سائفر کیس: عمران خان اور شاہ محمود کی درخواست ضمانت مسترد
اسلام آباد(نیوزڈیسک)اسلام آباد کی خصوصی عدالت نے آفیشل سیکرٹ ایکٹ میں چیئرمین پی ٹی آئی عمران خان اور شاہ محمود قریشی کی درخواست ضمانت پر محفوظ فیصلہ سناتے ہوئے درخواست ضمانت خارج کر دی۔ جج ابو الحسنات ذوالقرنین نے تمام دلائل مکمل ہونے کے بعد فیصلہ محفوظ کیا اور کچھ ہی دیر بعد فیصلہ سنا دیا۔
اس سے قبل جج ابو الحسنات ذوالقرنین نے فیصلہ محفوظ کرتے ہوئے کہاکہ 10 منٹ میں فیصلہ سنانے جا رہاہوں، سب کمرہ عدالت سے باہر چلے جائیں، میں فیصلہ لکھوا رہا ہوں۔ اسپیشل پراسیکیوشن سمیت پاکستان تحریک انصاف کے وکلاء خصوصی عدالت میں موجود ہیں، وکیل سلمان صفدر، بابر اعوان اور علی بخاری اور شیر افضل مروت نے اپنے اپنے دلائل مکمل کر لیے ہیں۔
شیر افضل مروت کے دلائل
چیئرمین پی ٹی آئی عمران خان کے وکیل شیرافضل مروت نے درخواست ضمانت پر دلائل کا آغازکرتے ہوئے کہاکہ سیکرٹ ایکٹ 1923 میں نہیں بتایا گیا کہ سائفر کو کس طرح ڈی کلاسیفائی کرنا ہے، کلاسیفائید انفارمیشن آخر ہے کیا؟ عدالت پہلے اس کا تعین کریں، ڈونلوڈ لو نےکہا پی ٹی آئی کی حکومت گرائیں ورنہ نتائج کے لیے تیار رہیں۔
انہوں نے کہاکہ پاکستان کی سائفر لینگویج کسی دوسرے ملک کے ساتھ نہیں ملتی، سیکرٹ ایکٹ 1923 در اصل صحافیوں کے خلاف استعمال کرنے کے لیے تھا، سائفر آیا، سیاسی مقاصد تھے، پی ٹی آئی حکومت ایک ہفتے میں ختم ہوگئی۔
وکیل بابر اعوان نے اپنے دلائل کا آغاز کرتے ہوئے کہاکہ بیرون ملک سے پاکستان کو دھمکی آئے تو وزارتِ خارجہ سو جائے؟ وزارتِ خارجہ نے کابینہ کے سامنے سائفررکھا جس کو ڈی سیل کرکے دوبارہ سیل کردیا گیا، آئین پاکستان کے مطابق وفاقی کابینہ اور قومی سلامتی کمیٹی کے سامنے سائفرکو رکھا گیا۔ ملکی سلامتی کے لیے بیرون ملک سے آئی سازش کو متعلقہ فورم پر بتانا ذمہ داری ہوتی ہے۔
انہوں نے اپنے دلائل میں کہاکہ اگر سائفر چوری ہوا تو قومی سلامتی کمیٹی نے اس پر دوسری میٹنگ کیسے کرلی؟ صاف ظاہر ہے کہانی من گھڑت ہے، میں آپ کو کچھ دکھانا چاہتا ہوں۔
جس پر جج ابوالحسنات نے کہاکہ کیا آپ مجھے سائفر دکھانا چاہتے ہیں؟ جج ابوالحسنات کے ریمارکس پر قہقہے لگے تو وکیل بابر اعوان نے کہاکہ میں آپ کو ابو السائفر دکھانا چاہتاہوں، جس پرعدالت میں پھر قہقہے لگ گئے۔
