News Views Events

نئے چیف جسٹس سے وابستہ توقعات

0

تحریر: راشد عباسی

  سپریم کورٹ کے نئے چیف جسٹس قاضی فائزعیسیٰ نےاپنے عہدے کا حلف اٹھالیا ۔ انہیں ملک کا29واںچیف جسٹس بننے کااعزازحاصل ہوا۔صدرعارف علوی نے ایوان صدر میں نئے چیف جسٹس سے عہدے کا حلف لیا۔

یہ صدرعلوی ہی تھے جنہوں نےجسٹس فائزعیسیٰ کے خلاف سپریم جوڈیشل کونسل کو ریفرنس بھیجاتھاجس میں بدنیتی ثابت ہوئی اوریہ ایک طرح سے ان کے چیف جسٹس بننے کی راہ میں رکاوٹ ڈالنے کی ناکام کوشش تھی ۔

حلف برداری کی تقریب میں سابق چیف جسٹس افتخار محمدچودھری بھی موجودتھے جنہوں نے اگست2009 میں فائز عیسیٰ کو بلوچستان ہائی کورٹ کا چیف جسٹس بنانے کی سفارش کی تھی جو منظورکرلی گئی تھی۔ اگرچہ قاضی فائز عیسیٰ کا بطورچیف جسٹس عرصہ مختصرہوگا، وہ 25 اکتوبر 2024 کو اس عہدے سے ریٹائر ہو جائیں گے لیکن اس مختصر مدت میں ان کے سامنے چیلنجزپہاڑ جیسے ہیں۔جیسا کہ عدلیہ کی ساکھ کی بحالی اور غیرجانبداری کو یقینی بنانا، سپریم جوڈیشل کونسل میں ججز کے خلاف ریفرنسز کا معاملہ، زیر سماعت سیاسی درخواستوں کے فیصلے، سپریم کورٹ میں ججز کی تقرری کا معاملہ شامل ہیں۔

اس کے علاوہ نو مئی کے واقعات میں ملوث افراد کا مقدمہ فوجی عدالتوں میں چلانے کے خلاف درخواستیں سپریم کورٹ میں زیر سماعت ہیں جبکہ جبری طور پر گمشدگی بھی بڑی اہمیت کا حامل معاملہ ہے۔ دیکھاجائے تو نئے چیف جسٹس کے لیے ان میں سے سب سے بڑا چیلنج عدالت کو متحد کرنا اور اس کی ساکھ بحالی ہے تاکہ عدالتی فیصلوں پر اعتماد بحال ہو سکے کیونکہ سابق چیف جسٹس عمرعطابندیال کے دورمیں مخصوص ججز پر مشتمل بنچ کی تشکیل کا عمل اعلیٰ عدلیہ کی کارکردگی پر سوالیہ نشان رہا اور عدالت عظمیٰ میں تقسیم واضح نظرآئی۔

نئے چیف فائز عیسیٰ کے بارےمیں کہاجاتاہے کہ وہ اصول پسند جج ہیں اورانہی اصولوں کی بنیاد پر ان کے چار مختلف چیف جسٹس صاحبان ،جسٹس ثاقب نثار ،جسٹس آصف سعید کھوسہ ،جسٹس گلزار احمد اور جسٹس عمر عطاء بندیال کیساتھ اختلافات بھی زبان زد عام رہے۔

نئے چیف جسٹس قاضی فائز عیسیٰ شاندار ماضی رکھتے ہیں جنہوں نے کئی اہم فیصلے دیئے ۔ 2012 میں فائزعیسیٰ نے میمو گیٹ کمیشن کی سربراہی کی اور امریکہ میں پاکستانی سفیر حسین حقانی کو قصوار ٹھہرایا۔ 5 ستمبر 2014 کوجسٹس قاضی فائز عیسیٰ نے بطور جج سپریم کورٹ حلف اٹھایا۔ 2015 میں 21 ویں آئینی ترمیم کے تحت فوجی عدالتوں کے اختیارات بڑھانے کے کیس میں اپنا اختلافی نوٹ تحریر کیا۔ دسمبر 2017 میں سابق وزیر اعظم نواز شریف اور شہباز شریف کے خلاف حدیبیہ پیپر ملز کیس کھولنے کی نیب اپیل کو مسترد کیا اور 2017 میں فیض آباد دھرنا کیس کا فیصلہ دیا ۔

جسٹس فائز عیسیٰ نے سپریم کورٹ میں جونیئر ججز کی تعیناتی کی سخت مخالف کی ۔ 2016 میں کوئٹہ خودکش دھماکہ انکوائری کمیشن کی رپورٹ میں دھماکے کو حکومت وقت کی غفلت قرار دیا ۔

جسٹس قاضی فائز عیسیٰ نے سپریم کورٹ رولز میں تبدیلی ہونے تک سپریم کورٹ میں آرٹیکل 184/3 کے تحت دائر مقدمات کی پر سماعت روکنے کا حکم دیا ۔ 2021 میں اس وقت کے وزیراعظم کیخلاف ترقیاتی فنڈز کیس میں جب چیف جسٹس گلزار احمد نے اپنے فیصلے میں جسٹس قاضی فائز عیسیٰ کو وزیراعظم کیخلاف مقدمات کی سماعت روک دیا تو اس پر 28 صفحات پر مشتمل اختلافی نوٹ لکھا۔خواتین کے وراثتی حقوق اور سرکاری املاک کے تحفظ سے متعلق فیصلےبھی فائزعیسیٰ کے اہم فیصلوںمیں شامل ہیں ۔نئے چیف جسٹس قاضی فائز عیسیٰ کی جرات مندی اور ثابت قدمی کا اندازہ اس بات سے بخوبی لگایا جاسکتا ہے کہ انہوں نے پی ٹی آئی دور حکومت میں اپنے خلاف دائر ہونے والے صدارتی ریفرنس کا کھلی عدالت میں دفاع کیا اورپھر سرخرو ہوئے۔ اس ریفرنس میں جسٹس فائزعیسیٰ خود اپنے وکیل بنے اور عدالت سے انصاف لے کر مرد بحران ثابت ہوئے۔

