News Views Events

رُوداد غنی بابا سے دو ملاقاتوں کی

0

سمیع الرحمان

 

اکتوبر ۱۹۹۲ میں ،جب غنی خان کی شاعری اور سردار علی ٹکر کی آواز کاشہرہ آسمان کو چھو رہا تھا اور پشتون نوجوان نسل ان دونوں پر دیوانہ وار مرتی تھی، ایک دن اچانک میرے دِل میں یہ خواہش اُمڈ آئی، کہ غنی بابا سے ملاقات کی جائے ۔

اُس وقت میری عمر ۱۷ سال تھی اور خوشحال خان خٹک ڈگری کالج ، اکوڑہ خٹک میں سالِ اوّل کا طالب علم تھا۔ نصابی کتابوں سے زیادہ غیر نصابی سرگرمیاں، بلکہ یوں کہنا چاہیے کہ بہ نسبت روایتی تعلیم کے آوارہ گردی اور اوباشی دِل کو زیادہ بھانے لگی تھی، اور باغیانہ خیالات دِماغ میں دَر آئے تھے۔
یُوں ایک دن کالج میں رسماً ایک کلاس دو میں حاضری دینے کے بعد جی ٹی ایس (گورنمٹ ٹرانسپورٹ سروس، جو نصف کرائے کے سبب اُس وقت کالج کے طلباء کی بڑی عیاّشی تھی) میں بیٹھا ۔ نوشہرہ اُتر کر پتہ کیا تو معلوم ہو ا کہ ڈاٹسن براستہ خویشگی اور نستہ چارسدہ جاتے ہیں۔ ایک میں بیٹھ گیا ،گھنٹہ ڈیڑھ انتظار کے بعد سواریاں پوری ہوئیں تو چل دیا ۔ سفر بھی یہی کوئی گھنٹے ڈیڑھ گھنٹے کا تھا۔

چارسدہ پہنچ کر معلوم ہوا کہ بابا کا گاؤں یہاں سے بھی کوئی آدھے گھنٹے کی مسافت پر ہے اور اس کے لیے سوزوکیاں چلتی ہیں۔ یوں سوزوکی میں بیٹھا۔ کسی نے عظیم خان پُل کا بتایا تھا۔ وہاں اُترا تو نہر کے کنارے پکوڑوں کا ایک ٹھیہ اور تانگہ استقبال کے لیے موجود تھے۔ کچھ پکوڑے کھائے اور تانگے میں بیٹھ گیا، کہ بقول تانگے والے منزلِ مقصود اب بھی کلومیڑ ڈیڑھ دُور تھا۔ نہر کے کنارے کنارے کچے راستے پہ، جس کے دونوں جانب گنے کے سرسبز کھیت اور جاپانی پھل کے باغات تھے، ٹپا ٹپ ، ٹپا ٹپ کرتے کرتے ایک جگہ تانگے والے نے اُتاردیا اورایک جانب اشارہ کرکے بتایا کہ باقی پانچ منٹ کا راستہ پیدل ہے۔
یہ راستہ بھی ایک ذیلی نہر کے کنارے تھا اور بابا کا کاشانہ بھی اسی پہ واقع تھا۔ جب پہنچا تو گھر کافی وسیع و عریض دکھائی دیا۔ بیرونی چاردیوار ی چار، پانچ فٹ سے زیادہ اونچی نہ تھی اور کچی تھی ،جو نہر کے کنارے دور تک نظر آ رہی تھی۔ نہر پر بنے ایک چھوٹے سے پُل کو عبور کرکے سامنا سرخ اینٹوں سے بنے مرکزی دروازے سے ہوا جس کے دونوں طرف مورچے بنے تھے ، جو رسماً تھے، کہ چوکیدار ندارد۔

دروازے سے گزر کر دالان میں البتہ دو لڑکے کرکٹ کھیل رہے تھے ، عمر میں مجھ سے قدرے چھوٹے (بعد میں  پتہ چلا کہ یہ بابا کے چہیتے نواسے ہیں۔ بڑے کا نام بہرام اور چھوٹے کا مشعل تھا) ۔ اُن سے مصافحہ کیا۔ ارد گرد نظر ڈالی تو ہر سُو خوبصورت درخت اور پھولوں کی کیاریاں دکھائی دیں۔ سامنے وہی سرخ اینٹوں کی مغل طرز کی محرابوں پر مشتمل برآمدہ اور تین ، چار کمرے ۔ یہ بابا کا حجرہ تھا۔ بائیں جانب ایک پکی دیوار حجرے اور گھر کے درمیان حّدِ فاصل تھی ۔

