بلوچستان کی بڑھتی ہوئی سیاسی و جغرافیائی اہمیت
تحریر : ایس اے گھمن
آصف علی زرداری بلاول بھٹو زرداری نے پارٹی کے 56 ویں یوم تاسیس کے لئے اس دفعہ بلوچستان کے دارلحکومت کوئٹہ کا انتخاب کیا جبکہ اس سے قبل میاں نواز شریف نے ترک جلا وطنی کے بعد پہلا سیاسی پاور شو بھی بلوچستان سے کیا تھا اسی طرح جے یو آئی ف نے تو بلوچستان میں 2023 کے آغاز سے ہی بلوچستان میں اپنے سیاسی کارڈ شو کر دیئے ہیں، پاکستانی سیاست میں بلوچستان اس قدر اچانک اہمیت کیوں اختیار کر گیا ہے ، اس پر تبصرے تذکرے جاری ہیں بعض قلم کار یا سیاست دان اس منظر نامے کو پاکستان کے معاشی معاملات سے جوڑ رہے ہیں اور آئیندہ ملکی سیاست و معشیت کو بلوچستان سے منسوب کرتے نظر آتے ہیں لیکن میرے نذدیک بلوچستان اپنی جغرافیائی اہمیت کے باعث پاکستانی سیاست معشیت اور استحکام کا مسلہ بن چکا ہے، اور میں بلوچستان کو صرف پاکستان کے تناظر میں دیکھنا نہیں چاہتا بلکہ یہاں کے معاملات کو بین القوامی تناظر کا حصہ سمجھتے ھوئے خطے میں آئیندہ رونما ھونے والے واقعات و حادثات کے زاویے سے دیکھ رہا ھوں، بلوچستان ، پاکستانی اسٹیبلشمنٹ، کی دلچسپی کا مرکز بن چکا ہے اس وقت اور ہماری اسٹیبلشمنٹ کو اس وقت جو سیاسی ، سماجی معاشی میدان میں کرنا مقصود ہے وہ کئے جا رہے ہیں ، 2023 میں نگران حکومت میں بلوچستان کو اہمیت دینے کی اصل وجوہات بھی خطے میں بڑھتے ھوئے ملکی سلامتی و استحکام کے مسائل ہی ہیں اور 2024 کے عام انتخابات کے انعقاد میں التواء بھی خطے میں بین قوامی منظر نامے کا حصہ ھونگے، اور اس مسلے پر پاکستان میں بڑے اداروں کا آمنے سامنے آنا بھی متوقع ہے خو صورتحال واضع ہے اس کو نظر انداز کرنا یا اہمیت نہ دینا شاید حماقت ھوگا، افغانستان سے امریکی انخلاء کے موقع پر پاکستان میں جو ماحول بنا اس پر ہمارے تجزیہ نگاروں نے کافی خوش فہمی کا اظہار کرتے ھوئے افغان طالبان کو فاتح کرار دے کر نیٹو فورسسز کی شکست کو اپنی فتح ظاہر کر رہے تھے، لیکن میں دراصل اس امریکہ فوجی انخلا کو امریکہ کو بحفاظت خطے سے بغیر شکست کھائے راستہ دینے کے مترادف قرار دیتا ہون افغان جہاد میں اگر شکست ھوئی ہے تو روس اور اسکے نظام کو ھوئی تھی جس کے شیرازے تو بکھر گئے امریکہ کو افغان وار میں میرے نذدیک شکست نہیں ہوئی بلکہ انہوں نے ایک طویل جنگی مشق اور تجربات سمیٹ کر واپسی کا راستہ خود اختیار کیا، امریکہ نے در اصل روس افغان جنگ کے دوران وہ تمام حکمت عملی کا راز جاننے کے لئے افغانستان میں مداخلت کی، اور افغانستان میں جنگی قوتوں کو ہاتھ میں لینے اور پاکستان کو افغان