ان کی اہلیہ سیرینا عیسیٰ بھی اس مقدمے میں ان کے شانہ بشانہ آزمائش سے گزریں اور ثابت قدم رہیں۔یہ بات بھی قابل ذکر ہے کہ 2019 میں صدارتی ریفرنس کے بعد سینئر ترین جج ہونے کے باوجود جسٹس فائز عیسیٰ کوتقریباً تین سال تک کسی آئینی مقدمے کے بنچ میں شامل نہیں کیا گیا۔ اسی طرح جسٹس فائز عیسیٰ نے سپریم کورٹ پریکٹس اینڈ پروسیجر ایکٹ پر حکم امتناع کے بعد انہوں نے رواں سال اپریل سے معمول کے بنچز میں بیٹھنے سےخود معذرت کر لی تھی۔سابق چیف جسٹس عمر عطا بندیال کی سربراہی میں 8 رکنی بنچ نے 13 اپریل کو سپریم کورٹ (پریکٹس اینڈ پروسیجر) ایکٹ 2023 کا اطلاق معطل کردیا تھا۔ اب جسٹس قاضی فائز عیسیٰ (کل) پیر کو باقاعدہ چارج سنبھالنے کے پہلے روز سپریم کورٹ (پریکٹس اینڈ پروسیجر) ایکٹ 2023 کو چیلنج کرنے والے بل پر سماعت کریں گے۔ اس معاملے کی سماعت کے لیے نئے چیف جسٹس فائز عیسیٰ نےفل کورٹ تشکیل دے دیا ہے جو سابق پی ڈی ایم حکومت کا مطالبہ رہالیکن سابق چیف جسٹس عمر عطا بندیال فل کورٹ کی تشکیل سے گریزاں رہے اور ان کافیصلہ متنازع قرارپایاتھا۔

جسٹس فائزعیسیٰ سابق چیف جسٹس ثاقب نثار کی طرف سے قائم کردہ ’ڈیم فنڈ‘ کے بھی خلاف تھے جس میں وکلا کو تاخیر سے آنے یا التوا کی تاریخ مانگنے پر جرمانے کیے جاتے اور انھیں کہا جاتا کہ وہ یہ جرمانے ڈیم فنڈ میں جمع کروائیں ۔اس ڈیم فنڈکی وجہ سے ثاقب نثارابھی تک تنقید کی زد میں رہتے ہیں۔
اس میں کوئی دورائے نہیں کہ نئے چیف جسٹس قاضی فائز عیسیٰ ایک آئیڈیل جج کے طور پرشہرت رکھتے ہیںجنہوں نے صرف چیمبر اور کمرہ عدالت میں ہی نہیں بلکہ ہر فورم پر انصاف کی فراہمی کا پرچار کیا۔

ان کا ماضی اس بات کا واضح ثبوت ہے کہ نتائج کی پروا کی نہ کبھی مصلحت کا شکارہوئے اورانصا ف کی فراہمی ان کی اولین ترجیح رہی۔ اسی طرح نئے چیف جسٹس ایک روایت شکن شخصیت کے طور پر جانے جاتے ہیں تو عاجزی بھی ان کے مزاج کا حصہ ہے، پروٹوکول کے شوقین ہیں نہ پیدل عدالت جانے میں عار محسوس کرتے ہیں ۔ وہ عوامی نمائندوں اور میڈیا کو اس ملک کا اہم ستون سمجھتے ہیں، اسی لیے انکے ساتھ براہ راست بیٹھنے میں بھی ہچکچاہٹ کا مظاہرہ نہیں کرتے۔ یقیناً نئے چیف جسٹس قاضی فائز عیسی ’’سٹیٹس کو ‘‘کے سخت مخالف اور ہمیشہ نئی سوچ کیساتھ مثبت تبدیلی کے لیے کوشاں نظر آتے ہیں۔

توقع ہے کہ وہ بحیثیت چیف جسٹس ملک کے نظام عدل میں وسیع تراصلاحات لائیں گے ۔سائلین کو سستے اور فوری انصاف کی فراہمی یقینی بنائی جائے گی۔ہزاروں کی تعداد میں زیرالتوامقدمات کو جلدازجلدنمٹانے کے لیے عملی اقدامات کئے جائیں گے اور اس تاثرکو زائل کیا جائے گا کہ سپریم کورٹ میں صرف بااثر افراد کے کیسز اور سیاسی مقدمات سنے جاتےہیں۔امیدکی جاتی ہے کہ نئے چیف جسٹس کے دور میں عدالت عظمیٰ ایسے سیاسی تنازعات کا حصہ بننے سے گریزاں رہے گی جن میں بقول جسٹس اطہر من اللہ کہ ہار صرف عدالت کی ہوتی ہے۔

Leave A Reply

Your email address will not be published.