ایک بھائی نے اندر جا کر میرے آنے کی اطلاع دی۔ تھوڑی دیر بعد ۲۲، ۲۴ سال کا ایک ملازم آیا، جس کا نام کریم تھا ۔ بقول اُن کے معلوم ہوا کہ بابا تو ملاقاتیوں سے ملتے ہی نہیں ۔ لو جی، مفت کی اتنی خجل خواری۔ قدرے پریشان ہو کر میں نے کریم سے کہا کہ کم از کم بابا کو بتا تو دیں کہ اکوڑہ سے آیا ہے۔ جی کہہ کر وہ اندر چلا گیا۔

لڑکوں میں سے ایک نے پوچھا ،کرکٹ کھیلو گے؟’’ویسے تو نہیں کھیلتا لیکن آج کھیل لیتا ہوں،‘‘ میں نے کہا ۔ دل ہی دل میں ’غم غلط کر نے کے لیے‘ کا اضافہ کر دیا۔ ابھی پانچ منٹ نہیں ہوئے تھے کہ کریم واپس آیا اور بولا کہ بابا بلا رہے ہیں ۔ مَیں نے جھٹ سے بیٹ زمین پر رکھ دیا اور اس کے ساتھ ہو لیا۔
گھر کے اندر ایک پگڈنڈی پر سے داخل ہوا تو وہی ان گنت اور قسم قسم کے میوہ دار اور دوسرے درخت، پھولوں کی کیاریاں اور رنگا رنگ پھول۔ واقعی بابا نہ صرف دنیا جہان سے الگ تھلگ گوشہ نشین ہیں بلکہ اپنی جمالیاتی شاعری کی طرح فطری حسن و جمال کا بھی ذوق ِ سلیم رکھتے ہیں۔
مکان مربع شکل کا نظر آرہا تھا۔ یَک منزلہ تھا۔ وہی سرخ اینٹوں والا محرابی برآمدہ گرداگرد اور پرانے دستور کے مطابق دو الگ حصّوں میں بٹا ہوا: مردانہ اور زنانہ۔ مردانہ حصّہ دائیں جانب تھا۔ برآمدے میں جگہ جگہ بابا کے ہاتھ کی بنی پینٹنگز اور اُن کی جوانی کی تصویریں آویزاں تھیں ۔ ساتھ ہی ان کے اپنے بنائے گئے مجسمّوں اور گندھارا دور کے مجسّموں سے برآمدہ مزّین تھا۔

کریم کونے میں واقع ایک کمرے کے اندر داخل ہو گیا۔ مَیں اُس کے پیچھے ہو لیا۔ چھوٹے سائز کا کمرہ تھا ، ڈھیر ساری اشیاء سے کچا کچ بھرا ہوا ۔ بابا ایک طرف چارپائی پر لیٹے ہوئے تھے۔ اپنی کہنہ سالی کے باوجود ہشاش بشاش دکھائی دیے۔ اور باوجود نقاہت کے خاصی گرم جوشی سے پیش آئے ۔
چارپائی کے ساتھ ہی ایک آرام کرسی کی طرف انہوں نے اشارہ کیا۔ مَیں بیٹھ گیا۔ ’’یُوں تو مَیں کسی سے نہیں ملتا ،
‘‘میرے بیٹھتے ہی انہوں نے گفتگو کا آغاز کیا ، ’’ لیکن کریم نے بتایا اکوڑہ سے آیا ہے، تو مَیں نے کہا بُلوا لو، دیکھو یہ آپ کے گاؤں والے (کلی وال )نے میرے بارے میں کیا کہا ہے؟‘‘ مَیں نے حیرانی سے پوچھا ، ’’ کس نے، بابا؟‘‘ ’’اجمل خٹک نے ، اور کس نے۔ (شعر ترجمہ) اچھا تو غنی خان ہےکہ خُم خالی کرکے شعر لکھے ، خوار اجمل کو دیکھو جو محض پانی پی کر شاعری کرے۔‘‘ یہ سُن کر مَیں ہنس دیا اور دل ہی دل میں کافی دیر تک شاعروں کی آپس میں نوک جھونک پہ مسکراتا رہا۔

