"ڈرل بے بی ڈرل” سے بڑھ کر تعاون کرو!
بیجنگ : ” میگا ” ” میگا ") میک امریکہ گریٹ اگین) کا نعرہ ۔تو ہمارے بارے میں کیا؟ اس دنیا کے بارے میں کیا؟ ڈونلڈ ٹرمپ واپس آ گئے! مقامی وقت کے مطابق 20 جنوری کو ڈونلڈ ٹرمپ نے امریکہ کے سینتالیسویں صدر کی حیثیت سے حلف اٹھایا اور عہدہ سنبھالنے کے پہلے ہی روز انہوں نے تقریباً 200 ایگزیکٹو آرڈرز پر دستخط کیے جن میں معیشت، امیگریشن، توانائی اور قومی سلامتی جیسے کئی شعبوں کا احاطہ کرتے ہوئے کہا گیا کہ ان حکم ناموں کا مقصد امریکہ کی مکمل تعمیر نو اور اسے دوبارہ عظیم بنانا ہے۔ اگر آپ خود کو دنیا کا لیڈر سمجھتے ہیں تو آپ کو پوری دنیا کی فلاح و بہبود کے لئے سوچنا اور کام کرنا ہوگا۔ تاہم اب ٹرمپ "امریکہ فرسٹ”، اور ” میگا ” کا نعرہ لگاتے ہوئے ، خلیج میکسیکو کو خلیج امریکہ بنانے، گرین لینڈ اور کینیڈا کو امریکہ میں شامل کرنے ، ٹیڑف میں اضافہ اور امریکہ کی جانب سے غیر ممالک کو دی جانے والی امداد ختم کرنے پر غور کر رہے ہیں۔ ان کی حلف برداری کی تقریب میں مدعو کیے گئے یورپی سیاست دان انتہائی دائیں بازو کی جماعتوں کے رہنما ہیں جو مضبوط قوم پرستی اور قدامت پسندی کی وکالت کرتے ہیں ۔یوں دنیا بھر کے لوگ فکر کیے اور سوال کئے بغیر نہیں رہ سکتے کہ محترم ڈونلڈ ٹرمپ، ہمارے بارے میں کیا خیال ہے؟ پائیدار ترقی کے عالمی اہداف کے بارے میں کیا خیال ہے؟ اس دنیا کے بارے میں کیا خیال ہے؟ حقیقت یہ ہے کہ بہت زیادہ پریشان ہونے کی بھی ضرورت نہیں کیوں کہ دنیا کا تعلق صرف ایک امریکہ سے ہی نہیں ہے۔ اگرچہ عالمگیریت کے عمل کو مشکلات کا سامنا ہے تاہم اب یہ وقت کا رحجان ہے کہ سیاست دانوں کے یہ نعرے ترقی اور خوشحالی کے حصول میں دنیا بھر کے ممالک کے لئے مل کر کام کرنے کے خوبصورت وژن اور کوششوں کو روک نہیں سکتے اور دنیا کی دو بڑی معیشتوں یعنی چین اور امریکہ کے درمیان تعاون ،بلاشبہ مندرجہ بالا اہداف کے حصول میں فیصلہ کن کردار ادا کرتا ہے، لہٰذا اگر امریکہ فرسٹ اور میگا کے نعرے بلند تر بھی ہوتے رہے تو بھی یہ حقیقت اپنی جگہ مسلمہ ہے کہ حقیقت پسند ٹرمپ اور ان کی ٹیم نے تعاون کے دروازے مکمل طور پر بند نہیں کیے اور چین اور امریکہ دونوں نے ایک دوسرے کو بروقت کچھ مثبت اشارے دیے ہیں ۔ اس کی ایک مثال یہ ہے کہ عہدہ سنبھالنے سے قبل ٹرمپ نے کہا تھا کہ چین اور امریکہ مل کر دنیا کے تمام مسائل کو حل کر سکتے ہیں جو دراصل چین امریکہ تعاون کی اہمیت کے بارے میں ان کی سنجیدہ تفہیم کو ظاہر کرنے کے لیے کافی ہے۔ اس کے علاوہ انہوں نے عہدہ سنبھالنے کے 100 دن کے دوران چین کا دورہ کرنے کی امید ظاہر کی جس پر چینی وزارت خارجہ نے بھی مثبت ردعمل کا اظہار کرتے ہوئے چین امریکہ تعلقات میں مزید پیش رفت کو فروغ دینے کے لیے امریکہ کے ساتھ مل کر کام کرنے پر آمادگی کا اظہار کیا اور ٹرمپ کی حلف برداری کی تقریب میں چین کے اعلیٰ سطحی وفد کی شرکت نے بھی دوطرفہ تبادلوں اور تعاون کو مضبوط بنانے کے حوالے سے چین کے مثبت رویے کو واضح طور پر ظاہر کیا۔ چین اور امریکہ دنیا کی کل معیشت کا ایک تہائی سے زیادہ حصہ ، دنیا کی کل آبادی کا تقریباً ایک چوتھائی اور دنیا کی دو طرفہ تجارت کے حجم کے تقریباً پانچویں حصے کے مالک ہیں۔ امریکہ کے سابق نائب وزیر خارجہ رابرٹ ہارمیٹس نے حال ہی میں امریکہ چین تعلقات کے حوالے سے چائنا انسٹی ٹیوٹ ان امریکہ کی جانب سے منعقدہ اجلاس میں کہا کہ اگر امریکہ اور چین آب و ہوا، صحت کی دیکھ بھال، تعلیم، تجارت اور سرمایہ کاری کے شعبوں میں تعاون کریں تو دنیا بہتر ہوگی۔ اگر دونوں فریق محاذ آرائی کی طرف بڑھتے ہیں تو دنیا کو شدید نقصانات ہونگے۔ وسیع تر نکتہ نظر سے دیکھا جائے تو چین اور امریکہ کا مل کر چلنا بڑی حد تک دنیا کی سمت کا تعین کرے گا ۔ دونوں ممالک کے مستحکم تعلقات عالمی امن و استحکام کی بنیاد ہیں اور چین امریکہ تعاون موسمیاتی تبدیلی، خوراک کے بحران اور صحت عامہ کے عالمی مسائل سے نمٹنے میں اہم کردار ادا کر سکتا ہے ۔ چین اور امریکہ کے درمیان بات چیت اور تعاون کا مضبوط ہونا بھی تمام فریقوں کے مفاد میں بہترین انتخاب ہے۔ امریکہ چین تعلقات سے متعلق امریکی قومی کمیٹی کے چیئرمین اسٹیفن اولینز نے نشاندہی کی کہ امریکہ اور چین کے تعلقات جتنے زیادہ مشکل ہوں گے، دونوں ممالک کے درمیان تعاون کو فروغ دینے کے لئے اتنی ہی جرات کی ضرورت ہوگی اور ان کے درمیان تعمیری اور نتیجہ خیز تعلقات سے امریکی عوام کو بھی ٹھوس فوائد حاصل ہوں گے۔ ٹرمپ اپنی دوسری صدارتی مدت کا آغاز کر رہے ہیں، دنیا تمام متعلقہ فریقوں سے توقع کرتی ہے کہ وہ "زیرو سم گیم” اور سرد جنگ کی ذہنیت کو ترک کریں، بات چیت اور مواصلات کو مضبوط کریں، اختلافات کو مناسب طریقے سے حل کریں، باہمی فائدہ مند تعاون اور مشترکہ طور پر تعاون کو وسعت دیں، تاکہ دنیا کے اتحاد اور ترقی اور عالمی پیداواری چین اور سپلائی چین کے استحکام اور اصلاح میں حصہ لیا جاسکے۔ لہذا ہم اب بھی ٹرمپ اور ان کی ٹیم سے اپیل کرنا چاہتے ہیں کہ ، صرف "ڈرل بے بی ڈرل” جیسے عارضی مقاصد اور امریکہ کے اندرونی امور کے بارے میں نہ سوچیں بلکہ دنیا کو ایسی بلند نگاہی سے دیکھیں جو دور اندیش ہو اور جو تمام رکاوٹوں کو ختم اور غلط فہمیوں کو دور کرنے کا حل دیکھ سکے۔دنیا کو تعاون کی ضرورت ہے، لیکن ،”ڈرل بے بی ڈرل” کے نعرے سے بڑھ کر .