ایران، عراق اور سعودی عرب جا کر بھیک مانگتے ہیں زیارتوں کا سفر بھی ہو جاتا تھا اور پیسے بھی بن جاتے تھے
رواں ماہ 5 اکتوبر کو دو خواتین اور دو مردوں پر مشتمل ایک گروپ مبینہ طور پر بھیک مانگنے کی غرض سے عمرہ زائرین بن کر سعودی عرب جانے کے لیے لاہور کے علامہ اقبال ائیرپورٹ پر پہنچا۔
پنجاب کے ضلع قصور سے تعلق رکھنے والے بھکاریوں کے اس ’منظم گروہ‘ میں نسرین بی بی، اُن کے چچا اسلم، چچی پروین اور بھائی عارف شامل تھے۔
یہ چاروں قریبی رشتہ دار سہانے خواب لیے ایئرپورٹ پر واقع ایف آئی اے امیگریشن کاؤنٹر پر پہنچے۔
نسرین بی بی اس سے پہلے 16 مرتبہ جبکہ پروین نو مرتبہ پاکستان سے باہر عمرہ کی ادائیگی یا زیارتوں پر جانے کے بہانے بھیک مانگنے کے لیے سعودی عرب، ایران اور عراق جا چکی تھیں۔ اسلم اور عارف اگرچہ سعودی عرب تو پہلی بار جا رہے تھے لیکن ماضی میں وہ متعدد مرتبہ ایران اور عراق زیارتوں کے بہانے بھیک مانگنے کے لیے سفر کر چکے تھے۔
ایف آئی اے امیگریشن پر تعینات اہلکاروں نے ان چاروں افراد سے پوچھ گچھ کے بعد انھیں جہاز میں سوار ہونے سے روک دیا اور ’ٹریفکنگ اِن پرسن ایکٹ 2018‘ کے تحت مقدمہ درج کرتے ہوئے انھیں گرفتار کر لیا۔
ایف آئی آر کے مطابق دوران تفتیش چاروں ملزمان نے اعتراف کیا کہ وہ سعودی عرب عمرہ زائرین کے بھیس میں جا رہے تھے حالانکہ ان کا اصل مقصد وہاں جا کر بھیک مانگنا تھا۔
برطانوی خبررساں ادارے(بی بی سی )کو دستیاب ایف آئی آر کے متن کے مطابق یہ تمام ملزمان پہلے بھی سعودی عرب، ایران اور عراق بھیک مانگنے کی غرض سے جا چکے ہیں۔ ایف آئی آر کے مطابق ملزمان اور ان کے ایجنٹ جہاں زیب کے درمیان موبائل پر بھیجے گئے پیغامات سے بھی اس گروہ کے باہر کے ممالک میں جا کر بھیک مانگنے کے شواہد ملے ہیں اور ان کے موبائلز فرانزک کے لیے بھجوا دیے گئے ہیں۔
نسرین بی بی اور پروین کو جوڈیشل ریمانڈ پر جیل بھیج دیا گیا جبکہ دیگر دونوں ملزمان محمد اسلم اور عارف مزید پوچھ گچھ کے لیے حوالات میں بند ہیں۔
نو اکتوبر کو مقامی عدالت میں پیشی کے موقع پر عدالت کے باہر بی بی سی نے نسرین بی بی سے بات کی تو ان کا کہنا تھا کہ ’کیا ہمیں اس طرح پکڑنے سے یہ مسئلہ حل ہو جائے گا، کیا اس ملک میں لوگ بھوک سے نہیں مر رہے، کیا روزی کمانے کا اختیار نہیں ہونا چاہیے۔‘
نسرین بی بی کے مطابق ’ایسی گرفتاریوں سے یہ کام رُکنے والا نہیں۔ ہم غریبوں کو تو آرام سے پکڑ لیا، کیا کبھی کسی طاقتور کو بھی پکڑا ہے یہاں۔‘
جب ان سے سوال کیا گیا کہ کیا بیرون ملک جا کر بھیک مانگنے سے پاکستان کی بدنامی نہیں ہوتی تو انھوں نے جواب دیا کہ ’پہلے کون سے جھنڈے لگے ہیں۔‘
