News Views Events

کاپ 28۔کیا دنیا اعلامیے سے  بڑھ کر کچھ کر پائے گی ؟

0

 

اعتصام الحق ثاقب

 موسمیاتی تبدیلی سے متعلق اقوام متحدہ کے فریم ورک کنونشن ) کاپ 28 کے فریقوں کی( کانفرنس کا 28 واں اجلاس 30 نومبر کو دبئی، متحدہ عرب امارات میں شروع ہو چکا ہے جو 12 دسمبر تک جاری رہے گا۔یہ اجلاس 2015 کے پیرس معاہدے کے اہداف کی جانب دنیا کی اجتماعی پیش رفت کا پہلا دو سالہ جائزہ لے گا جو  عالمی موسمیاتی نظم و نسق کے لئے  مرحلہ وار اہمیت کا حامل ہے۔بین الاقوامی برادری  کی توقع ہے ہے کہ تمام فریق موسمیاتی تبدیلی سے متعلق اقوام متحدہ کے فریم ورک کنونشن میں بیان کردہ مقاصد، اصولوں اور ادارہ جاتی انتظامات کی پاسداری کریں گے اور توجہ اور تعاون میں اضافے کا مثبت اشارہ  دیں گے ۔

اس سال کاپ 28کا موضوع متحد، ایکٹ کی فراہمی ہے  جو  موسمیاتی تبدیلی سے مشترکہ طور پر نمٹنے کے لئے بین الاقوامی برادری کی خواہش کی عکاسی کرتا ہے۔ موسمیاتی تبدیلی سے متعلق اقوام متحدہ کے فریم ورک کنونشن سیکرٹریٹ کی طرف سے جاری کردہ ایک حالیہ رپورٹ کے مطابق ، موسمیاتی ایکشن پلان پیرس معاہدے کے اہداف کو پورا کرنے کے لئے ناکافی ہیں۔اقوام متحدہ کے سیکرٹری جنرل انتونیو گوتریس نے کہا کہ کاپ  28 موسمیاتی عزائم کے فرق کو فوری طور پر ختم کرنے کا مقام ہونی چاہئے ، اور ترقی یافتہ ممالک کو "اپنے مالی وعدوں کو پورا کرتے ہوئے”  ترقی پزیر ممالک کا اعتماد بحال کرنا چاہئے۔

موسمیاتی تبدیلی اس وقت کتنا بڑا مسئلہ ہے اس کا اندازہ اس سے بھی کیا جا سکتا ہے کہ دنیا کی کوئی تنظیم ،ترقی یافتہ ممالک کے سربراہان کی ملاقاتیں اور اور خطے کی تنظیموں کے کسی بھی اجلاس میں یہ  موضوع  زیر بحث رہتا ہے ۔ چین اور امریکہ کے سربراہان کی سان فرانسسکو میں ہونے والی حالیہ ملاقات میں بھی  دونوں سربراہان مملکت نے  آب و ہوا کے بحران سے نمٹنے کی کوششوں کو تیز کرنے کے لئے مل کر کام کرنے کی اہمیت پر زور دیا ۔دنیا میں کم ممالک ایسے ہیں جنہوں نے اقوام متحدہ کے  پائدار ترقیاتی اہداف کے حصول میں اپنے وعدوں کے بعد سر توڑ کوششیں  کی ہیں اور کامیابیاں بھی حاصل کی ہیں ۔پائیدار ترقیاتی اہداف کا حصول کسی صورت بھی موسمیاتی تبدیلی کے مسئلے سے ہٹ کر حل  نہیں کیا جا سکتا۔عالمی سطح پر قدرتی آفات اور جغرافیائی تبدیلیوں نے دنیا کے مجموعی مسائل میں بھی اضافہ کیا ہے اسی لئے ضروری ہے کہ دنیا کے عوام کی خوشحالی کے لئے اس مسئلے سے مل کر نمٹا جائے لیکن انفرادی کوششوں کے بغیر بھی یہ ممکن نہیں ۔دنیا کی بڑی معیشتوں ،بڑے ممالک اور زیادہ آبادیاں رکھنے والے ممالک کو  اپنی انفرادی کوششوں سے اس مجموعی ہدف کو حاصل کرنا ہوگا ۔اس کی حالیہ مثال چین سے لی جا سکتی ہے ۔ چین نے اس سال کے آغاز سے کامیاب کاپ  28 کو فروغ دینے اور پیرس معاہدے کے جامع اور مؤثر نفاذ کو فروغ دینے کے لئے تمام فریقوں کے ساتھ قریبی رابطہ برقرار رکھا ۔

چین نے موسمیاتی تبدیلی سے فعال طور پر نمٹنے کے لئے ایک قومی حکمت عملی نافذ کی ہے، اپنے کاربن پیک اور کاربن غیر جانبداری کے اہداف کا اعلان کیا ہے، اور کاربن  پیک اور کاربن نیوٹریلٹی کے لئے "پالیسی فریم ورک قائم کیا ہے۔چین نے صنعت، توانائی اور نقل و حمل کی ساختی ایڈجسٹمنٹ کو فروغ دیا ہے، توانائی کی بچت اور کارکردگی کو بہتر بنانے کے اقدامات کو اپنایا ہے، مارکیٹ میکانزم قائم اور بہتر بنایا ہے، اور جنگلاتی کاربن سنک میں اضافہ کیا ہے  ۔یہی وجہ ہے کہ  2022 میں چین میں کاربن کے اخراج کی شدت میں 2005 کی سطح کے مقابلے میں 51 فیصد کمی واقع ہوئی۔

