقات کو چلانے والے بنیادی اصول ہیں۔ حالیہ برسوں میں کئی بحرانوں اور چیلنجوں نے ہمیں بار بار متنبہ کیا ہے کہ اقوام متحدہ کے کردار کو صرف مضبوط کیا جا سکتا ہے، کمزور نہیں کیا جا سکتا، اور یہ کہ اقوام متحدہ کی حیثیت کو برقرار رکھا جانا چاہیے ناکہ اسے تبدیل کیا جائے۔
وانگ ای نے کہا کہ اس وقت چین اور افریقہ کا نمائندہ فورم "گلوبل ساؤتھ” پھل پھول رہا ہے، جس کا عالمی تاریخ پر گہرا اثر ہے۔ افریقہ کو ترقی کا ایک ایسا راستہ تلاش کرنے کی ضرورت ہے جو اس کے قومی حالات کے مطابق ہو۔ اس نئے تاریخی عمل میں چین اپنے افریقی بھائیوں کے ساتھ مضبوطی سے کھڑا رہے گا تاکہ افریقہ کو آزادانہ ترقی کی صلاحیت کو بہتر بنانے اور افریقی جدید کاری کے عمل کو تیز کرنے میں مدد ملے۔اس حوالے سے چین افریقہ تعاون فورم کا آئندہ اجلاس رواں سال موسم خزاں میں چین میں منعقد ہوگا۔ اس موقع پر چینی اور افریقی رہنما مستقبل کی ترقی اور تعاون کے منصوبوں پر تبادلہ خیال کریں گے اور گورننس میں گہرے تجربے کا تبادلہ کریں گے۔
وانگ ای نے کہا کہ مصنوعی ذہانت تیز رفتار ترقی کے ایک نازک مرحلے میں داخل ہو چکی ہے۔ ہم ترقی اور سلامتی پر یکساں توجہ دینے کی حمایت کرتے ہیں، اور مشترکہ طور پر مصنوعی ذہانت کی عالمی گورننس کو فروغ دینے کے خواہاں ہیں. اقوام متحدہ کے فریم ورک کے تحت مصنوعی ذہانت کے لئے ایک بین الاقوامی گورننس باڈی کے قیام سے تمام ممالک کو مصنوعی ذہانت کی ترقی میں حصہ لینے اور یکساں طور پر فائدہ اٹھانے کا موقع ملے گا۔