وکیل بابراعوان نے موبائل پر کمرہ عدالت میں ویڈیو دکھائی، جس میں ایک سماعت چل رہی تھی جس میں جج صاحب کہہ رہے تھے کہ میں دلاور نہیں دلیر ہوں۔
شاہ محمود قریشی کی رہائش گاہ پر چھاپا مارا گیا لیکن کچھ برآمد نہیں ہوا، شاہ محمود قریشی کو کل ہتھکڑی لگائی گئی، وہ ایک ذمہ دار شخص ہیں، کیا وہ بھاگ جاتے؟ شاہ محمود قریشی کو ہتھکڑی لگا کرعدالت پیش کرنے کا نوٹس لیا جائے، شاہ محمود قریشی سے دورانِ جسمانی ریمانڈ کچھ برآمد نہیں ہوا۔
انہوں نے کہاکہ شاہ محمود قریشی کو جوڈیشل ریمانڈ پر جیل میں رکھنا درست نہیں، شاہ محمود قریشی کے خلاف مقدمے میں کسی ثبوت کا ذکر نہیں، کہیں نہیں لکھا گیاکہ شاہ محمود قریشی نے اپنی اتھارٹی کا ناجائز فائدہ اٹھایا ہے۔ ریاستی ادارے متفقہ طور پر سائفر کا معاملہ قومی سلامتی کونسل میں زیر بحث لائے، قومی سلامتی کمیٹی نے متفقہ طور پر فیصلہ کیاکہ سائفر ایک حقیقت ہے۔
ان کا کہنا تھاکہ تفتیشی افسر نے سائفر کا ڈائری نمبر لکھا بھی ہوا ہے، اسدعمر پر ایک مقدمہ ہوا کہ لاہور میں صبح سویرے کھڑے ہو کر عوام کو اکسایا گیا، صبح سویرے اٹھنے والا الزام تو اسدعمر کے گھر والوں نے ان پر کبھی نہیں لگایا۔ سائفر چوری کا الزام لگایا، کیا چوری شدہ سائفر ملا کسی کو؟
جج ابوالحسنات ذوالقرنین نے استفسار کیاکہ امریکا سے سائفر وزارت خارجہ کو موصول ہوا، اعظم خان نے وصول کیا، جس پر وکیل بابر اعوان نے کہاکہ یہ تو کہہ رہے ہیں کہ اعظم خان ہے کہاں؟ اعظم خان کی غیر موجودگی ثبوت ہے کہ تحقیقات مکمل نہیں ہیں۔
وکیل سلمان صفدر کے مکمل دلائل
اسلام آباد کی خصوصی عدالت میں سائفر کیس کی سماعت کے دوران چیئرمین پی ٹی آئی عمران خان کے وکیل سلمان صفدر نے درخواست ضمانت پر دلائل دینا شروع کر دیے، سائفرکیس کا مدعی وزارت داخلہ کا افسر ہے، وزارت داخلہ نے سائفرکیس ہائی جیک کیا، سائفر واشنگٹن سے بھیجاگیا جس کی وصولی وزارتِ خارجہ نے کی، اعظم خان کا ذکر مقدمے میں ہے، کیا اعظم خان عدالت ہیں؟ کیا اعظم خان کی ضمانت منظور ہوئی؟
وکیل سلمان صفدر نے کہاکہ پراسیکیوشن نے ثابت کرنا ہے کہ سائفر کا اصلی اور نقلی ورژن کیا تھا، پراسیکیوشن نے ثابت کرنا ہے کہ چیئرمین پی ٹی آئی سے قومی سلامتی کو کیا نقصان ہوا، الزام لگایا گیاکہ چیئرمین پی ٹی آئی نے جان بوجھ کر سائفر کو اپنی تحویل میں رکھا ہے، کیس ہے کہ سائفر غلط رکھا اور غلط استعمال کیا، ثابت کرنا پراسیکیوشن کا کام ہے۔
