شی جو بائیڈن ملاقات کے بعد کامنظر نامہ
اعتصام الحق ثاقب
چین کے صدر شی جن پھنگ اور ان کے امریکی ہم منصب جو بائیڈن کے درمیان حالیہ ملاقات کے بعد اس امید میں اضافہ ہوا ہے کہ دنیا کی دو بڑی معیشتوں کے درمیان مواصلات، مکالمے اور مشاورت میں اضافے سے تعاون کو تقویت ملے گی، مشترکہ مفادات کو ہم آہنگ کیا جائے گا اور عالمی منظر نامے میں اقوام کے مابین اعتماد میں اور یقین میں اضافہ ہوا ہے
باہمی اعتماد اور ہم آہنگی کے ساتھ دوسری جانب دوطرفہ اقتصادی اور تجارتی تعاون ہے جسے کافی عرصے سے چین اور امریکہ کے درمیان پائیدار تعلقات کی مضبوط بنیاد اور ایک محرک قوت کے طور پر دیکھا جاتا ہے ۔ کافی طویل عرصے بعد ان تعلقات میں مثبت بحالی اور تبادلوں کے سلسلے نے دونوں فریقوں اور عالمی معیشت کو ایک مثبت پیغام بھیجا ہے۔
سان فرانسسکو میں سربراہ اجلاس کے دوران چین اور امریکہ کے درمیان اہم اتفاق رائے میں سے ایک اتفاق رائے یہ ہے کہ دونوں ممالک نے اعلی سطح پر بات چیت کے عمل میں مزید تیزی لانے کا فیصلہ کیا ہے اور اپنے مابین تعلقات میں وسعت کے لیے مشاورت شروع کرنے پر اتفاق کیا ہے ۔ دونوں ممالک سائنس ،ٹیکنالوجی اور ذراعت کے شعبے میں تعاون کو دوبارہ شروع کرنے کے بارے میں بھی حوصلہ افزا پیش رفت کی ہے اور یہ طے کیا ہے کہ اقتصادی طور پر علیحدگی کی کوشش کی بجائے صحت مند اقتصادی تعلقات کی ترقی کا خیر مقدم کیا جائے گا ۔
چین کے نائب وزیر خزانہ لیاؤ من نے اجلاس سے قبل چین کے نائب وزیر اعظم ہی لیفنگ اور امریکی وزیر خزانہ جینٹ یلین کے درمیان ہونے والی بات چیت کا حوالہ دیتے ہوئے کہا کہ چین اور امریکہ نے مواصلات کو بڑھانے، اتفاق رائے حاصل کرنے، تنازعات سے نمٹنے اور غلط فہمیوں سے بچنے پر اتفاق کیا ہے۔اس اتفاق رائے میں یوں بھی حقیقت ہے کہ دونوں ممالک کی اقتصادی جڑیں ایک دوسرے کے ساتھ اور بین الاقوامی دنیا کے ساتھ جڑی ہوئی ہیں ۔اس ملاقات سے قبل چین اور امریکہ کے وزرائے تجارت نے 30 ویں اے پی ای سی اقتصادی رہنماؤں کے اجلاس کے موقع پر بھی ملاقات کی تھی ۔ رواں برس اگست میں جب امریکی وزیر تجارت جینا ریمنڈو نے چین کا دورہ کیا تھا تو نئے مواصلاتی نظام کے اعلان کے بعد یہ وزارتی سطح کی پہلی بات چیت تھی۔دونوں ممالک نے متعلقہ شعبوں میں تبادلوں کو تیز کرنے پر اتفاق تو کیا لیکن دونوں فریقوں نے اقتصادی میدان سے متعلق قومی سلامتی کے امور پر بھی تفصیلی تبادلہ خیال کیا۔اس موقع پر چین کے وزیر تجارت وانگ وینٹاؤ نے اجلاس میں کہا کہ اس طرح کی بات چیت کرنا بہت ضروری ہے کیونکہ قومی سلامتی کے تصور کو حد سے زیادہ پیش کر نے اور اسے بلا ضرورت سیاسی رنگ دینے سے تجارت اور سرمایہ کاری کی سرگرمیاں متاثر ہو تی ہیں اورہو ں گی۔
