News Views Events

اور پھر وہی ہوا

0

تحریر: راشد عباسی
سپریم کورٹ نےنیب کے قانون میں سابق پی ڈی ایم حکومت کی گئی متعدد ترامیم کالعدم قرار دے دیں جسے سبکدوش ہونے والے چیف جسٹس عمرعطابندیال کاایک اور متنازع فیصلہ قراردیاجارہاہے ۔

چیف جسٹس کی سربراہی میں 3 رکنی بینچ نے نیب ترامیم کے خلاف چیئرمین پی ٹی آئی عمران خان کی درخواست پر فیصلہ دو ایک کی اکثریت سے سنایا۔ بنچ میں شامل جسٹس منصور علی شاہ نے اس فیصلے سے اختلاف کرتے ہوئے اختلافی نوٹ بھی لکھاجو پڑھ کر نہیں سنایا گیا۔

بنچ کے تیسرے رکن جسٹس اعجازالاحسن تھے۔ بنچ نے نیب ترامیم کے خلاف درخواست پر 53 سے زیادہ سماعتوں کے بعد 6 ستمبر کو فیصلہ محفوظ کیا تھا۔ عدالتی فیصلے کے تحت انکوائری، تحقیقات اور ریفرنسز کے 100 سے زائد کیسز بحال ہو جائیں گے جن میں اہم سیاسی شخصیات کے کیسز بھی شامل ہیں۔

امر واقعہ یہ ہے کہ سابق پی ڈی ایم حکومت نے نیب قانون میں 27 ترامیم سے متعلق بل گذشتہ قومی اسمبلی اور سینیٹ سے مئی 2022 میں منظور کرایا تھا تاہم صدر عارف علوی نے اس بل پر دستخط کرنے سے انکار کر دیا تھا۔

بعدازاں پی ڈی ایم حکومت نے جون 2022 قومی اسمبلی اور سینیٹ کا مشترکہ اجلاس بلا کر اس کی منظوری لی تھی۔ ترامیم کو قومی احتساب آرڈیننس 1999 کے آغاز سے نافذ کیا گیا تھا۔ اس قانون سازی کے تحت بہت سے معاملات کو نیب کے دائرہ اختیار سے نکال دیا گیا تھا۔

ترامیم میں کہا گیا تھا کہ نیب 50 کروڑ سے کم مالیت کے معاملات کی تحقیقات نہیں کر سکتا۔ نیب دھوکہ دہی کے کسی مقدمے کی تحقیقات تبھی کر سکتا ہے جب متاثرین کی تعداد 100سے زیادہ ہو۔ اسی طرح نیب کسی بھی ملزم کا زیادہ سے زیادہ 14 دن کا ریمانڈ لے سکتا ہے تاہم بعد ازاں اس میں مزید ترمیم کرتے ہوئے اس مدت کو 30 دن تک بڑھا دیا گیا تھا۔ قانون کی منظوری کے بعد نیب وفاقی، صوبائی یا مقامی ٹیکس کے معاملات پر کارروائی نہیں کر سکتا تھا اور ملک میں کام کرنے والے ریگولیٹری اداروں کو بھی نیب کے دائرہ کار سے باہر نکال دیا گیا تھا۔

اسی طرح اس آرڈیننس کے تحت افراد یا لین دین سے متعلق زیر التوا تمام پوچھ گچھ، تحقیقات، ٹرائلز یا کارروائیاں متعلقہ قوانین کے تحت متعلقہ حکام، محکموں اور عدالتوں کو منتقل کی جائیں گی۔

ان ترامیم کے بعد چیئرمین نیب اور بیورو کے پراسیکیوٹر جنرل کی مدت ملازمت میں بھی ایک برس کی کمی کر کے اسے تین سال کر دیا گیا تھا۔ نیب ترامیم کے خلاف درخواست کے سماعتوں کے دوران چیف جسٹس عمر عطا بندیال کے ریمارکس کی بنیاد پر پہلے سے ہی یہ قیاس آرائی کی جارہی تھی کہ فیصلہ ترامیم کے خلاف آئے گا ۔

ایک سماعت کے دوران چیف جسٹس عمر عطا بندیال نے یہ بھی کہاتھا کہ صدارتی معافی کی طرح نیب سے معافیاں دی جا رہی ہیں حالانکہ اس مقدمے کو سننے والے بنچ میں شامل سینئر جج جسٹس منصور علی شاہ بار بار یہ آبزرویشن دے چکے ہیں کہ جب ایک پارٹی پارلیمنٹ سے نکل چکی تو پارلیمنٹ سے منظور شدہ قوانین کو ہم کیوں مسترد کریں؟ ۔

یہ امر بھی قابل ذکر ہےکہ نیب ترامیم کی چیلنج کرنے والے عمران خان نے اپنے دورحکومت میں آرڈیننس کے ذریعے نیب آرڈیننس 1999 میں بعض ترامیم کی تھیں جسے نیب آرڈیننس ترمیمی ایکٹ 2021 کا نام دیا گیا تھا۔

نیب آرڈیننس میں چیئرمین نیب کے پاس لامحدود اختیارات ہوتے تھے جس میں گرفتاری سے لے کر کسی کے خلاف انکوائری شروع کرنے اور ریفرنس دائر کرنے کے اختیارات بھی تھے لیکن ترمیمی آرڈیننس میں ان اختیارات کو محدود کیا گیا تھا۔

