News Views Events

"جمہوریت اور ہمارا معاشرہ "

0

ظفر عالم چیمہ۔
کل میں اپنے عزیز از جان دوست عبدالخالق لک کے پاس بیٹھا ہوا تھا تو بات معاشروں، انسانوں ان کے اجتماعی معاملات اور سیاست تک جا پہنچی تو انہوں نے اپنے ایک کالم کا حوالہ دیا کیونکہ میں جانتا ہوں،وہ ایک بہت بڑے جمہوریت پسند ہیں تو انہوں نے کہا کہ کچھ لوگوں نے ان کے اس جمہوریت پسندانہ کالمز کو بہت پسند کیا اور ان کی نظر میں جس طرح انفرادی معاملات کی اصلاح کے لیے عقیدہ بہت ضروری ہیں اسی طرح اجتماعی معاملات کے لیے انسانوں نے آج تک جتنے بھی نظام بنائے ہیں ان میں جمہوریت ہی بہترین نظام ہے جیسے انسانوں کی انفرادی اصلاح کے لیے عقیدہ ضروری ہے اتنا ہی اجتماعی معاملات کو چلانے اور ان کی بہتری کے لیے انسانوں نے جو بھی نظام بنائے ہیں جمہوریت سب سے بہترین ہے لیکن بقول اقبال "خوگر حمد سے تھوڑا سا گلا بھی سن لے” اگر ہم اپنے ملک مملکت خداداد یعنی (اللہ دتہ سٹیٹ )کو دیکھیں تو آزادی سے پہلے یہاں پر بہت بڑا جاگیرداری طبقہ تھا یا پھر قبائلی معاشرہ، قبائلی معاشرے کے اندر اجتماعی سوچ بہت کم ہوتی ہیں لوگ انفرادی طور پہ آگے بڑھتے ہیں یا پھر کسی حد تک اپنے چھوٹے سے قبیلے کی مدد کرتے ہیں جاگیرداری معاشرے کے اندر جاگیردار انسانوں کو بھی جاگیر کا حصہ ہی سمجھتا ہے اور ان کے اوپر اپنی گرفت کو مضبوط رکھتا ہے اور سارے وسائل کا ارتکاز اپنی طرف رکھ کر لوگوں کو غلام بنانے کی کوشش کرتا ہے۔بدقسمتی سے ہمیں جو ازادی کے بعد معاشرہ ملا وہ بدترین قبائلی اور جاگیردارانہ نظام کے تسلط میں تھا قبائلی معاشرے میں لوگ اپنی چھوٹی چھوٹی ذات برادریوں اور قبیلے کے لیے لڑتے رہتے ہیں اور جاگیردارانہ معاشرے میں لوگ اپنی جاگیر کو بچانے اور اس کو وسیع کرنے کے لیے ہر وقت کوشاں رہتے ہیں وہ اپنی جاگیر میں رہنے والے عام لوگوں اور ان کے بیوی بچوں کو بھی جاگیر ہی سمجھتے ہیں ان سے بیگار لیتے ہیں اور ان طرح کا ان کا ہر طرح سے ذہنی جسمانی جذباتی معاشی معاشرتی استحصال بھی کرتے ہیں آزادی کے بعد ہمارے ہاں جو جاگیردار طبقہ تھا یہ پہلے بہت بدترین غلامی گزار چکا تھا جو صرف ڈپٹی کمشنر سے ملاقات کے لیے کئی کئی پاپڑ بیلتا ان کی خوشامد کرتا اور ان کی خوشنودی حاصل کرنے کے لیے کسی بھی طرح کے غیر انسانی اور پست رویے کے اظہار کے لیے تیار رہتا ۔قصہ مختصر اسی اثناء میں آزادی کا اعلان ہوا یہی کٹا پھٹا قبائلی اور جاگیردارانہ طبقہ اس پاکستان کے حصے میں آیا اور سونے پہ سہاگہ اسی احساس کمتری اور غلامی میں مبتلا سول ملٹری بیوروکریسی بھی اس مملکت خداداد یعنی( اللہ دیتا سٹیٹ) کو مل گئی ہماری 78 سالہ تاریخ اسی طرح کے گدلے پانیوں میں مچھلیاں پکڑتے ہی گزر گئی، پہلے دس سال وہی پرانے جاگیردار اپنی ریشہ دلگے رہے بالاخر بدترین آمریت ہم پر مسلط ہوئی ہماری مخصوص جغرافیائی حیثیت کی وجہ سے انٹرنیشنل طاقتوں کو مستقبل میں ہماری ضرورت تھی انہوں نے کچھ معاشی اور عسکری امداد سے ہمارے ملک کو مستحکم کیا ،ٹھیک 10 سال بعد بھٹو صاحب نے قوم کو اپنے ووٹ اور تعلیم کے حوالے سے شعور دیا لوگوں کو پاسپورٹ دیے ان کے لیے تعلیم حاصل کرنا آسان کیا لوگ گلف کے ممالک میں آئے ان کی معشیت بہتر ہوئی اور ان کے بچوں کے پڑھنے کی وجہ سے تھوڑی سی معاشرے میں سوچ بچار کرنے کی اہلیت پیدا ہوئی تو ایک نیا طبقہ وجود میں آیا جس نے اپنے حقوق کے لیے بولنااور لکھنا شروع کیا۔