وکیل سلمان صفدر نے کہاکہ سائفرکیس سیکرٹ ایکٹ 1923 کے تحت درج ہوا، کمرہ عدالت میں موجود کوئی بھی 1923 میں پیدا نہیں ہوا ہوگا۔ جس پر اسپیشل پراسیکیوٹر شاہ خاور نے کہاکہ میرے والد صاحب 1923 میں پیدا ہوئے تھے، اسپیشل پراسیکیوٹر شاہ خاور کے جملے پر عدالت میں قہقہے لگ گئے۔
وکیل سلمان صفدر نے کہاکہ جو توشہ خانہ کیس کی کڑکی میں پھنس گئے ہیں انہیں پراسیکیوشن اندر رکھنا چاہتی ہے، ڈیڑھ سال سائفرکیس کی تحقیقات جاری رہیں، مقدمہ تب بنایا جب چیئرمین پی ٹی آئی توشہ خانہ کیس میں گرفتار ہوئے، سائفرکیس سیاسی انتقام لینے کے لیے بنایا گیا ہے، گزشتہ سماعت پر انسدادِ منشیات کے جج نے بطور ایڈمنسٹریٹیو جج سماعت کی۔
وکیل سلمان صفدر کے جملے پر عدالت میں قہقہے
وکیل سلمان صفدر نے کہاکہ ایڈمنسٹریٹیو جج نے کہا یہ تو انسدادِ منشیات کی عدالت ہے، میں نے کہا چیئرمین پی ٹی آئی پر صرف منشیات کا کیس بنانا ہی رہ گیا ہے، جس پر عدالت میں قہقہے لگ گئے۔
انہوں نے کہاکہ قومی سلامتی کو نقصان پہنچانے کے لیے چیئرمین پی ٹی آئی نے کوئی ایسا کام نہیں کیا، سائفر ہےکیا؟ بےشک کوڈڈ دستاویز ہوتا جس میں کمیونیکیشن ہوتی ہے۔
جج ابو الحسنات نے کہاکہ سائفر ہے کیا؟ اس پر ضرور بات کرنی ہے۔
وکیل سلمان صفدر نے اپنے دلائل میں کہاکہ سائفر ٹریننگ شدہ افراد کے پاس آتا ہے، عام انسان نہیں پڑھ سکتا، وزارتِ خارجہ سائفر کی وصولی کرتا ہے۔
جج ابو الحسنات نے استفسار کیاکہ سائفر آیا اور کہاں گیا؟ سائفرکیس یہ ہے۔ سائفر کے 4 نقول آتے جن میں آرمی چیف، وزیراعظم شامل ہوتے ہیں۔
وکیل سلمان صفدر نے کہاکہ آج کسی کلبھوشن یادیو یا ابھینندن کا کیس نہیں سنا جارہا، سائفرکیس بہت خطرناک کیس بنایا گیا ہے، آفیشل سیکرٹ ایکٹ 1923 تو لگتا ہی نہیں ہے، چیئرمین پی ٹی آئی کوئی جاسوس نہیں، سابق وزیراعظم ہیں۔ دورانِ ٹرائل معلوم ہوگا کہ سائفر پر بیان سے ملک کو بچایا گیا یا ملک دشمن قوتوں کی سہولت کاری کی۔ جرم دشمن ملک سے حساس معلومات شیئر کرنا ہے، سیکرٹ ایکٹ تو لاگو ہی نہیں ہوتا۔ ایف آئی اے سے تو کوئی امید نہیں، امید صرف عدالت سے ہے۔
جج ابو الحسنات نے ریمارکس دیتے ہوئے کہاکہ 2 کیٹیگریز کی لسٹ ہے، بہت اہم بات کرنے لگا ہوں، سیکشن 5، سیکشن 3 کیا لاگو ہوتا ہے یا نہیں؟ سائفرکیس سب اس پر ہے۔ اگر جرم ثابت ہوتا تو سیکشن 3 اے لاگو ہوتی ہے۔ سائفر وزارتِ خارجہ سے وزیراعظم کو ملا، لیکن سائفر ہے کہاں؟ وزیراعظم، ڈی جی آئی ایس آئی، آرمی چیف، وزارت خارجہ کا سائفر ڈاکیومنٹ الگ الگ ہے۔