اس ملاقات اور دوونں ممالک کے مابین تعلقات کی اہمیت کا اندازہ اس بات بھی لگایا جا سکتا ہے کہ بین الاقوامی مالیاتی فنڈ (آئی ایم ایف) کی منیجنگ ڈائریکٹر نے اسے تعمیری بات چیت’ قرار دیا ہے اور کہا کہ یہ ایک اہم اشارہ ہے کہ تعاون ہر ایک کو فائدہ پہنچا سکتا ہے۔یہی نہیں بلکہ کاروباری حلقوں نے بھی اس پیش رفت پر ا اچھے جزبات کا اظہار کیا ہے ۔ شنگھائی میں امریکن چیمبر آف کامرس (ایم چیم شنگھائی) نے بھی سربراہی اجلاس کے بعد ایک بیان میں مذاکرات کو "ایک مثبت اشارہ” قرار دیا اور کہا کہ "دونوں ممالک دنیا کے سب سے اہم جغرافیائی سیاسی تعلقات کو سنبھالنے کے لئے پرعزم ہیں۔
اس ماہ کے اوائل میں شنگھائی میں چھٹی چائنا انٹرنیشنل امپورٹ ایکسپو میں نمائش کنندگان کی جانب سے مجموعی طور پر 505 ملین امریکی ڈالر مالیت کے معاہدوں پر دستخط کیے گئے۔امریکی محکمہ زراعت اور شنگھائی میں امریکن چیمبر آف کامرس کی مشترکہ میزبانی میں بننے والے اس پویلین میں چھ سال میں امریکی حکومت کی پہلی شرکت ہے۔چین امریکہ تعلقات میں اتار چڑھاؤ کے باوجود مضبوط تجارت ان تعلقات کی آئینہ دار ہے حالیہ بروسوں میں جاری تنازعات اور وبا کے دوران بھی اس تجارت نے استحکام برقارار رکھا ہے ۔ اس کا ثبوت چین کے سرکاری اعداد و شمار ہیں جن کے مطابق 2022 ء میں دو طرفہ تجارت تقریبا 760 ارب امریکی ڈالر کی ریکارڈ سطح پر تھیں ۔
عالمی سطح پر درپیش چیلنجز کی بات کی جائے تو موسمیاتی تبدیلی ایک بہت بڑا مسئلہ ہے جس کا ذکر دونوں ممالک کی حالیہ ملاقات میں بھی رہا ہے ۔دونوں ممالک نے موسمیاتی تبدیلی سے متعلق اقتصادی مسائل اور ان کے حل کا بھی ذکر کیا ہے اور مستقبل میں عالمی دنیا کے لئے موسمیاتی تبدیلیوں سے متعلق مشکالت کا سامنا کرتے ہوئے اس سے بڑی تسلی نہیں ہو سکتی کہ دنیا کی دو بڑی معیشیں اس حوالے سے ایک پیج پر ہوں ۔
اس میں کوئی شک نہیں کہ حالیہ ملاقات ایک بڑا بریک تھرو ہے۔وہ اس لئے کہ چین اور امریکہ جیسے بڑے ممالک جو دنیا کی دو بڑی معیشتوں کے حامل ہیں،اگر مستقل بات چیت اور باہمی ہم آہنگی سے آہستہ آہستہ ہی سہی لیکن اہم اتفاق رائے پر پہنچتے ہیں تو اس کا فائدہ صرف ان دو ممالک کو ہی نہیں بلکہ دنیا کہ بھی پہنچے گا۔یہ طے کہ دنیا کسی دھڑے بندی اور محاز آرائی کی سیاست سے نہیں بلکہ باہمی احترام اور جائز خدشات کی دوری سے ہی ترقی کی منازل طے کر سکتی ہے،اور یہی وہ لازمی اور واحد طریقہ ہے جو اس دنیا میں بسنے والے ہر شخص کے امن اور خوشحالی کے حقیقی خواب کی تکمیل کر سکتا ہے۔