لیکن پھر ہمارے مغربی آقاؤں کو ہماری ضرورت پڑ گئی جن کے لیے بھٹو صاحب ناقابل قبول تھے ملک ایک بار پھر بے رحم آمریت کے ہاتھ میں چلا گیا کیونکہ ون ونڈو اپریشن کے لیے ایک آدمی سے ڈیل کرنا آسان ہوتا ہے تو پھر ایک نیا دور شروع ہوا اس میں مذہب کو استعمال کیا گیا اور مغربی طاقتوں نے اپنے مستقل حریف سے جان چھڑائی ،ٹھیک 10 سال بعد پھر جمہوریت کا ڈول ڈالا گیا اس میں لولی لنگڑی پیپلز پارٹی کی گورنمنٹ قائم ہو گئی لیکن اس کے مقابلے میں ایک مضبوط اپوزیشن کو بھی کھڑا کر دیا گیا پھر اگلے 10 سال دونوں پارٹیوں کی باہمی کشمکش میں گزر گئے اس دوران مسلم لیگ نے کچھ انفراسٹرکچر پہ کام کیا پیپلز پارٹی نے آئینی اصلاحات پر توجہ دی ،ٹھیک دس سال بعد ایک دفعہ پھر آمریت نے ملک کو اپنی آغوش میں لے لیا اور ملک کو ایک بار مغرب کی جنگ کے میں دھکیل دیا اسی اثنا میں ایک نیا طبقہ پیدا ہوا ،اچانک سے ابھرا اس کی وجوہات ہو خیر بہت زیادہ ہیں لیکن ایک تو پراپرٹی سیکٹر میں بہت زیادہ انویسٹمنٹ ہوئی اور دوسرا آئی ٹی سیکٹر اور میڈیا، یہ چونکہ بالکل ہی غیر متوقع طور پہ اور اچانک اپنی چرب زبانی، چالاکی اور دھوکہ دہی سے دولت اکٹھے کرنے والا ایک طبقہ پیدا ہو گیا جو آہستہ آہستہ با اثر ہوتا گیا دس سال بعد پھر جمہوریت کا ڈول ڈالا گیا اب کی بار پھر پیپلز پارٹی کو حکومت دی گئی لیکن اسی دوران ہی ایک طاقتور میڈیا وجود پا چکا تھا ،ساٹھ ساتھ وکلا کا ایک طبقہ بھی کھڑا کر دیا گیا کیونکہ پہلے جو طاقت ٹریڈ یونین اور سٹوڈنٹ یونین کے پاس ہوتی تھی وہ ساری کی ساری ایک وکلاء طبقے کے اندر بھر دی گئی اس نے زبردستی اپنے اپ کو منوایا اور پھر اس عدلیہ نے اسٹیبلشمنٹ کے ساتھ مل کر پیپلز پارٹی کی گورنمنٹ کو بے دست و پا کئے رکھا لیکن اسی اثنا میں صوبوں کے حقوق کے لیے اٹھارویں ترمیم ہو چکی تھی اور جو کچھ 73 کے آئین کے ساتھ کیا گیا اس کی کچھ بحالی ہوگی اگلے الیکشن آنے تک سوشل میڈیا کی شکل میں ایک اور پاور فل ہتھیار تیار ہو گیا تھا ،میڈیا اور ریئل اسٹیٹ کے آنے سے جو کم ظرف سطحی بیک گراؤنڈ کے مالک انتہائی کم پڑھے، لکھے انتہائی پسے ،ہوئے شاطر،عیار اور مکار، خوشامدی لوگ اپنی چالاکیوں ہوشیاریوں دھوکہ دہیوں سے امیر ہوئے تھے وہ یک دم سیاست میں آگئے اور آج تک جن کے سامنے نہ کسی طرح کی خدمت کا جذبہ نہ کوئی تعمیر ملت کا کام۔صرف اپنے انفرادی مفاد ، خود پسندی، خود نمائی، لوگوں کے سامنے اپنی پروجیکشن (جو دکھتا ہے وہ بکتا ہے)کے مصداق ان کا کوئی اور مطمع نظر نہیں ہے بد قسمتی سے وہ نئی پارٹی میں بھرتی ہوتے چلے گئے انہوں نے اخلاقیات کا بھی جنازہ نکالا اور عقل فہم اور شعور کے ساتھ وہ بلاد کار کیا کہ اب شرافت منہ چھپاتی پھر رہی ہے کہنے کو تو بہت زیادہ ہے اور کہانی طویل ہو جائے گی، قصہ مختصر کہ اب وہی لوگ سیاست میں بیٹھے ہیں جو حکومت میں بیٹھ کے اپنے مالی مفادات کی حفاظت کر رہے ہیں وہ ریاست کی طاقت