انڈر سٹینڈنگ چائنا
جون ایلیا کہ گئے تھے ۔
ایک ہی حادثہ تو ہے اور وہ یہ کہ آج تک
بات نہیں کہی گئی،بات نہیں سنی گئی
میں اکثر اس شعر کو اپنے مضامین اور اپنی گفتگو میں شامل کرتا ہوں ۔اس کی وجہ یہ ہے کہ اس شعر سے انسانی تاریخ کے کئی جھگڑے،کئی لڑائیاں ،کئی جنگیں اور کئی غلط فہمیاں وابستہ ہیں۔انسان کا ہمیشہ سے یہ مسئلہ رہا ہے کہ وہ دوسرے کی بات سننے اور اسے سمجھنے میں پہلے پہل ہچکچاہٹ کا شکار رہتا ہے اور وقت گزرنے پر اگر دوسرے کے موقف اور اس کی رائے سے اتفاق نہ ہو اور مطابقت میں مشکل ہو تو ایک حد ایک دیوار اور ایک ان دیکھی لکیر قائم ہو جاتی ہے۔یہی لکیر ،حد اور دیوار کسی تنازع کی جانب لے جاتی ہے اور تفہیم کے سارے راستے منہ تکتے رہ جاتے ہیں۔سو حاصل یہ ہوا کہ دوسرے کی بات سننا اور اسے جاننا ضروری ہے۔یہ جاننا اہم ہے کہ اگر کوئی مختلف ہے تو کیوں ہے؟
انفرادی سطح سے لے کر معاشرتی سطح اور پھر بین الاقوامی سطح پر بھی یہی اصول لاگو ہوتا ہے۔لیکن دنیا کی تاریخ نے کئی جنگیں اسی لئے دیکھی ہیں کہ کسی ایک ملک کے نظریے،اس کی سوچ اور اس کامیابیوں کو کسی دوسرے نے قبول نہیں کیا۔موجودہ دنیا میں سرمایہ دارانہ نظام کی تقلید کے بعد سوشلزم کا نعرہ بلند ہوا تو اس سوچ کو بھی مذہب اور اقدار سے ٹکراؤ کی صورت میں دنیا کے سامنے پیش کیا گیا ااور پھر وہی ہوا جو نہ سننے اور نہ جاننے کی صورت میں ہوتا ہے۔ٹکراؤ۔۔۔
سرد جنگ کے خاتمے کے بعد بھی روس کی جغرافیائی تقسیم تو ہوئی لیکن سوشلزم آج بھی موجود ہے۔وقت نے اس کی شکل کو ضرور تبدیل کیا ہے لیکن ” کیا ایک منظم یا غیر منظم جنگ نے اسے شکست دے دی؟اس کا جواب حاصل کرنا ہے تو آپ کو یہ دیکھنا ہوگا کہ آج دنیا کی دو بڑی معاشی طاقتیں اور بڑے ذمہ دار ممالک روس اور چین میں اس نظام کا اس کی نئی شکل میں اطلاق نظر آتا ہے۔نظاموں کی یہی بنیادی جنگ تفریق بھی پیدا کرتی رہی ہے ۔ایک سوچ یہ ہے کہ جو نظام دنیا کی بڑی طاقتیں اپنے ہاں رائج کیے ہوئے ہیں اسی کو بزور طاقت اور پروپیگنڈا دنیا بھر میں نافذ کر دیا جائے لیکن یہ دیکھنا ضروری ہے کہ کیا کوئی نظام سارے ممالک کے مختلف جغرافیائی اور معروضی حالات میں نافذ ہو کر وہ نتائج دے سکتا ہے جو مطلوب ہیں؟مطلوب کیا ہے؟عوام کی خوشحالی اور ان سمیت دنیا کی ترقی۔تو اگر یہ مطلوب کسی اور نظام کے تحت حاصل کرلیا جاتا ہے اور اس ملک کے عوام اس سے مطمئن اور خوش ہیں تو پھر اس میں تبدیلی کا مطالبہ کیوں؟
اس حوالے سے چین کی یہ کوشش رہی ہے کہ بطور ایک کامیاب اور ذمہ دار ملک کے ،دنیا کو یہ پیغام دیا جائے کہ چین میں رائج نظام یہاں کے عوام کے لئے مطلوبہ نتائج حاصل کرنے می کامیاب رہا ہے اور اس کی کامیابی اس قدر ہے کہ باقی ممالک بھی اس سے سیکھ کر اپنے ہاں خوشحالی لا سکتے ہیں ۔
