News Views Events

پِیررومی و مرِید ہندی: تذکرہ ایک کانفرنس کا

0

سمیع الرحمان

عرصہِ دراز کے خود ساختہ بائیکاٹ کے بعد پچھلے ہفتہ یکے بعد دیگرے چند ایک ایسی مجلسوں میں شرکت کا اتفاق ہوا کہ جس پر اگر کچھ لکھا نہ جائے تو سراسر زیادتی ہو گی۔ ۱۹۹۹ میں ایک مقامی تھنک ٹینک میں بحیثتِ ریسرچ انٹرنی شمولیت اختیار کرنے کے بعد کئی ایک سالوں تک قومی، علاقائی، اور عالمی سیمیناروںاور کانفرنسوں سے واسطہ رہا۔بعد میں یہ دلچسپی کچھ ماند سی پڑ گئی اور نوبت بائیکاٹ تک آ گئی کہ ذہنی نشوونما سے زیادہ یہ تقاریب نشستندوگفتند و برخاستند اور وقت کا ضیاع محسوس ہونے لگیں۔
یوں تو جن حالیہ تقریبات میں شرکت کی وہ زیادہ ترسبکِ ہندی کے مشہور شاعربیدل پر تھیں ، لیکن بزمِ ادب اور ادارہ ٔ فروغ قومی زبان، اسلام آباد کے زیر اہتمام ’رومی و اقبال عالمی کانفرنس‘ کئی ایک اعتبار سے ہوا کا ایک تازہ جھونکا محسوس ہوا اور سچ پوچھیں تو اس میں شرکت سے سالہا سال کے بائیکاٹ پر کچھ پچھتاوا سا بھی ہوا ۔ وجہ شاید صفِ اوّل کے(اور صرف نام کے نہیں) محققین کے وہ مسحور کن خطبات تھے جس کا دورانیہ یوں تو دو ڈھائی گھنٹے تھا لیکن جس طرح وجد کا ایک ثانیہ دوام و ابد یت محسوس ہو یہی معاملہ ان دو ڈھائی گھنٹوں کا بھی تھا۔ پھر ، موضوع بھی ایسا کہ حاضرین پر کیف طاری ہونا ہی تھا۔
ذکر ہو ا حقیقی محققین کا۔ اصل محقّق وہ ہو جو کوئی نئی چیز سامنے لائےنہ کہ ہزار بار دُہرائی گئی چیز کا تکرار کرے۔ عبدالرؤف رفیقی، سربراہ اقبال اکیڈمی ،لاہور، نے جہاں ایک طرف آتے ہی حاظرین ِ مجلس کو ’پیر و مرشد کے خماریانِ محفل‘ کےلقب سےپکار کر ماحول کی صد فی صد درست ترجمانی کی وہاں انہوں نے اقبال کے سیاسی ہمزاد، جمال الدین افغانی ،کی قبر کشائی کے سلسلے میں ایک ایسے واقعے کا تذکرہ کیا جس کا علم کم از کم ناچیز کو نہ تھا۔ یعنی یہ کہ وفات کے کوئی ۴۵سال بعد استنبول سے براستہ لاہور جمال الدین افغانی کے تابوت کو کابل پہنچایا گیا اور ۲ دسمبر ۱۹۴۲ کو یہ تابوت پوری رات کے لیے مزارِ اقبال بھی رکھا گیا۔ گویا عاشق و معشوق کی ملاقات حیات میں نہ سہی بعد از مرگ بھی ممکن ہو۔
صرف یہ نہیں بلکہ کابل یونیورسٹی کے جس احاطے میں جمال الدین افغانی کا مزارہے بقول فاضل سکالر عین اس کے سامنے حکومت ِ پاکستان کے تعاون سے بعد ازاں اقبال فیکلٹی قائم کی گئی۔ یوں ان دونوں عظیم مفکرین ِ اسلام کی ارواح نہ صرف لاہور ، بلکہ کابل میں بھی ایک دوسرے سے محوِ کلام رہی ہیںاور یہ کہنے کی ضرورت نہیں کہ اس دوران مسلمانوں کی زبوں حالی اور بے اتفاقی پر جتنے اشک انہوں نے بہائے ہوں گے، اس سے ایک اور بحر الاوقیانوس جنم لے۔