مَیں نے کچھ تو موضوع بدلنے اور کچھ اپنی تجسّس کی خاطر یوں ہی پوچھ لیاکہ ،’’بابا، آپ اب بھی پیتے ہیں؟‘‘ ’’نہیں بیٹا، میرے نواسوں اور نواسی نے قسم د ی ہے کہ اگر ہماری خاطر زندہ رہنا ہے ، تو یہ چیز چھوڑنی ہو گی۔ دل پر پتھر رکھ کر چھوڑ دی۔ یہ کیا بلکہ اب تو سگریٹ تک نہیں پیتا ۔‘‘
چارپائی کی دائیں جانب دیوار پہ گتے یا پلاسٹک سے بنا ایک بڑا سا سگریٹ دیوار پہ دھاگے سےآویزاں تھا، جس پہ موٹے حروف میںNo Smoking لکھا تھا۔ پاس سرہانے کے آکسیجن کا ایک بڑا سیلنڈر بھی عمودی انداز میں کھڑا تھا، جس سے اندازہ ہو رہا تھا کہ بابا کو دمے یا سینے کی کوئی بیماری لاحق ہے۔
بابا تھے تو ضعیف العمر لیکن باتوں کے رَسیا تھے۔ ایک کے بعد ایک قصّہ جوانی کا سنانے لگے۔ مَیں سُنتا رَہا اور سر دُھنتا رَہا، گویا بابا اپنا کلام سنا رہے ہوں۔ ’’افسوس ، بابا (باچا خان ) نے مجھے کسی ایک جگہ ٹکنے نہ دیا ،ورنہ آج مَیں بہت بڑا آدمی ہوتا۔‘‘ یہ بات میرے لیے قدرے حیران کُن اور تعجّب کا باعث تھی۔ مَیں فوراً بولا:’’ لیکن بابا، آپ کو تو ایک دُنیا جانتی ہے اور آپ اور آپ کے کلام سے والہانہ عشق رکھتی ہے۔‘‘ ’’نہیں بیٹا مَیں زندگی میں اور بہت کچھ بھی حاصل کر سکتا تھا۔ اب تو نہ مَیں پوری طرح شاعر ہوں ، نہ مصوّر ، نہ ہی مجسمہ ساز،‘‘ انہوں نےکسی قدر افسردگی سے جواب دیا۔ مَیں خاموش رہا۔

یہ کہہ کر کریم کو ،جو ابھی تک پاس کھڑا تھا، اشارہ کیا اور اُن کے سہارے چارپائی سے پاؤں لٹکا کر بیٹھ گئے۔ اُن کی سبز نیم وا آنکھوں میں جوانی کی سی چمک تھی اور نقرئی بالوں کی ہلکی لٹیں کنپٹیوں پہ دونوں جانب لٹک رہی تھیں۔