چین ،اس کے نظام اور اس کی ترقی کو سمجھنے کے لئے ہر سال انڈر سٹینڈنگ چائنا کانفرنس کا انعقاد کیا جاتا ہے۔ یہ کانفرنس یورپی یونین کے ایس ایم ای سینٹر کی جانب سے 2011 سے منعقد ہونے والی کلیدی پریزنٹیشنز، پینل مباحثوں اور ورکشاپس کا دو روزہ سالانہ سلسلہ ہے۔ کانفرنس کا مقصد اسٹیک ہولڈرز کو چین میں ہونے والی حالیہ پیش رفت اور رجحانات سے آگاہ کرنا اور یورپی چھوٹے اور درمیانے درجے کے کاروباری اداروں پر ممکنہ اثرات پر تبادلہ خیال کرنا ہے۔سال 2023 میں یہ کانفرنس یکم دسمبر سے 3 دسمبر تک چین کے شہر گوانگچو میں منعقد ہوئی جس کا موضوع تھا "تبدیلیوں کی صدی میں چین کی نئی کارکردگی: مفادات کی ہم آہنگی کو بڑھانا اور ہم نصیب معاشرے کی تعمیر” ۔اس کانفرنس کے آغاز پر چین کے صدر شی جن پھنگ نے کانفرنس کے نام اپنا ایک تہنیتی پیغام بھی بھیجا۔ 2013 میں قائم ہونے والی ، انڈر سٹینڈنگ چائنا بین الاقوامی کانفرنس چین کے غیر ملکی تبادلوں کے لئے ایک اہم بین الاقوامی پلیٹ فارم بن گئی ہے۔موجودہ کانفرنس میں 30 سے زائد ممالک اور خطوں کے 600 سے زائد مہمانوں نے شرکت کی۔ اجلاس میں موجود مہمانوں کا خیال تھا کہ صدر شی جن پھنگ کے تہنیتی خط میں آج کی دنیا کے عمومی رجحان کا معقول تجزیہ کیا گیا ہے، جس میں کہا گیا ہے کہ چین کو سمجھنے کی کلید چینی طرز کی جدیدیت کو سمجھنا ہے، اور پرامن ترقی، باہمی فائدہ مند تعاون اور مشترکہ خوشحالی کی عالمی جدیدکاری کے حصول کے لیے دیگر ممالک کے ساتھ مل کر کام کرنے کی چین کی مخلصانہ خواہش کا اظہار کیا گیا ہے ۔ کانفرنس سے ایک بار پھر دنیا پر چینی طرز کی جدیدیت کی ترقی کے مثبت اثرات کو سمجھنے میں مدد ملی۔ شرکاء کا خیال تھا کہ اس اہم پلیٹ فارم نے مختلف ممالک اور تہذیبوں کے درمیان ” مفاہمت کو بڑھانے اور دنیا کے لئے چین کو سمجھنے میں مفید کردار ادا کیا ہے۔
چائنا میڈیا گروپ کے ساتھ ایک خصوصی انٹرویو میں پاکستانی سینیٹ کی دفاعی کمیٹی کے چیئرمین اور پاک چین ایسوسی ایشن کے چیئرمین ،مشاہد حسین سید کا ماننا ہے کہ آج دنیا پرامن نہیں ہے اور فلسطین اسرائیل اور روس یوکرین تنازعہ سب کے سامنے واضح ہے۔ انہوں نے کہا کہ چینی صدر شی جن پھنگ کی جانب سے تجویز کردہ گلوبل ڈیولپمنٹ انیشی ایٹو، گلوبل سیکیورٹی انیشی ایٹو اور گلوبل سولائزیشن انیشی ایٹو ہمیں تمام ممالک کی تقدیر کو ایک جامع نقطہ نظر سے دیکھنے کا موقع دیتا ہے اور بتاتا ہے کہ ہم ایک کمیونٹی ہیں اور کوئی بھی ملک تنہا نہیں رہ سکتا۔
بے مثال عالمی تبدیلیوں کے درمیان چین کی نئی کوششیں – مفادات کی ہم آہنگی میں توسیع اور مشترکہ مستقبل کی کمیونٹی کی تعمیر” کے موضوع کے تحت، عہدیداروں، ماہرین، کاروباری افراد، غیر ملکی سفیروں اور بین الاقوامی تنظیموں اور ملٹی نیشنل کمپنیوں کے نمائندوں نے عالمی سلامتی اور ترقیاتی امور جیسے کچھ اہم عالمی موضوعات پر تبادلہ خیال کیا اور خیالات کا تبادلہ کیا۔