روس جہاد میں پی ٹی ٹھیکدار کے طور پر پیش کرنے میں کامیاب رہا آج طالبان حکومت نے جو رویہ پاکستان کے بارے میں اختیار کیا یہ دوحہ مزکرات ہی سے ظاہر ھو چکا تھا افغان طالبان 2001 میں اپنی پہلی حکومت کے خاتمے سے قبل اپنے اندرونی صفوں میں پاکستان کے کردار پر انگلیاں اٹھا رہے تھے ، اور طالبان کے اندرونی صفوں میں پاکستانی کردار پر جو اعتراضات کا اظہار کیا جارہا تھا طالبان کے اندر ایسے اس سوچ و فکر کو آگے بڑھانے کا جو کام سرانجام دے رہے تھے وہ ملا منصور کے ہم خیال گروہ کے لوگ تھے ملا منصور نے قطر سے انہتائی روابط و قربتیں بڑھائیں اور طالبان کی پہلی دور حکومت میں طالبان کا قطر میں سفیر بھی ملا منصور کے بھائی تھے ، جہاں سے امریکہ ،چین ، ایران سمیت مختلف ممالک سے مزکرات کے لئے قطر حکومت کے توسط سے آغاز لیا گیا تھا نتیجہ یہ ھوا کہ ملا منصور جو کہ اس مزکراتی عمل کے بانی اور حامی تھے اور وہ چاہتے تھے کہ اس مزکرات کے عمل سے پاکستان کو دور رکھا جائے، لیکن وہ پاکستان کے بغیر یہ مزکرات جاری رکھنے میں کامیاب نہ رہا اور یہ سلسلہ کچھ عرصے کے لئے پس منظر میں چلی گئی افغان طالبان چونکہ جانتے تھے اور وہ پاکستان کے بارے تحفظات بھی رکھتے تھے لیکن بعض وجوہات کی بنا پر اسکو ظاہر ھونے نہیں دیا انہوں نے مزکرات کے عمل کو دو طرح جاری رکھا ایک پاکستان کی موجودگی میں اور ایک اندرونی مزکرات کے عمل، کے ذریعے معاملات کو آگے بڑھایا گیا ، جسمیں طالبان کامیاب رہے اور امریکی جو چاہتے تھے وہ حاصل کرنے میں کامیاب ھوئے ، اور افغانستان سے انخلاء کا عمل شروع کیا گیا، امریکہ کو بحفاظت خطے سے نکلے میں راستہ دینا تاریخی غلطی تھا پاکستان کے لئے لیکن یہ مجبوری بھی بن چکا تھا کیونکہ افغان طالبان اس پر راضی تھے، اور اس دوران قائم افغان حکومت بھی اس پر راضی تھا اور دوحہ معائدے کے تحت طالبان کو افغان حکومت نے بہ آسانی بغیر جنگ و جدل قبضہ کرنے دیا ، دوحہ مزکرات، کے بعض طے شدہ معائدے آج بھی پاکستان کے علم میں نہ ھونگے لیکن پاکستان کو اسکا اندازہ ابھی ھو چکا ہے، اس لئے مستقبل میں جو خطے میں صورتحال پیدا کی جارہی ہے اسکا مرکز بھی بلوچستان کو چنا گیا ہے، چین کی افغان طالبان سے قربتیں بہت معنی رکھتی ہیں، اور ساتھ ہی میاں نواز شریف اور چین کے تعلقات بھی وقت کی ضرورت بن چکے ہیں۔ پیپلزز پارٹی کے علاؤہ ماضی میں بلوچستان میں دو دفعہ حکومت بنانے والی مسلم لیگ ق بھی چوہدری شجاعت حسین کی قیادت میں بلوچستان میں سرپرائز دینے کی تیاری کر رہی ہے اور مولانا فضل الرحمان بھی بلوچستان میں اہمیت اختیار کر چکے ہیں