سائفر دفتر خارجہ آتا ہے وہاں سے وزیراعظم آفس جاتا ہے، وزیراعظم کے اسٹاف کی ذمہ داری ہے، ملٹری سیکرٹری دستاویزات کے ذمہ دار ہیں، اگر آپ اس عدالت سے اٹھ کر جاتے ہیں اور یہاں سے دستاویزات غائب ہو جائیں تو ذمہ داری آپ کی نہیں بنتی۔ اگر یہ سائفر کا میسج بتانا جرم ہوتا تو پھر قومی سلامتی کمیٹی کے سامنے کیوں پیش کیا جاتا۔
انہوں نے کہاکہ قومی سلامتی کمیٹی اسے پاکستان کے معاملات میں مداخلت قرار دے کر ڈی مارش کا فیصلہ کرتا ہے، سائفر کبھی منظر عام پر نہیں لیا گیا، وزیر داخلہ خود کہہ رہے ہیں کہ سائفر دفتر خارجہ میں موجود ہے۔
سلمان صفدر نے کہاکہ مجھے نہیں علم تھا کہ عمران خان سائفر کیس میں گرفتار ہوگئے ہیں، جبکہ عطا تارڑ کو یہ علم تھا کہ وہ گرفتار ہو گئے ہیں اور جوڈیشل ریمانڈ پر بھیج دیا گیا ہے۔
وکیل سلمان صفدر نے عدالت سے استدعا کرتے ہوئے کہاکہ سر میں پانی پی آؤں؟ جس پر جج ابو الحسنات نے مکالمہ کرتے ہوئے کہاکہ میرا تو 70 روپے کا نقصان ہوا ہے، چائے ہی نہیں پی، سلمان صفدر صاحب آپ بھی پانی پی آئیں تاکہ فرسٹریشن نہ ہو، آپ دلائل کو جاری رکھیں، ہائی کورٹ میں کسی کو بھیج کر ٹائم لے لیں۔
وکیل سلمان صفدر نے عدالت کو بتایاکہ سائفرعمران خان کی تحویل میں نہیں ہے، عمران خان نے جو جلسے میں تقریر کی وہ میں نے 3 بار سنی، اس میں انہوں نے کہا کہ میں ایسی کوئی بات نہیں کروں گا جو ملکی مفاد کے خلاف ہو، یہ الزام عائد کرنا کہ دشمن ملک کے ساتھ شئیر کیا گیا وہ پراسیکیوشن ثابت کرے اور بتائے کہ کس دشمن ملک کو اس سے فائدہ ہوا ہے۔
عمران خان کے وکیل سلمان صفدر نے سائفر سے متعلق قومی سلامتی کمیٹی کا اعلامیہ بھی عدالت میں پڑھ کر سنایا جس کے بعد وکیل بیرسٹر سلمان صفدر نے اپنے دلائل مکمل کر لیے۔
شاہ محمود قریشی کے وکیل علی بخاری نے اپنے دلائل کا آغاز کرتے ہوئے کہاکہ شاہ محمود قریشی وزیر خارجہ تھے، سائفر آیا، عملہ بتائے گا تو کابینہ میں دیں گے۔
جس پر جج ابو الحسنات نے استفسار کیاکہ جب سائفر موصول ہوا تو پھر کہاں گیا، اس کے بعد وکیل علی بخاری کی جانب سے ایف آئی آر پڑھ کر سنائی گئی کہ 1923 ایکٹ کے تحت یہ مقدمہ درج کیا گیا، وکیل علی بخاری نے آرٹیکل 12 عدالت میں پڑھ کر سنایا اور کہاکہ موکل کو 12 دن جسمانی ریمانڈ دیا گیا اور آج بھی جیل میں موجود ہیں، شاہ محمود قریشی کو ہتھکڑیاں لگا کر یہاں لایا گیا تاکہ ذلیل کیا جاسکے، وکیل علی بخاری کی جانب سے شاہ محمود قریشی کی ضمانت منظور کرنے کی استدعا کر دی گئی۔
