News Views Events

پاکستانی انڈسٹری آئی ایل او کے قوانین کی روشنی میں ورک فورس کو بہترین ماحول فراہم کر رہی ہے۔ میاں اکرم فرید

0

اسلام آباد:  انٹرنیشنل لیبر آرگنائزیشن (آئی یل او) جنیوا اور وفاقی وزارت برائے سمندر پار پاکستانی اور ترقی انسانی وسائل کے باہمی اشتراک سے ہونے والی دو روزہ سہ فریقی قومی لیبر کانفرنس اسلام آباد میں اختتام پذیر ہوگئی۔ آخری روز چئیرمین سینٹرل ایمپلائرز فیڈریشن آف پاکستان (ای ایف پی)، سابق سنئیر نائب صدر ایف پی سی سی آئی ، سابق صدر آئی سی سی آئی نے اپنے کلیدی خطاب میں پاکستانی انڈسٹری میں بین الاقوامی لیبر قوانین خصوصا آکیو پیشنل سیفٹی اینڈ ہیلتھ (او ایس ایچ) کے حوالے سے روشنی ڈالتے ہوئے کہا کہپاکستان شماریات بیورو کی رپورٹ کے مطابق پاکستان میں چار لاکھ سینتالیس ہزار پانچ سو کے قریب چھوٹے بڑے کارخانے ہیں جو پاکستان کی جی ڈی پی کا ٪64 حصہ ہے ، حالیہ برسوں پاکستانی انڈسٹری میں آئی ایل او کے لیبر قوانین کے حوالے سے کافی پیش رفت ہوئی ہیں اور انڈسٹریز اپنے ورکرز کی صحت اور حفاظت کے لئے آکیو پیشنل سیفٹی اینڈ ہیلتھ (او ایس ایچ) کے قوانین پر عملدراآمد کررہے ہیں بعض مقامات پر ورکرز آجر کی طرف سے فراہم کی گئی سہولیات جیسے سیفٹی ہیلمٹ، شوز اور داستانے استعمال کرنے میں کوتاہی برتے ہیں جسکی وجہ سے حادثات رونما ہوتے ہیں۔ اس حوالے سے ہم گاہے بگاہے ورکرز میں صحت اور حفاظتی اقدامات کی ٹریننگ دیتے رہتے ہیں جو کہ آئی ایل او کے حفاظتی قوانین کی ایک اہم شق ہے۔انہوں نے کام کےحوالے سے دشوار صنعتیں خصوصا اسٹیل ملز میں کام کرنے والے ورکرز کو خراج تحسین پیش کیا جو 1700 ڈگری کی تپش میں کام کرتا ہے اور ملکی ترقی میں اہم کردار ادا کر رہا ہے۔ پاکستان کو درپیش حالیہ ماحولیاتی آلودگی کے حوالے سے انہوں نے کہا کہ اسلام آباد کی فیکٹریاں کاربن کے اخراج کی وجہ سے ماحولیاتی آلودگی کا سبب بن رہی تھیں اس ضمن میں حکومت اور سپریم کورٹ کے احکامات جاری کئے کہ تمام کارخانے اور فیکٹریز کاربن کے اخراج کو کنٹرول کرے اور آج الحمداللہ اسلام آباد نہ صرف زیرو کاربن زون ہے بلکہ کاربن کی فروخت سے لاکھوں روپے کما رہے ہیں۔ آج تمام اسلام آباد کی ٖفیکٹریز حکومتی ماحولیاتی مانیٹیرنگ اداروں سے ہمہ وقت منسلک ہیں جہاں ان تمام کارخانوں اور فیکٹریوں کی براہ راست نگرانی کی جاتی ہیں۔ میاں اکرم نےوفاقی وزیر برائے سمندر پار پاکستانیز چوہدری سالک حسین صاحب کا شکریہ ادا کیا کی جن کی خصوصی دلچسپی کی وجہ سے ایک طویل عرصے کہ بعدپاکستان میں سہ فریقی قومی لیبر کانفرنس کا انعقاد ہوا۔ انہوں نے وفاقی وزارات برائے وزارت برائے سمندر پار پاکستانی اور ترقی انسانی وسائل اور انٹرنیشنل لیبر آرگنائزیشن (آئی یل او) جنیوا کا شکریہ بھی ادا کیا ۔ آئی ایل او کے کنٹری ڈائریکٹر گئیر ٹونسٹول نے کہا کہ اس کانفرنس میں پیش کی جانے والی تجاویز کی روشنی میں حکومت پاکستان کو چاہئے کی لیبر فورس کی آکیو پیشنل سیفٹی اینڈ ہیلتھ (او ایس ایچ) کے قوانین کو مزید فعال بنائے تاکہ مزدور اور لیبر کے حقوق کا بہتر انداز میں تحفظ ہوسکے۔ مہمان خصوصی آئی ایل او کے اسسٹنٹ ڈائریکٹر جنرل جنیوا ہاو بن نے حکومت پاکستان کا شکریہ ادا کیا کہ انھوں نے مزدوروں اور ورکرز کے حوالے سے اس اہم کانفرنس کا انعقاد کیا۔ انہوں نے اس امید کا اظہار کیا کہ کانفرنس کا انعقاد بلا تعطل مستقبل میں بھی ہوگا۔اسسٹنٹ ڈائریکٹر جنرل آئی ایل او جنیوا ویرا لوئیسیا نے کہا کہ آجر اور مزدور کے درمیان سوشل ڈائیلاگ نہ صرف تنازعات کا حل پیش کرتا ہے بلکہ کام کرنے کی جگہ پر خوشگوار اثر مرتب کرتا ہے۔برانچ چیف آکیو پیشنل سیفٹی اینڈ ہیلتھ (او ایس ایچ) جنیوا جوکین پینٹاڈو نونس نے تیسری دنیا کے ممالک، خاص طور پر پاکستان کو ورک پلیس کو مثالی بنانے ، اسکے بارے میں آگاہی بڑھانے اور ورک پلیس کی حفاظت اور صحت کو بہتر بنانے کے لیے آئی ایل او کے ڈیزائن کردہ جامع منصوبے اور پروگرام پیش کیے
وفاقی وزیر برائے سمندر پار پاکستانیز چوہدری سالک حسین نے انڈسٹری میں بین الاقوامی لیبر قوانین خصوصا آکیو پیشنل سیفٹی اینڈ ہیلتھ (او ایس ایچ) کے حوالے سےحکومتی اقدامات کا ذکر کرتے ہوئے کہا کہ حکومت پاکستان ٖفیکٹریوں اور کارخانوں کو آئی ایل او کے آکیو پیشنل سیفٹی اینڈ ہیلتھ پالیسی کی روشنی میں نہ صرف آگاہی پروگرام دے رہی ہے بلکہ ان پالیسیز پر عمل درآمد کے لئے خصوصی اقدامات بھی کررہی ہے۔ اس موقع پر انہوں نے اعلان کیا کہ قومی سہ فریقی لیبر کانفرنس اب ہر سال منعقد کی جائے گی۔
آخر میں وزارتِ وفاقی وزارت برائے سمندر پار پاکستانی اور ترقی انسانی وسائل کے سیکریٹری ڈاکٹر ارشد محمود نے تمام شرکاء خصوصا آئی ایل او کے سربراہان کی آمد کا شکریہ ادا کیا۔ اس موقع پر پاکستان بھر سے حکومتی نمائیندگان ، مزدور و ٹریڈیونیینز سے وابستہ افراد نے کثیر تعداد میں شرکت کی۔

Leave A Reply

Your email address will not be published.