ہنزہ: بجلی کا بحران اور وفاق کی نااہلی
تحریر: سمیع الرحمان
پچھلے ہفتے وفاقی وزیر ِ داخلہ محسن نقوی نے اسلام آباد میں ایف ایٹ ایکسچینج چوک اور سرینا چوک انٹر چینج منصوبوں کا دورہ کیا اور دعویٰ کیا کہ ایف ایٹ انڈرپاس ملک کی تاریخ میں پہلی بار ریکارڈ 42روز کی مدّت میں مکمل کیا گیاہے ۔ اسی طرح سرینا چوک انٹر چینج بھی حسا س علاقے میں واقع ہونے کے سبب ریکارڈ ڈھائی ماہ مدّت میں پورا کر دیا جائے گا۔
اس نوعیّت کے برق رفتار منصوبے ، جوعموماً ’شہباز سپیڈ‘ کے نام سے جانے جاتے ہیں، یُوں تو قابلِ ستائش اور خوش آئند اقدام ہیں ، لیکن جب ایسی خبریں سوشل میڈیا کی زینت بنتی ہیں اور ملک کے پسماندہ علاقوں کے باسیوں کی نظروں سے گزرتی ہیں تونہ صرف ان کی احساسِ کمتری میں اضافہ ہوتا ہے بلکہ احساسِ محرومی میں بھی ، کہ دارالخلافہ میں ریکارڈ دویا تین مہینوں میں پایہ تکمیل کو پہنچنے والے ایسے منصوبوں پر اُن کے علاقوں میں سالہا سال کام جاری رہتا ہے اور پھر بھی ختم ہونے کا نام نہیں لیتے۔
دسمبر2018 میں ایک مقامی این جی او کی وساطت سے مجھے پہلی بار جی۔ بی (گلگت بلتستان) جانا پڑا۔ پہلا پڑاؤ گلگت میں تھا۔ وہاں یہ دیکھ کر حیرت کی انتہاء نہ رہی کہ مرکزی شہر ہونے کے باوجود 24 گھنٹوں میں بمشکل2 گھنٹے بجلی کی ترسیل ہوتی تھی۔ قیام چونکہ ائیرپورٹ روڈ پر واقع ایک ہوٹل میں تھا، اس لیے چھوٹے بڑے سب ملا کر کوئی آدھا درجن جنریٹر زیکے بعد دیگرے اپنے شور و غل اور کالے دھویں سے ہوٹل کے نہایت پرسکون اور حسین ماحول کا ستیہ ناس کرتے نظر آتے۔
دوسرا پڑاؤ گوجال یا ہنزہ بالا کے چھوٹے سے گاؤ ں پَسّو میں تھا، جو اپنے بلند و بالا مخروطی پہاڑوں(Passu Cones) کے لیے شہرت رکھتا ہے۔ بقول مقامی افراد وہاں سردی میں سِرے سے بجلی ہوتی ہی نہیں ۔ اور دسمبر ، جنوری کی کڑاکے کی سردی کا مقابلہ وہ بخاری (لوہے سے بنا چولہا ، جس میں لکڑی جلاتے ہیں اور جس کا دھواں چمنی کے ذریعے باہر نکلتا ہے) سے کرتے ہیں۔
یاد رہے کہ جی۔ بی کے پہاڑ خشک اور بغیر جنگلات کے ہیں۔ جو تھوڑے بہت سفیدے اور پھلوں کے درخت ہوں بھی، تووہ ان بخاریوں کی نذر ہو جاتے ہیں۔
پَسّو میں دو دن گزارنے کے بعد مجھے اپنے کزن ڈاکٹر ارشد حسین سے ملنے کریم آباد، ہنزہ آنا پڑا۔ کزن موصوف جو قراقرم یونیورسٹی کے ہنزہ کیمپس میں بطور ریاضی پروفیسر فرائض سرانجام دیتےآ رہے ہیں، نے یہ بتا کر دِل کو ڈھارس دی کہ پَسّو کے برعکس ہنزہ میں حالات قدرے بہتر اور حوصلہ افزاء ہیں، یعنی 24 گھنٹوں میں کُل ایک (جی ہاں پورا’ ۱ ‘) گھنٹہ واپڈا ہوتی ہے، باقی اللہ اللہ خیر صلا۔
۲۱ ویں صدّی دیکھیں او ر یہ حالات ؟ آزادی کو بھی تو۷۱ سال ہونے کو تھے، ۷۱ سال (جو اب ۷۷ ہو گئےہیں) کوئی کم عرصہ تو نہیں۔ ایسے میں اگر مقامی لوگ شاہراۂ قراقرم پہ آکر دَھرنا نہ دیں اور انتہاء کی ٹھنڈ میں بھی بچے، بوڑھے، جوان اور خواتین سب احتجاج کے طور پر سڑک بند نہ کریں تو کیا کریں ؟ ان بے چاروں کو اربوں ڈالرکے سی پیک یا کھربوں ڈالرکے وَن بیلٹ ، وَن روڈ سے کیا لینا دینا، جو ان کی بجلی جیسی بنیادی ضرورت کو بھی پورا نہ کر سکے۔