ڈیڑھ دو مہینے پہلے تک سیّد تقی عابدی کے نام سے مَیں قطعاً ناواقف تھا۔ بھلا ہو سوشل میڈیا اور فیس بک صفحہ ’حلقہِ عاشقاںبیدل فارسی اور اردو‘ کا جس کی وساطت سے اس نادر ِروزگار محقق ، ادیب، شاعر، بیدل شناس، اور سب سے بڑھ کرطبّی ڈاکٹر سے تعارف ہوا۔آج کل ڈاکٹر یوں تو پتھر اٹھاؤ ،ایک نکل آتا ہے، لیکن ایسا ڈاکٹر جو جسمانی قلب و کینسر کی تشخیص و علاج کرے اور معاشرتی بھی، بہت کم دیکھنے اور سننے کو ملتے ہیں۔ ڈاکٹر شیر علی ، جو الحمد یونیورسٹی میں شعبہِ لسانیات کے سربراہ ہیں، کا نام بھی میرے لیے کچھ نیا سا تھا، جن کے سر ان ۱۴ گراں قدر خطبات کا سہرا ہے۔
بہرحال ،ڈاکٹر عابدی صاحب کا کما ل یہ ہے، کہ ڈاکٹر ذاکر نائیک اور مولانا طارق جمیل کے برعکس انہوں نے نہ صرف طبی تعلیم اور پریکٹس جاری و ساری رکھّی ہے بلکہ علم و ادب سے بھی اپنا رشتہ بھرپور طریقے سے نبھایاہے ۔ ہندوستان کے حیدرآباد دکن سےتعلق رکھتے ہیںاورعرصہِ دراز سے کینیڈا میں مقیم ہیں۔کوئی ۷۰ کتب کے مصنّف ہونے کے ساتھ ساتھ ، جو بقول ڈاکٹر شیر علی حوالے کا درجہ رکھتے ہیں، بیدل شناسی کے نہایت مشکل و دقیق میدان کے ماہر شہسوار بھی ہیں۔
رومی کے فلسفہِ عشق اور ان کے مریدِ ہندی کا ان سے والہانہ محبت پرڈاکٹر عابدی نے جس جوش و جذبے اور ولولے سے تقریر کی ، اس سے حاضرین پر ایسا سکتہ طاری ہوگیا،گویا ڈاکٹر صاحب ہپناٹزم میں بھی مہارت رکھتے ہوں اور ایک ماہر نفسیات دان بھی ہوں۔ اردو و فارسی کے اساتذہ شعراء کے سینکڑوں اشعار ان کے حافظے میں دوائیوں کے فارمولوں کی طرح محفوظ ہیںاور جیسے ہی شعر و ادب کے مریض دکھائی دیں ، تو فوراً کسی حسبِ حال شعر کا فارمولا داغ دیتے ہیں۔
بقولِ ڈاکٹر صاحب یوں تو اقبال نے تقریباً ۵۳ شعراء کا ذکر اپنے کلام میں کیا ہے لیکن سب سے زیادہ اشعاررومی پر لکھے، سب سے زیادہ تضمین رومی کے اشعار پر کیے۔سب سے زیادہ مضامین رومی کے اشعار سے لیے۔ ایرانیوں نے ۷۰۰ سال بعد کسی کو مولانا کے لقب سے نوازا تو وہ اقبال ہی ہیں۔عشق و جنوں کو تمام علوم و فنون کی اساس گردانتے ہوئے بیدل کے اس خوبصورت مصرعے، ہر چند کہ عقلِ کل شدہ بے جنون مباش(یعنی اگر عقلِ کل بھی بن جاؤ تو بِن جنون کے مت رہو) کا حوالہ دیا۔ اقبال کے ’یقین محکم ، عمل پیہم، محبت فاتحِ عالم۔ جہادِ زندگانی میںہیں یہ مردوں کی شمشیریں ‘ کی توضیح یوں کی کہ علم پر عمل نہیں تو علم بیکار، عمل میں اخلاص نہیں تو عمل بیکار، اور اخلاص میں یقین نہیں تو اخلاص بیکار۔
اقبال ہی کے شعر ’وہی ناںہے اس کے لیے ارجمند۔رہے جس سے دنیا میں گردن بلند‘ سے بحث کرتے ہوئے یہ برموقع سوال اٹھایا کہ کیا آج دنیا میں ہماری گردن بلند ہے؟ ہم لوگ بڑے ناز و فخر سے دعویٰ کرتے ہیں کہ ۵۷ اسلامی مما لک ہیں ، لیکن درحقیقت ۵۷ ٹکڑوں میں بٹے ہوئے ہیں، جس کا بھرپور فائدہ اغیار اٹھا رہے ہیں اور کسی کی جرات نہیںکہ ظلم و ستم کے خلاف نعرہِ حق بلند کر سکے۔اقبال کے ان فکر انگیز اشعار پہ اپنی تقریر کا انہوں نے اختتام کیا۔
وصل کے اسباب ہوں پیدا تری تحریر سے
دیکھ کوئی دل نہ دکھ جائے تری تقریر سے
پاک رکھ اپنی زبان تلمیذ رحمانی ہے تو