دراصل نیب کی کارروائیوں وبے جاپکڑدھکڑ سے ایک طرف بیوروکریسی خائف تھی تو دوسری طرف تاجربرادری کو بھی شدید تحفظات تھےاورملک میں سرمایہ کاری میںنمایاں کمی آ رہی تھی ۔ماضی میں ایسی متعدد مثالیں بھی موجود ہیں کہ حکومت کی طرف سے شروع کیے گئے متعدد ترقیاتی منصوبے نیب کی مداخلت کی وجہ سے تاخیر کا شکار ہوئے جس کی وجہ سے قومی خزانے پر مزید بوجھ بڑھ گیا اور ترقیاتی منصوبے تاخیر کا شکار ہونے کی وجہ سے ان کی لاگت میں بھی اضافہ ہوا۔

پھر نیب کی کارکردگی بھی ہمیشہ سوالیہ رہی ہے۔ سابق پی ٹی آئی حکومت کے ترمیمی آرڈیننس جاری کرنے کا مقصد بیوروکریسی اور سرمایہ کاروں کااعتماد بحال کرناتھا مگر اس وقت کی حزب اختلاف کی جماعتوں نے اس آرڈیننس کی شدید مخالفت کی تھی ۔

بعدازاں جب سابق پی ڈی ایم حکومت نے پارلیمنٹ سے نیب آڈیننس سے ترامیم منظورکرائیں تو پی ٹی آئی نےاس کی مخالفت کردی اور عدالت کا دروازہ کھٹکھٹایا ۔دیکھاجائے تو نیب آرڈیننس میں ترامیم کی ضرورت تمام سیاسی جماعتوں نے محسوس کی لیکن محض ایک دوسرے کو نیچادیکھنے کے لیے سیاسی بنیادوں پر اس کی مخالفت کی گئی اور اب ان ترامیم کو کالعدم قرار دینے کے عدالتی فیصلے کی بھی حمایت اور مخالفت سیاسی بنیادوں پر ہی کی جارہی ہے۔

حقیقت یہ ہے کہ چیف جسٹس عمر عطا بندیال نے پارلیمان سے دوبار منظور ہونے والی نیب قانون میں ترامیم کالعدم قرار دے کر اپنے متنازع فیصلوں میں ایک اور فیصلے کا اضافہ کیا ہے۔ وہ اس سے پہلے پارلیمنٹ کے منظور کردہ ریویو اینڈ ججمنٹ ایکٹ اور پریکٹس اینڈ پروسیجرل ایکٹ 2023ءکو بھی کالعدم قراردے چکے ہیں۔

یہ جسٹس بندیال ہی تھے کہ جن کے دور میں دو ادارے یعنی پارلیمنٹ اور سپریم کورٹ بالکل آمنے سامنے آچکے تھے۔ اگرسبکدوش ہونے والے چیف جسٹس عمر عطا بندیال کے دور کو متنازع فیصلوں، ججز کی تقسیم، ہم خیال ججز کو ساتھ ملاکر سینئر ججز کو نظراندز کرنے، مخصوص جماعت یا ایک لیڈر کی طرف جھکاؤ، ذاتی پسند، ناپسند اور کچھ سیاسی جماعتوں کے خلاف محاذ آرائی اور شدید مخالفت کا دور کہاجائے تو غلط نہ ہوگا۔

عمر عطا بندیال ہی وہ چیف جسٹس رہے جن کے دیے گئے فیصلوں پر سپریم کورٹ کے اہم ججوں نے زیادہ اور سخت ترین اختلافی نوٹ بھی لکھے۔ یہاں تک کہ ایک معزز جج جسٹس منصور علی شاہ نے لکھا کہ بنچز بنانے کا چیف جسٹس کا اختیار ون مین شو جیسا ہے۔یقیناً ایک ایسے وقت میں جب عدالت عظمیٰ میں ہزاروں کی تعداد میں مقدمات زیرالتوا ہیں ، سیاسی کیسز ترجیحی بنیادوں پر سننے سے عدلیہ کی ساکھ متاثرہوئی اور عدلیہ اور پارلیمنٹ کے درمیان محاذآرائی جیسی صورتحال بھی پیداہوئی جو کسی طور پربھی ملک کے مفاد میں نہیں ہے۔

ماضی میں بھی عدلیہ کے بعض فیصلوں سے ملک کو نقصان پہنچا ہے اس حوالے سے واضح مثال سابق چیف جسٹس افتخارمحمدچودھری کا ریکوڈک کیس کافیصلہ ہے جس کی وجہ سے ملک کو اربوں ڈالرکاجرمانہ ادا کرناپڑا۔امیدکی جاتی ہےکہ نئے نامزدچیف جسٹس قاضی فائز عیسیٰ اپنے پیشرو کے دور میں پیدا کردہ رحجان کی حوصلہ شکنی کریں گے۔

ضرورت اس امر کی ہے کہ ممکنہ حد تک سیاسی مقدمات یاایسے کیسز سننے سے گریز کیا جائے جن سے اداروں میں ٹکراؤکا تاثر پیدا ہو اور زیرالتوامقدمات کو نمٹانے پر توجہ مرکوز کی جائے ۔ اس میں کوئی دورائے نہیں کہ ملک کی ترقی، بقا اور مفاد اسی میں ہے کہ تمام ادارے اپنی آئینی حدود میں رہتے ہوئے کام کریں اور ایک دوسرے کے اختیارات میں مداخلت سے باز رہیں ۔امیدکی جاتی ہےکہ ماضی کی غلطیوں سے سیکھتے ہوئے رویوں میں بہتری لائی جائے گی۔

Leave A Reply

Your email address will not be published.