یہ سچ ہے کہ سردیوں میں ندّی ، نالوں میں پانی نہ ہونے کے باعث مِسگر گاؤں میں لگا محض3 میگا واٹ اور خیبر گاؤں میں واقع اس سے بھی کم صلاحیت(900 کلو واٹ) کے ہائیڈرو پاور سٹیشن عملاً بند رہتے ہیں،جو ہنزہ میں سرکاری بجلی کی فراہمی کے دو ذرائع ہیں ۔ لیکن کیا ملک کے دیگر علاقوں میں تنصیب شدہ سفید ہاتھی ،آئی پی پیز ،جو سالانہ کروڑوں ڈالر ہڑپ کرجاتے ہیں، اور ڈکار مارنا بھی گوارا نہیں کرتے، ان پر ملک کے اور باشندوں کا کوئی حق نہیں؟
پچھلے سال آغا خان فاؤنڈیشن نے دیگر بے شمار رفاہی کاموں کی طرح دوئیکرگاؤں (Eagle’s Nest)میں ، جو معروف سیاحتی مقام بھی ہے، پہاڑ کی چوٹی پر ایک میگا واٹ کی شمسی توانائی کے منصوبے کی تنصیب کی ، کہ شاید اس سے مسئلے کا حل نکل آئے، لیکن سردیوں میں دُھوپ نہ ہونے کے باعث یہ منصوبہ بھی ایک طرح سے ناکام رہا۔
یہ تو تھےجاڑے کے حالات ، جس کی بات کچھ نہ کچھ سمجھ میں آجاتی ہے ۔المیہ یہ ہے کہ گرمیوں میں بھی حالات جوں کے توں ہی رہتے ہیں اور بجلی کا یہ دورانیہ کہنے کو تو دُگنا ہو جاتا ہے، یعنی جہاں بجلی کی ترسیل ایک گھنٹہ ہوتی ہےوہاں یہ دو گھنٹے ہو جاتی ہے، اور جہاں دو گھنٹے ہو وہاں تین، چارگھنٹہ ، جہاں بالکل نہ ہو وہاں گھنٹہ ڈیڑھ کے لیے منہ دکھا جاتی ہے،لیکن کیا یہ کافی ہے؟
یہ دیکھ کر ،کہ قدرت نے ہنزہ کو عطا آباد جھیل کی صورت میں ایک قدرتی ڈیم عطا کیا ہے، جس سے14 سال گزرنے کے باوجود وفاقی حکومت کوئی فائدہ نہ اُٹھا سکی ، اور زیادہ دکھ پہنچتا ہے۔پچھلے ۵ سالوں سے یہ افواہ گردش کرتی آرہی ہے کہ عطاآباد جھیل پر ۵۴ میگا واٹ کا ڈیم بن رَہا ہے، اس سال فیزیبلٹی رپورٹ تیار ہوگئی ہے، اس سال کام شروع ہو نے کو ہے، لیکن دَرحقیقت کچھ نہیں ہو رہا اور نہ ہی زمین پر اس کے کوئی آثار دِکھائی دیتے ہیں، وہی سرکاری اور سرخ فیتے کی نااہلی و نکما پن اور تاخیری حربے ، لالی پاپ جوایک طرح سے ہمارا قومی مشغلہ بن گیا ہے۔
جہاں تک ملٹی بلین دیامیر بھاشا ڈیم کا تعلق ہے وہ ایک طویل مدّتی منصوبہ ہے جو2030 سے پہلے کسی طور مکمل ہوتے نظر نہیں آرہا ۔جو بھی نیا وزیر اعظم آتا ہے وہ اس کا نئے سِرے سے افتتاح کرکے اپنی تختی لگا دیتا ہے اور فوٹو شوٹ کرکے ہیلی کاپٹر میں یہ جا وہ جا،لیکن نسبتاً چھوٹے اور کم لاگت کے عملی عطا آباد ڈیم کی تعمیر کا ، جس سے نہ صرف ہنزہ بالا وپایاں، ضلع نگر اور گلگت تک کے باسیوں کے گھروں میں چراغ روشن ہو سکتے ہیں اور ساتھ ہی وسیع پیمانے پر وہاں پائی جانے والے پنجاب مخالف جذبات میں کمی آ سکتی ہے، کوئی ذکر نہیں کرتا۔
اگروفاقی حکومت چاہےتو اسلام آباد کے ایف ایٹ اور سرینا چوک انڈرپاس منصوبوں کی طرح عطا آباد ڈیم کے تین ، ساڑھے تین سالہ منصوبے کو بھی ایک سال کے مختصر عرصے میں پایہ ِ تکمیل کو پہنچا سکتی ہے، جو ملکی تاریخ میں ایک اور ’شہباز سپیڈ‘ ریکارڈ قائم کرلے گا۔ لیکن ، یہ دیکھ کر کہ یہ اسلام آباد یا لاہور نہیں بلکہ گلگت بلتستان ہے، مایوسی اورقنوطیّت کی کیفیّت دل و دماغ پر طاری کر لیتا ہے۔