ایک بہتر دنیا کے لیے چین کے عملی اقدمات
اعتصام الحق ثاقب
26 ستمبر کو چین کی ریاستی کونسل کے دفتر اطلاعات نے ایک وائٹ پیپر جاری کیا جس کا عنوان تھا ” بنی نوع انسان کے ہم نصیب معاشرے کی تعمیر کے لئے مل کر کام کرنا: چین کے انیشی ایٹو اور عملی اقدامات” ۔وائٹ پیپر میں بنی نوع انسان کے ہم نصیب معاشرے کی تعمیرکے نظریات اور عمل درآمد پر جامع طور پر روشنی ڈالی گئی ، جس کا مقصد بین الاقوامی برادری کی تفہیم کو بڑھانا اور وسیع اتفاق رائے پیدا کرنا ہے۔ اس وائٹ پیپر کے اجرا سے ظاہر ہوتا ہے کہ چین نہ صرف تصور پیش کرنے والا بلکہ ایک ذمہ دار عملدرآمد کرنے والا ملک بھی ہے۔
بنی نو انسان کے ہم نصیب معاشرے کے تصور نے دنیا کو بدلنے کی قوتوں کو متحد کر دیا
مارچ 2013 میں چینی صدر شی جن پھنگ نے ماسکو انسٹی ٹیوٹ آف انٹرنیشنل ریلیشنز میں ایک تقریر میں پہلی بار بنی نو انسان کےہم نصیب معاشرے کا تصور پیش کیا۔ اس کے بعد سے، اس تصور کو مسلسل فروغ اور ترقی دی گئی ہےاور مسلسل چھ سالوں تک اقوام متحدہ کی جنرل اسمبلی کی قراردادوں میں شامل کیا گیا ہے۔اس کے علاوہ متعدد بار شنگھائی تعاون تنظیم اور برکس جیسے کثیر الجہتی میکانزم کی قراردادوں یا اعلانات میں اسے لکھا گیا اور بین الاقوامی برادری کی طرف سے وسیع پیمانے پر پزیرائی بھی ملی . امریکہ کے کوہن فاؤنڈیشن کے صدر رابرٹ کوہن کہتے ہیں کہ یہ تصور وقت کا تقاضہ ہے۔
گزشتہ ایک دہائی کے دوران ، بیلٹ اینڈ روڈ انیشی ایٹو سے لے کر گلوبل ڈیولپمنٹ انیشی ایٹو ، گلوبل سیکیورٹی انیشی ایٹو اور گلوبل سولائزیشن انیشی ایٹو تک ، چین نے بنی نو انسان کے ہم نصیب معاشرے کی تعمیر کے تصور کو مسلسل فروغ دیا ہے ، جس سے دنیا کو بہت فوائد حاصل ہوئے ہیں۔ دنیا کے سب سے بڑے ترقی پذیر ملک اور گلوبل ساؤتھ کے رکن کی حیثیت سے چین نے تقریباً 20 بین الاقوامی تنظیموں کے ساتھ تعاون کیا ہے اور ایتھوپیا، پاکستان اور نائیجیریا سمیت تقریبا 60 ممالک میں غربت میں کمی، غذائی تحفظ، انسداد وبائی امراض اور موسمیاتی تبدیلی سمیت دیگر شعبوں میں 130 سے زائد منصوبوں پر عمل درآمد کیا ہےجبکہ ان منصوبوں سے 30 ملین سے زائد افراد مستفید ہوئے ہیں۔ ورلڈ بینک کی جانب سے جاری کردہ ایک رپورٹ کے مطابق بیلٹ اینڈ روڈ انیشی ایٹو سے 2030 تک عالمی پیمانے پر سالانہ 1.6 ٹریلین ڈالر کے فوائد پیدا ہوں گے۔؎
غربت کا خاتمہ بنی نوع انسان کا ایک مشترکہ خواب ہے اور یہ پائیدار ترقی کے لیے اقوام متحدہ کے 2030 کے ترقیاتی ایجنڈے کا بنیادی ہدف ہے۔چین نے ہمیشہ اپنی ترقی کو عالمی مشترکہ ترقی کے ساتھ قریب سے جوڑا ہے اور عالمی غربت میں کمی اور مسلسل تعاون کرنے والے ملک کے طور پر ہمیشہ اس تصور کا ایک فعال وکیل اور طاقتور فروغ دینے والا رہا ہے۔تعلیم اور تربیت کے تھنک ٹینک کے تبادلے کے ذریعے، چین نے چینی طرز کی جدیدیت میں غربت میں کمی کے اپنے تجربے کو دوسرے ترقی پذیر ممالک کے ساتھ شیئر کیا ہے، اور 160 سے زائد ممالک کے لیے تقریباً 20 ملین ہنرمندوں کو تربیت دی ہے۔ خاص طور پر، لوبان ورکشاپ کے تحت 20 سے زائد ممالک میں پیشہ ورانہ تعلیم کے مراکز قائم کئے گئے جہاں بڑی تعداد میں نئے ہنر مندوں کی تربیت کی گئی ہے ۔
جولائی 2023 تک،دنیا کے تین چوتھائی سے زیادہ ممالک اور 30 سے زیادہ بین الاقوامی تنظیمیں تعاون کی دستاویزات پر دستخط کر چکی ہیں . چین نے عالمی ترقی سے متعلق اعلیٰ سطحی مکالمے کی میزبانی کی اور گلوبل ڈیولمپمنٹ انیشی ایٹو پر عمل درآمد کے لیے 32 اہم اقدامات تجویز کیے جن میں 4 ارب ڈالر کا گلوبل ڈیولپمنٹ اور ساؤتھ ساؤتھ کوآپریشن فنڈ کا قیام بھی شامل ہے۔ اس وقت 100 سے زائد ممالک اور بین الاقوامی تنظیموں نے گلوبل ڈیولپمنٹ انیشی ایٹو کی حمایت کی ہے اور اقوام متحدہ میں قائم "گروپ آف فرینڈز آف دی گلوبل ڈیولپمنٹ انیشی ایٹو” میں 70 سے زائد ممالک نے شرکت کی ہے۔ چین کی ثالثی کی بدولت سعودی عرب اور ایران نے تاریخی مصالحت حاصل کی جو گلوبل سیکیورٹی انیشی ایٹو کی ایک کامیاب مثال ہے اور علاقائی ممالک اور بین الاقوامی برادری کی جانب سے اسے بے حد سراہا گیا ہے۔ چین نے گلوبل سولائزیشن انیشی ایٹو کو آگے بڑھایا ہے اور پوری دنیا سے پرخلوص اپیل کی ہے کہ وہ تہذیبوں کے مابین تبادلوں اور مکالمے کو فروغ دیں اور کھلے دل اور ایک دوسرے سے سیکھنے کے ذریعے انسانی تہذیب کی ترقی کو فروغ دیں۔
بنی نو ع انسان کے ہم نصیب معاشرے کا تصور طاقت کی بالادستی کی منطق سے بالاتر ہے اور یقینی طور پر انسانی معاشرے کے لئے مشترکہ ترقی، طویل مدتی استحکام اور پائیدار خوشحالی کا ایک خوبصورت مستقبل پیدا کرےگا۔