News Views Events

کار سازی کی صنعت میں  جلد ہی ہیومنائڈ روبوٹس کی شمولیت

0

 

اعتصام الحق ثاقب

 

 

چین میں ہائی ٹیک روبوٹس اور کار سازی کی صنعت تیزی سے ترقی کر رہی ہے اور  یہ ملک روبوٹکس اور آٹوموٹو انڈسٹری میں ایک اہم  ملک بن چکا ہے۔روبوٹکس ٹیکنالوجی میں چین  دنیا کی  سب سے بڑے مارکیٹوں میں سے ایک ہے۔ صنعتی روبوٹس، سروس روبوٹس، اور خصوصی روبوٹس کی تیاری اور استعمال میں چین  اب نمایاں مقام رکھتا ہے۔ صرف اتنا ہی نہیں بلکہ اب بھی چین کی حکومت  "میڈ ان چائنا 2025” جیسے پروگراموں کے ذریعے روبوٹکس اور آٹومیشن کو فروغ  دے رہی ہے ۔دوسری جانب چین دنیا کی سب سے بڑی کار مارکیٹ بھی  ہے۔ یہاں نہ صرف روایتی پیٹرول اور ڈیزل گاڑیاں بنائی جاتی ہیں، بلکہ الیکٹرک گاڑیوں  کی تیاری میں بھی چین  اب عالمی  رہنما ہے۔

دونوں صنعتوں کو یکجا کر کے دیکھا جائے تو  چین کی کار سازی کی صنعت میں ہائی ٹیک روبوٹس کا وسیع پیمانے پر استعمال کیا جاتا ہے۔ یہ روبوٹس مختلف مراحل جیسے ویلڈنگ، پینٹنگ، اسمبلی، اور کوالٹی کنٹرول میں استعمال ہوتے ہیں۔ اس سے نہ صرف پیداواری صلاحیت میں اضافہ ہوا ہے بلکہ معیار بھی بہتر ہوا ہے۔اس ضمن میں چین کی حکومت نے ہائی ٹیک صنعتوں کے  فروغ  میں مختلف پالیسیاں اور سبسڈیز متعارف کروائی ہیں اور مصنوعی ذہانت ، انٹرنیٹ آف تھنگز ( آئی او ٹی)، اور g5  ٹیکنالوجی میں بھی بڑے پیمانے پر سرمایہ کاری کی ہے، جو روبوٹکس اور کار سازی کی صنعت کو مزید تقویت دے رہی ہے۔

یہی وجہ ہے کہ چینی کمپنیاں صرف  مقامی سطح پر نہیں بلکہ  عالمی سطح پر بھی  تعاون کر رہی  ہیں ۔ مثال کے طور پر، چین کی روبوٹکس کمپنیاں جرمنی، جاپان، اور امریکہ جیسے ممالک کے ساتھ شراکت داری کر رہی ہیں تاکہ جدید ٹیکنالوجی کو اپنایا جا سکے۔

لیکن اب اس شعبے میں مزید ترقی کی بازگشت ہے۔پراڈکشن لائن پر پر اب انسان  نہیں بلکہ ہیومنائڈ روبوٹس کار سازی کی مہارتیں دکھا  تے نظر آئیں گے  کیوں کہ چینی کار ساز اسٹریٹجک تنوع کے ایک ذریعہ کے طور پر تیزی سے بڑھتے ہوئے ہیومنائڈ روبوٹ کے شعبے میں اپنی کوششوں کو تیز کر رہے ہیں ا ور شدید مسابقت  میں سمارٹ گاڑیوں میں موجودہ تکنیکی مہارت اور مینوفیکچرنگ کی صلاحیتوں کا فائدہ اٹھا رہے ہیں ۔مثلا چینی کی مشہور کمپنی شیاؤمی  جو سمارٹ الیکٹرک وہیکل سیکٹر میں ایک ہائی پروفائل کمپنی ہے، اپنے روبوٹ ، سائبر ون کو تیار کرنے پر کام کر رہی  ہے   تاکہ وہ اپنی گاڑیوں کی  پراڈکشن لائین پر  اس سے مدد لے سکے  ۔اس کے علاوہ ٹویوٹا اور ہونڈا کے چینی پارٹنر جی اے سی نے دسمبر میں اپنے ہیومنائڈ روبوٹ "گومیٹ” کی نقاب کشائی کی   جو پہیوں پر کھڑا ہوتا  اور چلتا ہے ۔اچلاعات یہ بھی ہیں کہ ایک کار ساز کمپنی  2025 میں روبوٹ کے اجزاء کی بڑے پیمانے پر پیداوار شروع کرے گی ، اور توقع ہے کہ روبوٹ 2026 سے  گاڑیوں کے اسمبلی پلانٹس میں کام کریں گے ۔تجزیہ کاروں کا کہنا ہے کہ روبوٹکس میں آٹو میکرز کا داخلہ سمارٹ ای وی اور ہیومنائڈ مشینوں کے درمیان اوور لیپنگ ٹیکنالوجیز سے ہوتا ہے ۔بیجنگ میں مقیم ایک آزاد آٹو تجزیہ کار چن مینگ نے کہا کہ خود مختار ڈرائیونگ سسٹم ، جو آٹو میکرز کے لیے ایک  بڑا میدان  ہے ، روبوٹکس کے لیے  بھی کار آمد خزانہ بن چکے ہیں ۔ ریڈار  اور کیمرے جیسے سینسر ، آبجیکٹ کی شناخت کے لیے اے آئی الگورتھم  جو اصل میں گاڑیوں کے لیے بنائے گئے ، اب  ان روبوٹس کو ‘دیکھنا’ ، ‘سوچنا’ اور ‘حرکت کرنا’ سکھانے کے لیے دوبارہ تیار کیے جا رہے ہیں ۔فروری کے اوائل میں اسپرنگ فیسٹیول گالا میں  ہیومنائڈ روبوٹس   کے پرفارم کرنے کے بعد  چین کی  اسٹاک مارکیٹ میں  اس شعبے کی متعدد کمپنیوں کے شئیرز میں اضافہ دیکھا گیا ہے۔چین انڈسٹریل ٹیکنالوجی ریسرچ کے سربراہ گولڈمین ایک تحقیقی تجزیہ کار جیکولین ڈو نے ایک رپورٹ میں لکھا ہے کہ دنیا بھر میں ہیومنائڈ روبوٹس کی کل ایڈریس ایبل مارکیٹ 2035 تک 38 ارب ڈالر تک پہنچنے کا امکان ہے ، جو 6 ارب ڈالر کے پچھلے تخمینے سے چھ گنا زیادہ ہے  ۔

چین میں ہائی ٹیک روبوٹس اور کار سازی کی صنعت کا مستقبل روشن ہے۔ الیکٹرک گاڑیوں، خودکار گاڑیوں   اور اسمارٹ مینوفیکچرنگ کے شعبوں میں مزید ترقی متوقع ہے۔

 

Leave A Reply

Your email address will not be published.