واضح رہے کہ حال ہی میں وزارت اوورسیز پاکستانی کے سیکریٹری ذوالفقار حیدر نے سینیٹ کی قائمہ کمیٹی کو بتایا تھا کہ بیرون ملک گرفتار ہونے والے 90 فیصد بھیک مانگنے والوں کا تعلق پاکستان سے ہے۔
یہ دعویٰ سامنے آنے کے بعد بی بی سی کی تحقیق سے علم ہوا کہ ایک منظم طریقے سے پاکستان میں موجود ایجنٹ بھکاریوں یا ضرورت مند افراد کو اس مقصد کے تحت مشرق وسطیٰ کے ممالک، خصوصاً سعودی عرب، ایران اور عراق بھجواتے ہیں جہاں بھیک سے حاصل ہونے والی رقم میں اِن ایجنٹس کو بھی حصہ ملتا ہے۔
تاہم حال ہی میں سعودی حکومت کی جانب سے اس معاملے پر پاکستانی حکومت سے باضابطہ شکایت کے بعد وفاقی وزارت داخلہ کو اس مسئلے کا تدارک کرنے کی ہدایات جاری کی ہیں جس کے نتیجے میں نسرین بی بی اور ان کا خاندان گرفتار ہوا۔
پاکستان کے وفاقی تحقیقاتی ادارے ایف آئی اے کے مطابق حالیہ دنوں میں ملتان اور سیالکوٹ سے چند گروہ گرفتار ہوئے ہیں جو لوگوں کو عمرے کے بہانے سعودی عرب لے کر جاتے ہیں اور اب تک آف لوڈ ہو کر گرفتار ہونے والوں کی تعداد 37 ہے۔
نسرین بی بی کے بھائی عارف اور چچا اسلم نے بی بی سی کو بتایا کہ وہ عمرہ کرنے کے بہانے بھیک مانگنے پہلی مرتبہ سعودی عرب جا رہے تھے۔ ماجد علی کے مطابق ان کا سارا خاندان بھیک مانگتا ہے اور یہ سلسلہ کئی نسلوں سے چل رہا ہے۔
’ہم نے ایجنٹ کو فی کس 2 لاکھ 30 ہزار روپے دیے تھے، جس کے عوض اس نے ویزہ اور ٹکٹوں کا بندوبست کیا تھا۔‘ ان کے بقول ان تمام افراد نے سعودی عرب میں 20 روز کے قریب قیام کرنا تھا۔
’میں پہلے بندر کا تماشہ دکھا کر گلی، محلوں میں مانگتا تھا لیکن پھر اس کے بعد ایران اور عراق بھی گئے بھیک مانگنے۔‘
عارف کے مطابق ایران اور عراق میں خرچہ نکال کر وہ فی ٹرپ 30,20 ہزار روپے فی کس کما لیتے تھے۔
عارف کا کہنا تھا کہ ’ایران، عراق اور سعودی عرب جا کر کبھی گونگا بن کر، کبھی ہاتھوں سے روٹی کھانے کا اشارہ کر کے‘ وہ لوگوں سے بھیک مانگتے تھے۔
عارف کہتے ہیں کہ ’اس طرح زیارتوں کا سفر بھی ہو جاتا تھا اور پیسے بھی بن جاتے تھے۔‘
گرفتار ہونے والے افراد سعودی عرب میں اپنے سہولت کار کے متعلق بات کرنے سے کتراتے نظر آئے لیکن ایف آئی اے کے تفتیش کاروں کے مطابق ’ان لوگوں کے سہولت کاروں، جو سعودی عرب میں رہائش اور دیگر سہولیات فراہم کرتے ہیں‘ کے خلاف ایف آئی اے کے ڈپٹی ڈائریکٹر اینٹی ہیومن سرکل محمد ریاض خان کی نگرانی میں تفتیش جاری ہے۔
محمد ریاض خان نے دعویٰ کیا کہ ’اب تک کی تفتیش کے مطابق باہر کے ممالک میں جا کر بھیک مانگنا ایک منظم جرم بن چکا ہے جس میں مختلف گروہ پاکستان اور بیرون ملک سے ملوث ہیں۔‘