واقعی، بڑے لوگوں کی باتیں بھی بڑی ہوتی ہیں، بلکہ اُن کے آئیڈیلز بہت بلند ہوتے ہیں ، جبھی اتنی بلندی حاصل کرتے ہیں۔ غنی بابا اُن دِنوں میرے جیسے لاکھوں نوجوانوں کے لیے ایک دیوتا کی حیثیّت رکھتے تھے، لیکن جناب یہاں تو دیوتا کہہ رہے ہیں کہ وہ مہادیوتا بھی بن سکتے تھے۔اس بات کو آپ یوں سمجھیے کہ خوشحال خان پشتو زبان کے باپ اور شیکسپئیر ہیں، لیکن خود خوشحال بابا اپنے بارے میں کیا فرما رہے ہیں، سُنیے ذرا (ترجمہ پریشان خٹک) :
’’میری طبیعت میں آمد ہے ، نہ کہ آورد
اگرچہ مَیں اِملا کا استعمال جانتا ہوں
ایک گھنٹہ درس میں گزارتا اور بیس گھنٹے شکار میں
مجھے شکار سے کسب و کمال کا موقعہ کہاں مِلتا تھا
اگر مَیں شکار کے شغل میں مبتلا نہ ہوتا
تو تمام دُنیا کے علوم حاصل کر لیتا۔‘‘
شاید ، خوشحال اور غنی بابا دونوں اپنی حسرتیں تب بیان کر رہے تھے جب اُنکی زندگی کا سورج غروب ہونے کو تھا۔ بڑھاپا یوں بھی ایک طرح سے دوسرا بچپنا ہے ، چھوٹی چھوٹی باتوں پہ رُوٹھنا اور چڑچڑاپن وغیرہ بڑھاپے سے جڑی باتیں ہیں ، گویا بڑھاپے کی بھی اپنی نفسیات ہیں اور جو چیزیں جوانی اور ادھیڑ عمر میں ایک شخص محسوس کرے ،ضروری نہیں وہ بڑھاپے میں بھی ویسی ہوں ۔ پھر شاعر ہوتے بھی بلا کے حساس ہیں،اس لیے یہ احساس اُن کے ہاں اور زیادہ شدّت سے حملہ آور ہوتا ہے۔
ایک تیسرا گلہ اُن کا سردار علی ٹکر سے تھا۔ یہ موضوع کچھ ایسے چھڑا کہ مَیں نے کسی بات پہ سردار علی ٹکر کی تعریف کر دی اور اُن کو پاکستان کا ناشناس ٹہرا یا۔ بابا نے جھٹ سے مجھے ٹوکا: ’’ایک بات انہوں نے غلط کہی ہے۔‘‘ ’’کیا، سَر؟‘‘، مَیں نے استفسار کِیا۔ ’’ایک انٹرویو میں اُنہوں نے کہا ہے کہ میری وجۂ شہرت ان کی گائیکی اور موسیقی کی مرہونِ منّت ہے۔‘‘ اب بھلا مَیں ناچیز کیا کہتا ، لاچار بستہ لب رہا ۔
یہ نہیں کہ مایوسی اور قنوطیّت بابا کی شخصیّت پر چھائی تھی اور اُن کا سارا سلسلہ ٔ کلام بس گِلوں شکوں پر مبنی تھا، بلکہ دورانِ گفتگو وہ خاصی دلچسپ قصّے بھی بیان کرتےرہے ، گھٹنوں کے علاج کے سلسلے میں مثال کے طور پر اپنے سفرِ ہندوستان کا ذکر انہوں نے جس دلچسپ انداز میں کیا، اس سے مجھے یوں لگا گویا میں بھی اس سفر میں اُن کے شانہ بشانہ تھا۔
ایک بات جو میں نے شدّت سے محسوس کی وہ اُن کی اپنی رفیقۂ حیات سے بے پناہ محبّت تھی۔ اس کا اندازہ مجھے اس سے ہوا جب ایک ہی واقعہ انہوں نے مجھے نہایت دکھ و درد اور افسوس کے ساتھ دو بار سنایا ۔ یہ واقعہ محترمہ کی اپنے گھر میں پھسلنی فرش پہ گرنے کے بارے میں تھا، جس سے اُن کو کوئی مہلک چوٹ لگی تھی،اور جس نے شاید اُن کو بسترِ مرگ تک پہنچایا تھا۔
اُن کی زوجہ، جو حیدر آباد دکن جیسے امیر و کبیر خاندان سے تعلق رکھتی تھی ،اپنے حسن و جمال میں گویا کوہِ قاف کی پری تھی ، جن کو بابا اپنے زورِ عشق سے اُڑا کر چارسدہ کی اپنی جھونپڑی میں لائے تھے اورجن سے بابا نے نہ صرف پوری زندگی والہانہ طریقے سے نباہا بلکہ اُن کو ایک ملکہ اور شہزادی کی طرح رکھا۔

اِن سے بابا کا جو اکلوتا بیٹا تھا،اُس کے قتل کا افسوس ناک قصّہ مشہورو معروف ہے جو شاید یہاں بیان کرنے کی ضرورت نہیں لیکن غنی بابا کی غنیّت ، فیاضی اور کشادہ دلی کی خاطردو سطر لکھنے میں کوئی حرج نہیں کہ کیسے اپنے ہی کسان کے ہاتھوں معمولی سی تکرار پہ صاحبزادے قتل ہوئےاور کیسے اِس درویش صفت اور انسان دوست ہستی نے اُسے معاف کر دیا۔

ایک پشتون معاشرے میں جہاں لوگوں کی جانب سے جھوٹی غیرت دِلانے اور بدلہ و انتقام لینےمیں کوئی کسر نہیں چھوڑی جاتی ، رحم اور حُسنِ سلوک کا یہ ایک فقید المثال واقعہ ہے۔ ورنہ کہاں ایک معمولی کسان اور کہاں غنی خان۔چاہتے تو اُس کو نشانۂ عبرت بنادیتے۔

