صدر علوی الیکشن تاریخ کے اختیار پر بضد کیوں؟
تحریر: راشد عباسی
ملک میں عام انتخابات کی تاریخ کے معاملے پر ایوان صدر اور الیکشن کمیشن کے درمیان رسہ کشی جاری ہے۔ لگتا ہے کہ صدر علوی الیکشن کمیشن اور وزارت قانون سے دوٹوک جواب ملنے کے باوجود ہار مناننے کو تیار نہیں ہیں۔ انہوں نے چیف الیکشن کمشنر سکندر سلطان راجہ کو ایک اور خط لکھ دیا جس میں انہوں نے کہا ہے کہ صدر مملکت نے 9 اگست کو وزیراعظم کے مشورے پر قومی اسمبلی کو تحلیل کیا، آئین کے آرٹیکل 48(5) کے تحت صدر کا اختیار ہے کہ اسمبلی میں عام انتخابات کے انعقاد کے لیے تحلیل کی تاریخ سے 90 دن کے اندر کی تاریخ مقرر کرے۔ اس خط کے منظر عام پر آنے کے بعد میڈیا میں یہ تاثر دیا گیا کہ صدر نے انتخابات کے لیے 6 نومبر کی تاریخ تجویز کر دی حالانکہ صدر نے تاریخ نہیں دی بلکہ آئین آرٹیکل 48(5) کا حوالہ دیتے ہوئے اس امر کی نشاندہی کی ہے کہ قومی اسمبلی کے لیے عام انتخابات اس کی تحلیل کی تاریخ کے 89 ویں دن یعنی پیر 6 نومبر 2023 تک ہو جانے چاہئیں۔ صدر نے الیکشن کمیشن کو اس کی آئینی ذمہ داری کا احساس دلاتے ہوئے کہا کہ وہ آزادانہ اور منصفانہ انتخابات کے انعقاد کے لیے آرٹیکل 51، 218، 219، 220 اور الیکشنز ایکٹ 2017 کے تحت طے شدہ تمام آئینی اور قانونی اقدامات کی پابندی کرے۔ خط کے آخری پیرا گراف میں صدر مملکت نے لکھا کہ تمام نکات کو مدنظر رکھتے ہوئے الیکشن کمیشن آئین کی متعلقہ دفعات کے تحت صوبائی حکومتوں اور سیاسی جماعتوں کے ساتھ مشاورت اور اس بات کے پیش نظر کہ کچھ معاملات پہلے ہی زیر سماعت ہیں، قومی اور صوبائی اسمبلیوں میں ایک ہی دن انتخابات کرانے کیلئے اعلیٰ عدلیہ سے رہنمائی حاصل کرے۔ اس سے پہلے 23 اگست کو صدر نے چیف الیکشن کمشنر کو انتخابات کی تاریخ پر مشاورت کے لیے مدعو کیا تھا مگر فریق دوئم نے یہ موقف اختیار کرتے ہوئے ملاقات سے انکار کر دیا کہ الیکشن ایکٹ کے سیکشن 57 میں ترمیم ہو چکی ہے جس کے تحت اب الیکشن کی تاریخ مقرر کرنا الیکشن کمیشن کا اختیار ہے۔ صدر آئین کے آرٹیکل کے 58 ٹو کے تحت اسمبلی تحلیل کریں تو ہی انتخابات کی تاریخ مقرر کرسکتے ہیں ۔ بعد ازاں صدر علوی کے رائے مانگنے پر وزارت قانون نے بھی چیف الیکشن کمشنر کے موقف کی تائید کی۔ واضح رہے کہ سابق پی ڈی ایم حکومت نے رواں سال جون میں پارلیمنٹ سے الیکشن ایکٹ کی سیکشن 57 میں ترمیم منظور کرائی تھی جس کے تحت الیکشن کمیشن عام انتخابات کی تاریخ یا تاریخوں کا اعلان کرے گا۔ اس اقدام کا مقصد انتخابات کرانے کے ذمہ دار ادارے کو مضبوط بنانا تھا۔صدر عارف علوی کا اگرچہ یہ موقف درست ہے کہ آئین کے تحت اسمبلی تحلیل کے 90 روز کے اندر انتخابات کرانا آئینی تقاضا ہے لیکن جب مشترکہ مفادات کونسل نئی مردم شماری کی منظوری دے چکی ہے تو یہ بھی آئینی تقاضا ہی ہے کہ نئی مردم شماری کے تحت انتخابات کرائے جائیں جس کے لیے نئے سرے سے حلقہ بندیاں ضروری ہیں چنانچہ نئی مردم شماری کے تحت انتخابات کا انعقاد 90 دن میں ممکن نہیں رہا تھا۔ الیکشن کمیشن نے آئینی تقاضے کو مدنظر رکھتے ہوئے 17 اگست کو حلقہ بندیوں کے شیڈول کا اعلان کیا تھا جس کے تحت اس عمل کے لیے الیکشن کمیشن نے 4 ماہ یعنی 14 دسمبر کا وقت مختص کیا گیا تھا۔ بعد ازاں الیکشن کمیشن سے سیاسی جماعتوں کے مشاورتی اجلاس میں جلد انتخابات کا انعقاد یقینی بنانے کے لیے حلقہ بندیوں کے لئے مقررہ وقت میں 14 دن کی کمی کی گئی تھی۔ صدر علوی نے پنجاب اسمبلی کے انتخابات کے لیے 30 اپریل کی تاریخ دی تھی مگر اس وقت سپریم کورٹ کے احکامات کی روشنی الیکشن کمیشن نے ہی صدر کو صوبے میں انتخابات کے لیے 30 اپریل تا 7 مئی کوئی تاریخ مقرر کرنے کی تجویز پیش کی تھی۔اس وقت کے حالات مختلف تھے جب کہ الیکشن ایکٹ میں ترمیم بھی نہیں ہوئی تھی گو کہ بعد ازاں بعض ناگزیر وجوہات کی بنا پر الیکشن کمیشن نے پنجاب اسمبلی کے انتخابات کو اکتوبر تک مؤخر کر دیا تھا۔ اب جب کہ الیکشن ایکٹ کی سیکشن 57 میں ترمیم کے بعد انتخابات کی تاریخ کا اختیار الیکشن کمیشن کو مل چکا ہے اور پھر نئی مردم شماری کے بنیاد پر حلقہ بندیوں کے آئینی تقاضے کے حوالے سے بھی صورت حال واضح ہے تو پھر صدر کا انتخابات کی تاریخ کے اختیار اور 90 دن کے اندر انتخابات کرانے پر اصرار کرنا ناقابل فہم ہے۔ پی ٹی آئی کے سوا کوئی اہم سیاسی جماعت، جو انتخابات کے معاملے میں بنیادی اسٹیک ہولڈر ہیں، صدر مملکت کے اس طرز عمل کی حمایت نہیں کر رہی۔ صدر کے چیف الیکشن کمشنر کو لکھے گئے خط پر مسلم لیگ (ن) کے رہنماوں نے اپنے ردعمل میں کہا ہے کہ فروری یا جنوری میں انتخابات ہوں گے،سیاسی جماعتوں کے درمیان کوئی تنازع نہیں کہ الیکشن کی تاریخ کا صدر کے پاس اختیار نہیں۔ پیپلز پارٹی کے رہنما قمر زمان کائرہ نے کہا ہے کہ صدر مملکت کے خط کا جواب الیکشن کمیشن پہلے ہی دے چکا ہے۔ ایم کیو ایم رہنما ڈاکٹر فاروق ستار نے کہا کہ جب انتخابات کی تاریخ کا اختیار الیکشن کمیشن کا ہے تو صدر نے بلاوجہ اپنی اہمیت اجاگر کرنے کی کوشش کی۔ اسی طرح عوامی نیشنل پارٹی کے زاہد خان نے کہا کہ صدر مملکت کا رویہ غیر جانبدارانہ نہیں ہے۔ اس میں کوئی دورائے نہیں کہ انتخابات کے معاملے پر عارف علوی کو پی ٹی آئی کے دباو کا سامنا ہے جو ان سے انتخابات کی تاریخ کے اعلان کا مسلسل مطالبہ کر رہی ہے لیکن کیا عارف علوی جس منصب پر بیٹھے ہیں،وہ اس بات کا متقاضی ہے کہ محض ایک پارٹی کے مفاد کے لیے ملک کو آئینی بحران سے دوچار کر دیا جائے۔ اس لیے صدر علوی اگر پارٹی کے دباو میں آ کر ملک کو آئینی بحران سے دوچار کرتے ہیں تو یہ عقلمندی نہیں ہو گی۔ صدر کا منصب تو غیر جانبداری کا تقاضا کرتا ہے۔ بدقسمتی سے عارف علوی کے اقدامات سے جانبداری اور بدنیتی کا عنصر عیاں ہے۔ انہوں نے پارلیمنٹ کی توقیر کا بھی پاس نہ کر رکھا اور وہاں سے مںظور ہونے والے آئینی بلوں میں بھی رکاوٹ ڈالنے کی ہر ممکن کوشش کی۔ حتیٰ کہ قومی اسمبلی تحلیل ہونے کے بعد بعض آٗئینی بلز واپس بجھوا دیئے۔ خاص طور پر افیشل سیکرٹ ایکٹ اور فوجی ایکٹ میں ترامیم کے بلوں کے معاملے پر تنازؑع کھڑا کیا۔ ملک کے سب سے بڑے آئینی عہدے پر بیٹھے شخص کو یہ طرز عمل زیب نہیں دیتا۔ عارف علوی کو چاہئے کہ وہ اپنے طرز عمل پر نظرثانی کریں۔ انہیں ایوان صدر میں بیٹھ کر پارٹی کی نہیں بلکہ ملک کے مفادات کا تحفظ کرنا چاہئے۔ صدر کا عہدہ ملک میں اتحاد اور ہم آہنگی کی علامت بھی ہے مگر عارف علوی کے اقدامات دراڑ اور تقسیم پیدا کر رہے ہیں جو کسی بھی صورت ایوان صدر کے تقدس اور ملک کے مفاد میں نہیں ہے۔ ویسے بھی عارف علوی 9 ستمبر کو اپنی مدت پوری کر چکے ہیں اور اب عبوری صدر کی حیثیت سے عہدے پر براجمان ہیں لہذا ان کی اس عبوری مدت کو ہر گز ایوان صدر کے تقدس کی پامالی کا باعث نہیں بننا جانا چاہئے۔