اسد عمر نے ضمانت ملنے کے بعد عدالت کے باہر گفتگو کرتے ہوئے کہاکہ جو الزامات لگے ہیں ٹھیک نہیں ہیں، میرے اوپر تو الزام بھی نہیں لگا کوئی، صدر نے جو خط لکھا ہے وہ درست ہے، آئین کے مطابق ہے۔
انہوں نے کہاکہ ایف آئی آر پڑھ لیں میرے اوپر تو الزام ہی کوئی نہیں لگا، صحافی نے سوال کیاکہ عمران خان سے ملاقات ہوئی ہے تو انہوں نے کہاکہ صرف فیملی اور وکیلوں کو ملنے کی اجازت ہے۔
ایک اور صحافی نے سوال کیاکہ وعدہ معاف گواہ تو نہیں بننے جارہے ہیں، جس پر اسد عمر نے کہاکہ نہیں کبھی بھی نہیں وعدہ معاف گواہ بنوں گا۔
اسلام آباد کی خصوصی عدالت میں سائفر کیس کی سماعت جاری ہے، عدالت نے 50 ہزار مچلکے جمع کرانے کے عوض اسد عمر کی ضمانت منظور کر لی ہے، جج ابوالحسنات نے فیصلہ سناتے ہوئے کہاکہ پراسیکیوشن کے مطابق اسدعمر کے خلاف تاحال ثبوت نہیں ہے، اسدعمر نے شامل تفتیش ہونے کا اظہار کیا ہے لیکن پراسیکیوشن نے شامل تفتیش نہیں کیا، اگر اسدعمر کی گرفتاری مطلوب ہوئی تو ایف آئی اے قانون کے مطابق پہلے آگاہ کرے گی، جس کے بعد اسدعمر کی درخواست ضمانت 50 ہزار روپے مچلکوں کے عوض کنفرم کردی گئی۔
سائفر کیس میں اسد عمر کی درخواستِ ضمانت قبل از گرفتاری پر دلائل دیتے ہوئے وکیل بابر اعوان نے کہا کہ میں فری ہوں یا نہیں، عدالت کا وقت شروع ہو چکا ہے، اسد عمر تحریری طور پر شامل تفتیش ہوئے ہیں۔ اسد عمر براہ راست سائفرکیس کے مقدمے میں نامزد نہیں، 22 اگست کو انہوں کی درخواست ضمانت دائر کی تھی، رواں سال مارچ میں سائفر کی انکوائری کو شروع ہوئے ایک سال ہوا، ایف آئی اے کے پاس ثبوت ہی نہیں تو ضمانت کنفرم کردی جائے۔
اسد عمر نے اپنی صفائی میں کہاکہ میں نے تو خود ایف آئی اے کو خط لکھ کر پوچھا کہ بتائیں شامل تفتیش ہونے کب اور کدھر آنا ہے۔
اس دوران اسپیشل پروسیکیوٹر شاہ خاور کمرہ عدالت پہنچے اور دلائل دیتے ہوئے کہاکہ اسدعمر کی کیس میں تاحال گرفتاری مطلوب نہیں ہے، اسدعمر کے خلاف کوئی ثبوت ابھی موجود نہیں، اگر اسدعمر کی درخواست ضمانت پر دلائل سننے ہیں تو عدالت کی اپنی مرضی ہے۔ تفتیش کے دوران اگر کوئی ثبوت ملا تو اسدعمر کو آگاہ کیا جائے گا۔