ڈپٹی ڈائریکٹر ایف آئی اے کے مطابق ’اس کیس میں بھی چاروں ملزمان اور ایجنٹ میں طے ہوا تھا کہ کمائی کا آدھا حصہ اس ایجنٹ کو ملے گا جس نے ناصرف ان کے سفری دستاویزات کا انتظام کیا بلکہ سعودی عرب میں ان کی رہائش اور دیگر ضروریات کا بندوبست بھی کرنا تھا۔‘
’یہاں روپے ملتے ہیں، سعودی عرب میں ریال میں بھیک ملتی ہے‘
سوشل میڈیا پر فیس بک پیج چلانے والے ایک ایجنٹ نے بھکاریوں کو عمرے کے نام پر سعودی عرب لے جانے کے بارے میں بتایا کہ ’یہاں روپے ملتے ہیں، سعودی عرب میں ریال میں بھیک دی جاتی ہے۔ زمین آسمان کا فرق ہوتا ہے۔‘
انھوں نے بتایا کہ ’میں یہاں سے لوگوں کو مزدوری اور عمرے کے نام پر سعودی عرب لے کر جاتا رہا ہوں۔ کبھی 16 کبھی 25 لوگ ہوتے ہیں۔ تقریباً پانچ ماہ تک ایسا کرتا رہا ہوں۔‘
پاکستان میں کام کرنے والے مختلف ایجنٹس کی طرح یہ شخص بھی فیس بُک اور واٹس ایپ کے ذریعے اپنے کام کو جاری رکھے ہوئے ہیں اور لوگوں کو واٹس ایپ پر تمام تر تفصیلات مہیا کر دیتے ہیں۔
ان کا طریقہ کار کچھ یوں ہوتا ہے کہ پاکستان سے کئی افراد مزدوری کرنے کی غرض سے ان ایجنٹس سے رابطہ کرتے ہیں اور جو لوگ کوئی کام نہیں جاتے، انھیں ایجنٹس بھیک مانگنے کی آفر کرتے ہیں۔
ایجنٹ نے بتایا کہ ’پاکستان سے ہر کوئی مزدوری کی غرض سے نہیں جاتا۔ اس لیے ان کو کچھ مختلف آفر کرنا پڑتا ہے۔‘
’خواتین اور بچوں کو بھی اس گروہ کا حصہ بنانا پڑتا ہے تاکہ پہلے عمرے یا زیارت کے لیے ویزا حاصل کیا جا سکے اور پھر انھیں مکہ اور مسجدِ نبوی کے سامنے بٹھایا جا سکے۔‘
سرکاری دستاویزات کے مطابق 16 جون 2023 کو سعودی عرب کی حکومت نے وزیر اعظم آفس کو سعودی عرب میں بھیک مانگنے، جسم فروشی، منشیات کی سمگلنگ اور سفری دستاویزات میں جعل سازی جیسے بڑھتے ہوئے جرائم میں پاکستانیوں کے ملوث ہونے کے متعلق تحریری طور پر آگاہ کیا۔
معلومات کے مطابق سعودی عرب کی باضابطہ شکایت کے بعد وزیر اعظم آفس نے وزارت داخلہ اور اس کے ذیلی اداروں، بشمول ایف آئی اے، کو ہدایات جاری کیں جس کے بعد ایف آئی اے نے سعودی عرب سمیت دیگر مشرق وسطی ممالک جانے والے پاکستانیوں کی تمام ہوائی اڈوں پر پروفائلنگ شروع کر دی۔
سیکریٹری وزارت اوورسیز پاکستانی ذوالفقار حیدر نے بی بی سی سے بات کرتے ہوئے بتایا ہے کہ انھیں سعودی عرب، ایران اور عراق کی جانب سے مطلع کیا گیا تھا جس کے بعد معلومات کو رپورٹ کی شکل میں پیش کیا گیا۔
انھوں نے کہا کہ ’پھر ایف آئی اے کو حرکت میں لانا پڑا۔ جیسا کہ آپ سب کو پتا ہے اس وقت ایف آئی اے انسانی سمگلنگ کی روک تھام میں سرگرمِ عمل ہے۔ اور اس کے بارے میں جو بھی معلومات ہیں وہ آپ سب کے سامنے لا رہے ہیں۔‘
ایف آئی اے کے سینئر افسر کے مطابق ’ڈیل کے تحت روزانہ بھیک کا حساب کیا جانا تھا اور کمائی کا آدھا حصہ بھی روز کے روز ہی تقسیم ہونا تھا۔‘