ہو نہ جائے دیکھنا تیری صدا بے آبرو
ڈاکٹر حمیرا اشفاق نے مزارِ رومی پر اپنی حاضری کا قصّہ سنایا کہ کس طرح ’بابِ گستاخاں ‘ سے گزر کر وہ ایک وجدانی کیفیت اور وارداتِ قلبی سے دوچار ہوئیں اور جوش و جذب کے ان لمحات جو بے پناہ اندرونی سکون اور اطمینان انہیں حاصل ہوا وہ ایک ناقابل بیان روحانی تجربہ تھا۔اس سوال کہ دکھ انسان کو کیوں ملے، کا نفسیاتی تجزیہ کرتے ہوئے ان کا کہنا تھا کہ مولانا روم کے نزدیک یہ حقیقتِ مطلقہ سے قربت کا ذریعہ ہے ۔اور جو اس دکھ کا مداوا کرے وہ دوست نہیں ، دشمن ہے، کہ یوں وہ راہِ طلب میںرکاوٹ بن کر سامنے آئے۔
ترکی میں پاکستان کے سفیر اور پاکستان میں ترکی کے سفیر کی شہرت رکھنے والے ڈاکٹر خلیل طوقار ،جو رومی اور اقبال پر نامور سکالر اور اردو و ترکی میں درجنوں کتابوں کے مصنف ہیں،نے اپنے خطاب کی تلخیص کی تلخیص کی تلخیص کرتے ہوئے محض چند جملے ادا کیے کہ وقت کی کمی آڑے رہی تھی۔ جس روانی سے بہرحال وہ اردو میں بات کر رہے تھے وہ کافی حیران کن تھا ۔فارسی کے ایک محاورے(آب آمد و تیمم باطل است) کا اس موقع پر انہوں نے بھرپور استفادہ کیا کہ پانی کی موجودگی میں تیمّم فاسد ہو۔ اشارہ اساتذہ کی موجودگی کی طرف تھا۔
ڈاکٹر راشد حمید، ایگزیکٹو ڈائریکٹر،ادارۂ فروغ قومی زبان اور جسٹس جاوید اقبال کے ’زندہ رُود ‘پر تحقیقی مقالے کےلکھاری نے جہاں یہ انکشاف کیا کہ برصغیر پاک و ہند کو یہ شرف حاصل ہے کہ مولانا رومی کی پہلی شرح ان کے مقلّد احمد رومی نے اٹھارویں صدی میں اودھ میں لکھی، وہاں اقبال کے یہ خوبصورت اشعار بھی پڑھے۔
ہم خوگر ِ محسوس ہیں ساحل کے خریدار
ایک بحر پُر آشوب و پُر اسرار ہے رومی
تُو بھی ہے اس قافلہِ شوق میں اقبال
جس قافلہِ شوق کا سالار ہے رومی
تقریب کے صدر ، ممتاز شاعر، محقق،ا ور اقبال شناس پروفیسر جلیل عالی نے فلسفہ اور اعلیٰ شاعری کے موازنے سے اپنی بات شروع کی کہ فلسفہ عارضی ہو اور شاعری ابدی۔فلسفے پر صوفیانہ شاعری کی دوسری فوقیت یہ کہ جو بات فلسفہ میں بیان نہ ہو سکے، شاعری میں استعارات، علامات، اور تشبیہات وغیرہ کے ذریعے ممکن ہو۔تیسرا فرق کہ فلسفہ محض عقل کو جلا بخشے اور شاعری پورے وجود کو ہلا کے رکھ دے۔اس اعتراض کے جواب میں کہ اقبال صنفِ ڈرامہ کے خلاف تھے ، انہوں نے شکوہ جواب شکوہ، جاوید نامہ، خضرِ راہ، اور ابلیس کی مجلس شوریٰ وغیرہ کا ذکر کیا جو تمام کے تمام مکالمے یا ڈرامے کی صورت میں ہیں۔ اسلامی تہذیب کے خدو خال اور اس کی مخصوص ترکیب و تاریخ پر بھی انہوں نے نہایت عمدگی سے روشنی ڈالی۔