چیئرمین پاکستان تحریک انصاف (پی ٹی آئی) عمران خان، شاہ محمود قریشی، اسدعمر کے خلاف سائفرکیس کی سماعت آج ہوئی، آفیشل سیکرٹ ایکٹ عدالت کے جج ابوالحسنات ذوالقرنین نے اِن کیمرہ سماعت کی، جج ابو الحسنات ذوالقرنین نے کہاکہ دونوں فریقین کی موجودگی میں ہی سائفرکیس کی سماعت ہوگی اور آج ہی فیصلہ کرکے رہوں گا۔
خصوصی عدالت کے جج ابوالحسنات ذوالقرنین نے کہاکہ سائفر کیس کی سماعت تو آج ہی ہوگی، سب یہ سن لیں، ایف آئی اے نے اگر دلائل نہ دیے تو ریکارڈ دیکھ کر آج ہی فیصلہ کردوں گا۔
اسپیشل پراسیکیوٹر ذوالفقار نقوی نے عدالت کو بتایا کہ 12:30 بجے سائفر کیس کی سماعت مقرر کر دیں، دیگر اسپیشل پراسیکیوٹرز کو بھی سپریم کورٹ جانا ہے۔
وکیل صفائی سلمان صفدر نے کہا کہ مجھے دلائل دینے کی اجازت دی جائے، ہم نے بھی ہائیکورٹ جانا ہے، ہر سماعت پر اسپیشل پراسیکیوٹر کوئی بہانا کرتے ہیں۔
جج ابوالحسنات ذوالقرنین نے کہا کہ فریقین کی موجودگی میں ہی سائفر کیس کی سماعت ہو گی۔
اسپیشل پراسیکیوٹر ذوالفقار نقوی نے کہا کہ پراسیکیوشن جیسے ہی فارغ ہوتی ہے جوڈیشل کمپلیکس پہنچ جائے گی۔
وکیل سلمان صفدر نے کہاکہ مجھے کم سے کم ایک گھنٹہ تو دلائل کے لیے دیا جائے، ایک نہیں تین تین اسپیشل پراسیکیوٹرز سائفرکیس میں ہیں۔
اسپیشل پراسیکیوٹر ذوالفقار نقوی نے کہاکہ کیا ہم سپریم کورٹ چھوڑ دیں؟ یہ ہائیکورٹ چھوڑ نہیں رہے اور ہمیں سپریم کورٹ چھوڑنے کا کہہ رہے ہیں، سیکرٹ ایکٹ عدالت میں جھوٹ کیوں بولیں گے؟
جج ابو الحسنات ذوالقرنین نے برہمی کا اظہار کرتے ہوئے کہاکہ میں آج ہی فیصلہ کرونگا
واضح رہے کہ چیئرمین پی ٹی آئی، شاہ محمود قریشی اوراسد عمر کےخلاف سائفر کیس کی سماعت آج ہونی ہے، خصوصی عدالت کےجج ابوالحسنات ذوالقرنین اِن کیمرہ سماعت کریں گے۔
پراسیکیوشن نے کہاکہ ملزم شامل تفتیش ہوتے ہیں، تفتیشی کسی کے پیچھے نہیں جاتے، اگر یہ شامل تفتیش ہوتے تو ہوسکتا ہے یہ گناہ قرار دیے جاتے۔
عدالت نے پراسیکیوشن سے استفسار کیاکہ آپ کے پاس موقع تھا کیوں نہیں کیا؟ ایف آئی آر میں تو انکا نام بھی واضح نہیں ہے، اسد عمر کی ضمانت کو الگ اور باقی 2 کو الگ ڈیسائڈ کرنا ہے۔
بابر اعوان نے پراسیکیوشن سے مکالمہ کرتے ہوئے کہاکہ آپ مجھے بلائیں تفتیش کے لیے تو میں آجاؤں گا۔ 22 اگست کو اسدعمر کی درخواست ضمانت دائر کی تھی، رواں سال مارچ میں سائفر کی انکوائری کو شروع ہوئے ایک سال ہوا۔
عدالت نے ریمارکس دیے کہ ایک ضمانت کے باعث دیگر ضمانتیں بھی نہیں سنی جا سکیں
