بھارتی درندگی،کشمیرسے کینیڈا تک
تحریر: راشد عباسی
بھارت نے اقلیتوں کو نشانہ بنانے کا سلسلہ مزید دراز کردیا۔ پہلے صرف مقبوضہ کشمیر کے عوام اوربھارت کےاندر مقیم اقلیتیں ہی مودی سرکار کے مظالم کاشکار تھے لیکن اب بدنام زمانہ بھارتی ایجنسیاں ملک سے باہر مقیم اقلیتی افرادکو بھی نشانہ بننےلگ گئی ہیں۔
کینیڈا میں مقیم خالصتان تحریک کے حامی سکھ رہنما ہردیپ سنگھ نجر کا قتل اس کاواضح ثبوت ہے،جنہیں صوبے برٹش کولمبیا میں رواںسال 18 جون کو گرودوارہ کے باہر گولی مار ی گئی تھی ۔
ہردیپ سنگھ نجر کو چند برس قبل بھارتی حکومت نےریاست پنجاب کے علاقے میں سکھوں کے لیے علیحدہ وطن (خالصتان) کے لیے سرگرم مہم چلانے کے الزام میں دہشت گرد قرار دیا تھا اور انہیں مطلوبہ افراد کی فہرست میں شامل کیا تھا ۔
کینیڈاکے تحقیقاتی اداروں کو ہردیپ سنگھ نجر کے قتل میں بھارت کے ملوث ہونے کے ثبوت مل گئے ہیں۔ کینیڈین وزیر اعظم جسٹن ٹروڈو نے اس کا اعلان پارلیمنٹ سے اپنے خطاب میں کیا۔
انہوں نے کہا کہ انٹیلی جنس کے اداروں نے سکھ رہنما کی موت اور بھارتی ریاست کے درمیان ایک ’قابل اعتماد‘ تعلق کی نشاندہی کی ہے۔
انہوں نے واضح کیاکہ کینیڈا کی سرزمین پر کسی کینیڈین شہری کے قتل میں کسی غیر ملکی حکومت کا ملوث ہونا ہماری خودمختاری کی ناقابل قبول خلاف ورزی ہے۔جسٹن ٹروڈو نے یہ بھی کہا کہ انہوں نے جی 20 سربراہی اجلاس کے دوران بھی مودی کے ساتھ ملاقات کے دوران اس قتل کا معاملہ اٹھایا تھا۔
کینیڈا نے اس معاملے پر ایک بھارتی سفارتکار کو بھی ملک بدر کردیا۔ کینیڈین وزیر خارجہ میلانیا جولی نے کہاکہ کہ ملک بدر کیے گئے انڈین سفارتکار پون کمار کینیڈا میں بھارتی خفیہ ایجنسی ’را‘ کا سربراہ تھا۔
ادھر کینیڈا میں سکھ رہنما کے قتل میں ملوث ہونے کا بھانڈا پھوٹنے پر بھارت شدید بوکھلاہٹ کا شکار ہوگیا ۔پہلے پہل بھارتی وزارت خارجہ نے کینیڈا میں تشدد کی کسی بھی کارروائی میں ملوث ہونے کی تردید کرتے ہوے کہا کہ کینیڈین وزیراعظم کے بیان کے پیچھے ایک خاص مقصد ہے۔بعدازاں نئی دہلی میں کینیڈا کے ہائی کمشنر کو وزارت خارجہ میں طلب کیا گیا اورپھر جوابی کارروائی کے طور پر کینیڈا کے ایک سینئر سفارتکار کو ملک چھوڑنے کابھی کہاگیاجس پر دونوں ملکوں کے درمیان سفارتی کشیدگی مزید بڑھ گئی ۔
مودی سرکار کو ایک طرف سکھ رہنما کے قتل کے معاملے پر ہزیمت کا سامنا ہے تو دوسری طرف وہ اس لیے بھی شدید دباؤ کا شکار ہے کہ امریکہ، برطانیہ اور آسٹریلیا جنہیں وہ اپنامضبوط اتحادی قرار دیتی رہی، وہ بھی اس معاملے پر کینیڈا کے ساتھ کھڑے ہیں ۔وائٹ ہاؤس کی طرف سے جاری بیان میں کہا گیا ہے کہ ہم اپنے کینیڈین ساتھیوں کے ساتھ مسلسل رابطے میں ہیں،یہ انتہائی اہم ہے کہ کینیڈا کی تحقیقات آگے بڑھیں اور مجرموں کو انصاف کے کٹہرے میں لایا جائے۔ لندن میں ایک حکومتی ترجمان نے کہاکہ وہ ایسے سنگین الزامات کے حوالے سے کینیڈا کے ساتھ قریبی رابطے میں ہیں۔
اسی طرح آسٹریلوی حکومت نے بھی کینیڈا میں سکھ رہنما کے قتل پر گہری تشویش کا اظہار کیا۔آسٹریلیا کے وزیر خارجہ نے کہاکہ ہم سخت فکر مند ہیں کہ بھارتی حکومت کینیڈا میں ایک سکھ کارکن کے قتل کے پیچھے ہو سکتی ہے۔
چنانچہ سکھ رہنما کے قتل میں گھناؤناکرداربے نقاب ہونے پر بھارت سفارتی تنہائی کاشکارہوگیا ہے ۔آنے والے دنوںمیں مودی سرکار کے لیے مزید مشکلات پیداہوسکتی ہیں۔ خاص طور پر بھارت اور کینیڈا کے تعلقات مزید خراب ہوں گے ۔ کینیڈامیں سکھ رہنما کا قتل اس بات کاایک اورواضح اور ٹھوس ثبوت ہے کہ بھارت کے ایک دہشت گردریاست ہے جس نے مسلمانوں سمیت دیگر اقلیتوں حتیٰ کہ نچلی ذات کے ہندوؤں کے لیے بھی عرصہ حیات تنگ کررکھا ہے اور ملک میں اقلیتوں پر حملوں کے واقعات آئے روز پیش آ رہے ہیں۔