زندگی کے ان تلخ تجربات اور حسرتوں کے باوجود بابا کی حسِ مزاح اور ظرافت کمال درجے کی تھی۔ اور وقتاً فوقتاً آپ اس کا دورانِ کلام اظہار بھی کرتے ۔اس کی ایک ہلکی سی جھلک مَیں دکھا دیتا ہوں جو میری اُن سے دوسری ملاقات ، جو پہلی ملاقات کے قریباً دو ڈھائی مہینے بعد ہوئی، سے تعلق رکھتی ہے۔
ہوا یوں کہ دوسری مرتبہ جب مَیں اُن سے ملنے گیا، تو کریم کسی کام سے باہر گیا تھا۔ حجرے میں اُن کے مرحوم بیٹے کا سالا، جن کا نام مجھے یاد نہیں ، بیٹھا تھا۔ موصوف نہایت خوش باش ، مہمان نواز اور شوخ انسان تھے ۔ چائے وغیرہ سے تواضع کرنے کے بعد سیدھا مجھے بابا کے پاس لے گئے ۔ بابا اپنے وہیل چیئر پہ باہر بلند و بالا درختوں ، جو شاید چنار تھے اور ایک گول دائرے میں بوئے گئے تھے، کے بیچ دھوپ سیک رہے تھے۔ دیکھتے ہی شفقت کی ۔درختوں کے ساتھ دائرے میں ہی چار ، پانچ چارپائیاں بچھائی گئی تھیں اور ہاتھ سے بنی بیل بوٹیوں کی کڑھائی سے مزّین چادریں اور گاؤ تکیے اُن پہ رکھے گئے تھے۔ مَیں ایک پہ بیٹھ گیا۔ اتنے میں کریم ایک گائے کے ساتھ نمودار ہوئے اور دُور ہی سے بابا کو مخاطب کِیا کہ ’’ بابا، وہ ڈاکٹر کہہ رہا ہے، کہ اس گائے کے بچّے نہیں ہونے والے۔‘‘ ’’اچھا؟ مَیں سمجھتا تھا کہ یہ بیماری صرف ہماری عورتوں کو لاحق ہوتی ہے،‘‘ بابا نے برجستہ جواب دیا۔ یہ سُن کر مَیں بھی کافی دیر تک ہنستا رَہا اور خود بابا بھی۔

پوری طرح یاد نہیں اس دوسری ملاقات میں اُن سے کیا باتیں ہوئیں۔ کاش ایک ٹیپ ریکارڈر ساتھ لے جاتا تو دونوں ملاقاتوں کی پوری روداد محفوظ ہو جاتی ۔ لیکن اُس کمسنی میں اتنی عقل کہاں تھی۔ ہاں، اتنی عقل تھی البتہ، کہ دوسری بار ساتھ ایک کیمرہ اور رِیل لے کر گیا ۔ اُس مست موصوف نے فوٹوگرافر کے فرائض سرانجام دیے اور ۱۰، ۱۵ منٹ کے اندر ہی ساری رِیل پر ہاتھ صاف کر گئے۔ بابا کے ساتھ میری صرف دو ہی تصاویر آسکیں۔ اور دونوں شومِئیِ قسمت کہ ایک دوست نے کراچی میں اس وعدے پر لیں کہ واپس کرے گا، لیکن وہ دن اور آج کا دن ،اُن تصویروں کا چہرہ مَیں نے دوبارہ نہیں دیکھا۔ اس کا افسوس مجھے ساری زندگی رہے گا۔

اس دوسری ملاقات میں مَیں اپنے ہاتھ سے بنائی گئی چند تصاویر (Sketches) بھی لے کر گیا تھا کہ بابا کی رائے اُن پہ لوں۔ جب اُن کو دِکھائیں تو انہوں نے نہایت غور سے اُن پہ نظر ڈالی اور کچھ دیر الٹنے پلٹنے کے بعد اچانک پوچھا کہ ، ’’بیٹا، کوئی نشہ تو نہیں کرتے تم؟ ‘‘ مَیں اس غیر متوقع سوال سے کچھ ہکا ّ بکاّ سا رہ گیا ، اور حیرت کا مجسم نمونہ بن گیا۔ کوئی جواب نہ بن پایا۔ شاید اپنے سوال میں ہی انہوں نے جواب بھی دے دیا تھا۔
نشہ کیا تھا بھلا؟ تمباکو کا پان ، جس کے زیرِ اثر مَیں نے وہ تصاویر بنائی تھیں۔ اور جو اُس نوعمری میں یوں اَثر کرتا ،گویا کہ آتشِ بے دُود کی ایک پوری صراحی چھڑا دی ہو۔

اب دَھائیوں بعد جب سوچتا ہوں تو اپنے ساتھ ہنس بھی لیتا ہوں اور اُن کی محققانہ نظر اور بے باک رائے کو داد بھی دیتا ہوں ۔میری ملاقات کے کوئی تین سال بعد بابا اس دُنیا سے کوچ کر گئے ، جس کی اطلاع مجھے کراچی میں والد مرحوم نے بذریہ خط دی۔ اِناّ للّہ و اِنّا اِلیہ رَاجِعُون!

پِیررومی و مرِید ہندی: تذکرہ ایک کانفرنس کا

Leave A Reply

Your email address will not be published.