پراسیکیوشن کے معاون وکیل نے کہاکہ اسدعمر کو مچلکے جمع کروا کر تفتیشی افسر کے پاس جانا تھا، اسدعمر درخواست ضمانت منظور توسیع کے بعد شامل تفتیش نہیں ہوئے، اسدعمر کی حد تک تفتیش مکمل نہیں ہوئی، درخواست ضمانت پر دلائل نہیں بنتے۔
اسد عمر نے کہاکہ ایف آئی اے نے مجھے 2 دفعہ بلایا اور دو دو گھنٹے سوالات کیے۔ ڈیڑھ سال سے کچھ بھی نہیں ہوا، نہ ہی مقدمے میں میرا کوئی واضح ذکر ہے۔ یہ صرف سیاسی کیس ہے اور دباؤ ڈالنے کے لیے ایسا کیا جارہا ہے۔
جج ابو الحسنات ذوالقرنین نے کہاکہ قانون میں میرٹ کو دیکھا جائے گا، عدالت نے آپ کی خواہشات پر نہیں چلنا، جو اسدعمر سے سوال کرنا ہے کمرہ عدالت میں بٹھا کر کرلیں۔ صاف سی بات ہے جو حق ہوگا اسے ملے گا، جو نہیں ہوگا میں نہیں دوں گا۔ آپ نے ان سے جو بات کرنی ہے کریں، آپ کوئی تھرڈ ڈگری تو نہیں دیں گے۔ آپ نے جو بھی مرضی کرنی ہے کریں، میں نے آج ہی فیصلہ کرنا ہے۔
جج ابوالحسنات ذوالقرنین نے ریمارکس دیے کہ اسدعمر، چیرمین پی ٹی آئی عمران خان، اور شاہ محمود قریشی کی درخواستوں پر فیصلہ آج کرکے رہوں گا، جتنی مرضی درخواستیں دینی ہیں دے دیں، تمام درخواستوں پر فیصلے آج سناؤں گا۔
اسپیشل پروسیکیوٹرز کے معاون نے تینوں ضمانتوں پر دلائل اکٹھا سننے کی استدعا کردی
عدالت نے ریمارکس دیے کہ 2 درخواست ضمانت بعد از اور ایک درخواست ضمانت قبل از گرفتاری الگ الگ سنی جائیں گی، جائز بات کریں، عدالت کو بتائیں اسدعمر کا کردار براہ راست نہیں تو مقدمے میں نامزد کیوں کیا؟ اسدعمر کی درخواست ضمانت کی مخالفت کیوں کی جارہی؟ ٹھوس وجہ بتائیں۔ درخواست ضمانتوں پر کوئی سمجھوتا نہیں ہونا، فیصلہ ہوگا تو آج ہوگا۔
جج ابو الحسنات نے برہمی کا اظہار کرتے ہوئے کہاکہ اسپیشل پروسیکیوٹرز کو بتا دیں، نہیں پہنچے تو دلائل شروع ہو جائیں گے، اسپیشل پروسیکیوٹرز کو پیغام دے دیں پہنچنے کا، ایسے نہیں چلے گا۔
وکیل سلمان صفدر نے کہاکہ تاریخ میں اتنا کسی کو سیاسی انتقام کا نشانہ نہیں بنایا جتنا چیئرمین پی ٹی آئی عمران خان کو بنایاگیا۔ چیئرمین پی ٹی آئی محب وطن پاکستانی ہیں، بطور وزیراعظم ملک کی خودمختاری کا سوچا۔ چیئرمین پی ٹی آئی کےخلاف 180 سےزائد کیسزدرج کیے گئے۔ ایف آئی اے نے جھوٹے مقاصد اور اتھارٹی کاغلط استعمال کرتےہوئے سائفرکیس کامقدمہ درج کیا۔ سائفرکیس کے مقدمے میں سب کے جلدبازی میں نام نامزد کیے گئے۔