گزشتہ ماہ امریکی ادارہ برائے مذہبی آزادی کی جاری کردہ رپورٹ کے مطابق بھارت میں 1947 سے لے کر اب تک 50 ہزار مساجد، 20 ہزار سے زائد چرچ اور دیگر عبادت گاہیں انتہا پسندوں کی نفرت کا نشانہ بن چکی ہیں۔ وشوا ہندو پرشاد، بجرنگ دل اور راشٹریہ سوائم سیوک سنگھ اقلیتوں کی عبادت گاہوں پر حملوں میں پیش پیش ہے۔
حلال جہاد، گئو رکھشا، بلڈوزر پالیسی، شہریت اور حجاب بندی جیسے قوانین کو مسلمانوں کے خلاف استعمال کیا جاتا ہے۔مذہب تبدیلی سے متعلق قوانین کو ہندوؤں اور بدھ مذہب کی پیروکاروں کے خلاف استعمال کیا جاتا ہے۔بھارتی فوج نے 1984 میں امرتسر میں واقع سکھوں کے مقدس ترین مقام گولڈن ٹیمپل پرٹینکوں اور توپوں سمیت چڑھائی کردی تھی جس کے بعد سکھوں کے پرہونے والے حملوں میں سیکڑوں افراد ہلاک ہوئے۔
دسمبر 1992کو ہندو انتہا پسندوں نے ایودھیا میں صدیوں پرانی تاریخی بابری مسجد کو شہید کیا تھا ۔2002 کے گجرات فسادات میں ہزاروں مسلمانوں کو شہیدکیاگیا۔منی پور میں جاری حالیہ فسادات میں 400 سے زائد چرچ نذر آتش کیے جا چکے ہیں جبکہ 2008 میں ہندو انتہاپسندوں نے مسیحیوں کے 600 گاؤں اور 400 چرچ جلا ڈالے تھے۔
ادھر 75 برسوں سے کشمیریوں کی نسل کشی کا بدترین سلسلہ جاری ہے۔قابض بھارتی فوج کی طرف سے 1947 سےلے کر اب تک اڑھائی لاکھ سے زائد کشمیریوں کو شہید کیا جاچکاہے۔ 23 ہزار خواتین بیوہ اور ایک لاکھ سے زائد بچے یتیم ہوچکے۔ مقبوضہ کشمیر میں 11 ہزار سے زائد خواتین کی بے حرمتی کی گئی جب کہ 7ہزار سے زائدکشمیریوں کو ماورائے عدالت قتل کر دیاگیا۔
علاوہ ازیں بھارت نے دہشت گردی کاریاستی پالیسی کے طورپر استعمال کر رہا ہے۔ پاکستان ہمسایہ ملک کی پشت پناہی سے ہونے والی دہشت گردی کا سب سے زیادہ شکارہوا۔بھارت پاکستان میں دہشت گردی کی کارروائیوں کے لیے ماضی میں افغانستان کی سرزمین بھی استعمال کرتارہا ہے ۔پاکستان میں گرفتار بھارتی جاسوس کلبھوشن یادیو، جسے 3 مارچ 2016 کو حساس اداروں نے بلوچستان کے علاقے ماشکیل سے گرفتار کیا تھا،
اس نے اپنے اعترافی بیان میں کہاہے کہ وہ کراچی اور بلوچستان میں کئی تخریبی کارروائیوں میں ملوث رہا۔ اس نے یہ بھی کہا کہ بلوچستان کی علیحدگی پسند تنظیموں کی متعدد کارروائیوں کے پیچھے ‘ بھارتی خفیہ ایجنسی ’’را ‘‘کا ہاتھ ہے۔بھارت کی ریاستی دہشت گردی اور انسانی حقوق کی منظم خلاف ورزیوں کے خلاف انسانی حقوق کی عالمی تنظیمیں وقتاً فوقتاً آواز اٹھاتی رہتی ہیں۔
بدقسمتی سے عالمی برادری نے ابھی تک اس معاملے پر خاموشی اختیار کئے رکھی۔ یقیناً کینیڈا میں سکھ رہنما کا قتل عالمی برادری کی اسی مجرمانہ خاموشی کا ہی نیتجہ ہے جس کی وجہ سے بھارت کو انسانی حقوق کی پامالیوں کے لیے شہ مل رہی ہے۔
وقت آگیا ہے کہ اقوام متحدہ سمیت عالمی ادارے اور عالمی برادری بھارت کی طرف سے انسانی حقوق کی پامالیوں،چیرادستیوں اور اس کی ریاستی دہشت گردی کے آگے بندھ باندھیں اور اسے احتساب کے کٹہرے میں لائیں۔
اقوام عالم خاص طور پر خود کو انسانی حقوق کا علمبردار کہلانے والوں کو مقبوضہ کشمیر کے مظلوم عوام اور بھارت میں مقیم اقلیتوں کے تحفظ کے لیے کردار ادا کرنا چاہئے یہ سب کی اجتماعی ذمہ داری بھی ہے۔ سب سے بڑھ کر یہ کہ بھارتی رویہ علاقائی و عالمی امن کے لیے بھی خطرہ ہے۔ اس لیے بھارت سے جواب دہی کے معاملے میں سمجھوتہ یا مزید لیت و لعل کا مظاہرہ کیا گیا تو اس کے سنگین نتائج برآمد ہو سکتے ہیں۔