شاید سب سے مسحور کن اور سنسی خیز تقریر، جس نے بذاتِ خود مجھے متاثر کیا، وہ پروفیسر سلیم مظہر کی تھی۔پروفیسر صاحب پنجاب یونیورسٹی کے وائس چانسلر رہے ہیں اور فی الوقت ادارۂ فروغ قومی زبان کے ڈائریکٹر جنرل ہیں۔ عاجزی و منکسر المزاجی ان میں کوٹ کوٹ کر بھری ہے،جو اسلام آباد کے عام بیوروکریٹس میں ڈھونڈنے سے بھی نہیں ملتی۔ ساتھ ہی ساتھ اعلیٰ پائے کے فارسی دان ، محقق ، منتظم اور رومی و اقبال شنا س بھی ہیں ۔فارسی ادب کی بات ہو لیکن خطاب کی باری سب سے آخر میں ہو اس سے انہوں نے اپنی بے تابی کی تشبیہ ان ایرانی قیدیوں سے دی جن کے سامنے نانِ سنگک (ایرانیوں کا مرغوب نان) کھا یا جائے،اوروہ صرف ان کوترستی آنکھوں سے دیکھتے رہیں۔
پروفیسر موصوف نے کلامِ مولانا روم کو الہام قرار دیا ، جن کا دیوانِ شمس تبریز ہو، ملفوظاتِ رومی یا فیہ ما فیہ ہو، مثنوی معنوی ہو یا مکتوبات ، جو کوئی ان کا مطالعہ کرے، اس کی طلسمِ حیرت میں مبتلا ہو، اور اس کے چودہ طبق روشن ہوں۔’من مست و تو دیوانہ‘ غزل کا فی البدیہہ ترجمہ کیا (یعنی میں مست ہوں اور تو دیوانہ ، ہمیں گھر کون لے جائے؟ میں نے کتنی بار تجھے سمجھایا ہے، دو تین ساغر کم پیا کر، سب بِن گزر جائے، تیرےبِن نہیں، تیری محبت کا زخم میرے دل پہ ہے، کسی اور جگہ یہ سمائےہی نہیں ) ۔ساتھ یہ اضافہ بھی کیا کہ اس سے آسان شاعری کا متن ہو نہیں سکتا بلکہ ہو بھی تو سہلِ ممنوع کے زمرے میںآئے۔
ایک اور شاہکار غزل ’اے محبوب، اپنا چہرہ دکھا کہ مجھے باغ اور گلستان دیکھناہے، تو اپنے لب کھول کہ مجھے بے انتہا مٹھاس کی ضرورت ہے‘ کی طرف بھی اشارہ کیا۔اور ساتھ ہی یہ مردہ پرستی کہ،’مِرے محبوب، تو کل مِرے قبر پہ آ کے جو بوسے دے گا، تو آ کے مِرا منہ اب چوم لے، ہم آج وہی ہیں جو کل قبر میں ہوں گے‘۔پاکستان کو اور کچھ نہیں تو کم از کم یہ اعزاز حاصل ہے کہ مولانا کا پوری دنیا میں سب سے بڑا مقلد اس کا قومی شاعر اقبال ہے، جنہوں نے اپنے پیر کی تقلید میں ناقابل یقین اور حیران کن اشعار کہے اور جن کے تغزل پہ بندہ دنگ رہ جائے۔
خود مولانا روم ، بقول پروفیسر مظہر، فنا فی الشیخ تھے، جو فنا فی الحق کا پہلا مرحلہ ہے،یہ بات بڑی عجیب سی ہے کہ دیوان کے ۴۶ ہزار اشعار اور مثنوی کی قریباً۲۶ ہزار بیتوں میں اپنا نام یا تخلص تک نہیں لکھا، بلکہ ان کا دیوان ،دیوان شمس تبریز یا دیوانِ کبیر کے نام سے جانا جائے اور اکثر لوگوں کو غلط فہمی ہو کہ مولانا کے مرشد شمس تبریز کی تصنیف ہے۔
جہاں تک افغانستان کا تعلق ہے تو مولانا کی ولادت بلخ میں ہوئی تھی اور خود اقبال کی غزلیں مہدی حسن سمیت دیگر گلوکاروں نے افغانستان میں گائی ہیں۔
مثنوی کے ان پُر اثر اشعار سے کہ’محبت سے کانٹے پھول بن جائیں، محبت سے سرکہ شراب بن جائے، محبت سے بد بختی خوش نصیبی بن جائے، محبت سے تختہِ دار تختِ شاہی بن جائے‘پروفیسر مظہر نے اپنا نہایت جذباتی خطاب ختم کیا، اور ساتھ ہی اقدس ہاشمی اور فاروق عادل کا شکریہ ادا کیا جنہوں نے نہایت پر سوز آواز میں کلامِ رومی گایا ۔
رومی کے ۷۵۰ ویں یومِ وفات کی مناسبت سے شاید اس سے بہتر تقریب کا انعقاد ممکن نہیں تھا۔

Leave A Reply

Your email address will not be published.