کو عام ادمی کے لیے فائدہ پہنچانے کی بجائے اپنے آپ کو مضبوط کرنے پہ لگے ہوئے ہیںاب ہم اتے ہیں اپنے اصلی پوائنٹ کی طرف، جو ہمارے ممدوح جناب عبدالخالق لک صاحب کا مقدمہ ہے کہ جمہوریت بہترین نظام ہے لیکن میرے خیال میں شاید ہماری مملکت خداداد کو اب یہ راس آنے والا نہیں لگتا ،کیونکہ دنیا میں بھی اس نظام کے پر بہت زیادہ سوالیہ نشانات اٹھ چکے ہیں کم وبیش جمہوری مغرب کے ممالک معاشی طور پر بدحالی کا شکار ہے ابھی کل ہی کنیڈا کے وزیراعظم نے استعفیٰ دیا ہے،وہ ممالک بری طرح قرضوں کے بوجھ تلے ڈوبے ہوئے ہیں لیکن ان کے مقابلے میں جہاں پر بادشاہتیں ہیں جیسے عرب ممالک ، تھائی لینڈ۔ یا وی ممالک جن میں ون پارٹی رول ہے جیسے چائنہ اور روس یا پالیسیوں کا تسلسل ہے جس طرح ترکی انڈونیشیا ملائشیا ویت نام وغیرہ۔ وہاں پر معیشت ترقی کر رہی ہے معاشرے پھل پھول رہے ہیں اور لوگ ماضی کی نسبت بہتر حالات میں رہ رہے ہیں جمہوریت کو ایک نظام کی صورت میں چیلنج دے رہے ہیں۔میری نظر میں تو جمہوریت اب ایک اچھا سا کتابی موضوع ہے اس کی ریلیونسی دنیا کی سیاست سے بہت تیزی سے ختم ہو رہی ہے ۔ پاکستان میں تو بالکل مجھے نہیں لگتا کہ کبھی اس سے استفادہ کیا جا سکے، کیونکہ پچھلے 10 سال میں جو تھوڑی بہت سپیس محترمہ بے نظیر بھٹو کی شہادت ، اور میاں صاحب کی جلاوطنی کے دور میں میثاق جمہوریت کی وجہ سے سیاسی قوتوں نے حاصل کی تھی وہ خان صاحب کے دور حکومت میں ختم ہو گئی یا بہت ہی کم رہ گئی ، اب تو بالکل ہی ختم ہو گئی ہے ائندہ جو بھی سسٹم چلے گا اسی طرح ہائبرڈ سسٹم بھی چلے گا جس میں کچھ گروہوں کا تو فائدہ ہو جائے گا عام آدمی مزید پس جائے گا اس کی وجہ سے ملک میں نفرت، مایوسی اور غصہ جنم لے رہا ہے اور نوجوان اس ملک کو خیر باد کہہ کے نکل رہے ہیں خواہ ان کو سمندروں میں ہی کیوں نہ ڈوبنا پڑے ۔اسی طرح جن لوگوں نے پچھلے 20، 25 سال میں تین چار حکومتوں کے دور میں مال بنایا ہے دولت اکٹھی کی ہے وہ بھی اب باہر لے جا کرانویسٹ کر رہے ہیں اگر کم از کم وہی اپنے ملک کے اندر کوئی انڈسٹری لگاتے ، معاشی سرگرمیاں شروع کرتے ہیں تو لوگوں کو روزگار ملتا ان کی مایوسی نفرت اور غصہ کچھ تو کم ہوتا۔ رہی سہی کسر سوشل میڈیا نے نکال دی ہے اس پر وہ جھوٹ اور 2 نمبری کا دور دورہ ہے کہ شرافت اور سچائی منہ چھپاتی پھر رہی ہے ہمارا معاشی اور معاشرتی ڈھانچہ بالکل تباہی کے دہانے پر ہے لیکن جو لوگ اس نظام کو چلا رہے ہیں سول اور ملٹری بیوروکریسی اور سیاست دانوں میں سے وہ انتہائی متکبر، خود غرض، خود پسند اور خود پرست ہیں میری نظر اب اس کو شاید کسی ایک فرد ،ایک پارٹی یا ایک ادارے کو ہی چلانا ہوگا تاکہ اس ملک کی کوئی سمت درست ہو سکے۔جمہوریت اس ملک میں ایک خواب ، کتابی اور تقریری موضوع سے زیادہ کچھ نہیں، کیوں کہ جمہوریت کے لیے جمہوری رویے بھی ضروری ہیں۔بدقسمتی سے ہمارا معاشرہ انفرادی اور اجتماعی طور پر انتہائی خود پسندی خود پرستی ،خود غرضانہ ، آمرانہ اور نرگسیت کا شکار ہے ۔۔غیر جمہوری اقدار روایات اور رویوں کے بغیر کیسے جمہوریت کی توقع کی جا سکتی ہے؟

Leave A Reply

Your email address will not be published.