آب و ہوا کی تبدیلی سے نمٹنا پوری انسانیت کا مشترکہ مقصد ہے۔ تمام فریقین کو موسمیاتی تبدیلی سے متعلق اقوام متحدہ کے فریم ورک کنونشن کو عالمی موسمیاتی حکمرانی کے لئے مرکزی چینل کے طور پر برقرار رکھنا چاہئے ، مشترکہ لیکن امتیازی ذمہ داریوں کے اصول پر کاربند رہنا چاہئے ، اور کنونشن اور پیرس معاہدے کے مکمل اور موثر نفاذ کو فروغ دینا چاہئے۔

بڑھتے ہوئے موسمیاتی چیلنجوں کے پیش نظر، پاکستان، جو عالمی گرین ہاؤس گیسوں کے اخراج میں ایک فیصد سے بھی کم حصہ ڈالتا ہے، موسمیاتی مسائل کے خلاف ایک بڑی جنگ کا سامنا کر رہا ہے.موسمیاتی تبدیلی وں کے حوالے سے پاکستان کی کمزوری واضح طور پر عیاں ہے۔عالمی بینک کا کہنا ہے کہ ملک میں شدید موسمی واقعات کا سامنا کرنے والوں کی تعداد میں ڈرامائی طور پر اضافہ ہوا ہے اور  گزشتہ سال کے  سیلاب اس رجحان کی مثال ہے۔ان سیلابوں نے نہ صرف برادریوں کو تباہ کر دیا بلکہ آب و ہوا کو برداشت کرنے والی حکمت عملی کی فوری ضرورت کو بھی اجاگر کیا۔پاکستان پر عالمی موسمیاتی تبدیلی کے اس غیر متناسب اثرات نے  کاپ 28 جیسے بین الاقوامی فورمز پر توجہ حاصل کی ہے۔

گزشتہ سال ہونے والی کاپ 27 میں موسمیاتی تبدیلی  کا شکا ر ہونے والے ممالک کے لئے فنڈز کے قیام کی منظوری  کے اقدا م کو دنیا بھر میں سراہا گیا لیکن سال گزر  جانے کے بعد بھی اس میں وہ تیزی نہیں آئی جس کی ضرورت تھی۔ چین اور پاکستان  سمیت کئی ممالک نے ہر فورم پر بارہا اس ضرورت کا  اعادہ کیا  تاکہ اس مسئلے سے جنگی بنیادوں پر نمٹنے کی صلاحیت حاصل کی جا سکے۔کاپ 28 میں چین نے موسمیاتی تبدیلیوں سے نمٹنے کے لیے اپنی تین تجاویز بھی پیش کیں۔  پہلی  یہ کہ کثیرالجہتی پر عمل کیا جائے، موسمیاتی تبدیلی اور پیرس معاہدے پر اقوام متحدہ کے فریم ورک کنونشن میں طے شدہ اہداف اور اصولوں کی پاسداری کی جائے، یکجہتی اور تعاون میں اضافہ کیا جائے اور باہمی فائدے اور فائدہ مند نتائج حاصل کیے جائیں۔دوسری تجویز  گرین ٹرانسفارمیشن کو تیز کرنا، قابل تجدید توانائی کے تناسب میں فعال طور پر اضافہ کرنا، صاف، کم کاربن اور روایتی توانائی کے موثر استعمال کو فروغ دینا، اور سبز اور کم کاربن پیداوار کے طریقوں اور طرز زندگی کی تشکیل کو تیز کرنا ہے.تیسری یہ  کہ کارروائی کے نفاذ کو مضبوط بنایا جائے اور موجودہ وعدوں کا مکمل احترام کیا جائے۔ خاص طور پر، ترقی یافتہ ممالک کو ترقی پذیر ممالک کے وژن کو حقیقت میں تبدیل کرنے کے لئے مالی، تکنیکی اور صلاحیت سازی کی مدد کو مؤثر طریقے سے بڑھانا چاہئے۔

شاید اب وقت نہیں رہا کہ  اس موقع کو زبانی بیانے کے طو ر پر گزار دیا جائے۔عالمی حالات میں مربوط کوششیں  ہی ہوں گی جو اس مسئلے سے چھٹکارا دلا پائیں گی لیکن اس کے لیے سنجیدہ اقدامات اور عمل کی ضرورت ہے۔یقیناً اس کا ادراک دنیا  کے ہر ملک کو ہے لیکن اس کا تدارک کیسے اور کتنا جلدی ہونا ہے اس کا فیصلہ کاپ 28 کے اعلامیے میں درج ہونا چاہیئے۔

Leave A Reply

Your email address will not be published.