کانفرنس میں شریک ماہرین نے تسلیم کیا کہ گزشتہ دہائی کے دوران، دنیا نے عالمی تبدیلیوں کے درمیان چین کی تیز رفتار ترقی کا مشاہدہ کیا ہے اور چین سمیت دنیا نے مختلف ممالک اور تہذیبوں کے درمیان ‘تفہیم کی کمی’ کو تسلیم کیا ہے ۔
2013 سے 2021 تک عالمی اقتصادی ترقی میں چین کا اوسط حصہ 30 فیصد سے زیادہ تھا ، جو عالمی اقتصادی توسیع کے لئے ایک اہم اسٹیبلائزر اور محرک قوت کے طور پر ابھر رہا ہے۔ شدید جغرافیائی سیاسی مسابقت، بڑھتے ہوئے یکطرفہ اور تحفظ پسندی جیسے چیلنجوں کا سامنا کرتے ہوئے چین گلوبلائزیشن کو آگے بڑھانے والی ایک اہم قوت بننے کے لئے پرعزم ہے۔ مغربی ممالک کی طرح کسی بھی ملک کو اپنے نظام پر بات کرنے کامکمل حق حاصل ہے ۔اس تاثر کو بھی ختم کرنے کی ضرورت ہے کہ مغربی طرز کی جمہوریت کا پوری دنیا میں مکمل نفاذ ہی اس دنیا کی کامیابی ہے اور یہی سب سے بہترین نظام ہے ۔دنیا کے سامنے اس نقطہ پر دلائل کے لیے ہمارے سامنے کئی مثالیں موجود ہیں ۔عرب ممالک میں عوام اگر اپنے نظام سے مطمئن ہیں اور انہیں غربت ،افلاس ،دہشت گردی اور انتہا پسندی کا سامنا نہیں ہے تو کیا ضروری ہے کہ وہاں مغربی جمہوریت کا پرچار اور اسے نافذکرنے کے لیے بے شمار کوششیں کی جائیں؟اسی طرح روس اور چین دو ایسے بڑے ممالک ہیں جہاں ان کا اپنا بنایا گیا اور اختیار کیا گیا ایک نظام ہے جس میں سیاست بھی ہے اور انتخاب بھی۔بلکہ اگر یہ کہا جائے تو زیادہ بہتر ہو گا کہ ان ممالک میں رائج نظام نے دنیا کی کل آبادی کے ایک بڑے حصے کو غربت ،افلاس اور بھوک سے مرنے نہیں دیا بلکہ انہیں غربت سے نکال کر دنیا کی کامیابی میں اپنا کردار ادا کیا ہے ۔سو اگر کامیابی کا ایک یہ نمونہ ہمارے سامنے ہے تو کیا قباحت ہے کہ اس نظام پر بات نہ کی جائے اور اسے اپنے طور پر ،اپنے ملکی حالات،اپنے مسائل اور اپنی ضروریات کے تحت اختیار نہ کیا جائے ؟یہ بھی ذہن میں رہے کہ کسی بھی نظام کو اختیار کرنے کا مقصد ہر گز یہ نہ ہو کہ اسے کلی طور پر اختیار کرلیا جائے بلکہ اپنی تاریخ ،تجربے اور اپنے تقاضوں کے مد نظر اس میں تبدیلیاں ضروری ہیں ۔
اس حقیقت سے کون انکار کر سکتا ہے کہ چینی طرز کی جمہوریت نے لاکھوں لوگوں کو خوش حال زندگی دی ہے اور گزشتہ 10 سالوں میں 800 ملین لوگوں کو غربت سے نکالا گیا ہے جس کا اعتراف خود اقوام متحدہ کر چکا ہے ۔
دنیا میں اگر مختلف تہذیبیں، ثقافتیں اور معاشرے ہیں، تو صرف ایک جمہوری نظام ہی کیوں رائج ہو؟ جمہوریت کے مختلف راستے اور نقطہ نظر ہیں۔ ہر ملک اور معاشرے کو اپنے جغرافیائی حالات اور تاریخی پس منظر کے مطابق جمہوریت کا اپنا راستہ منتخب کرنا چاہیے اور کسی بھی قسم کی جمہوریت کا مقصد عوام کو فائدہ پہنچانا ہونا چاہیے۔