روایتی نرسنگ ہومز کو ایک نئی جدت دینے والا باہمت چینی نوجوان
اعتصام الحق ثاقب
بزرگوں کی جذباتی اور روحانی ضروریات کو پورا کر کے نرسنگ ہومز کا یہ نوجوان ڈائریکٹر
اپنے نرسنگ ہومز کو بزرگوں کے رہنے کے لیے ایک خوشگوار مقام اور جدید اور انقلابی مثال بنانا چاہتا ہے ۔فین جنلن ، جو وسطی چین کے صوبے ہینان کے شوچانگ شہر میں پانچ نرسنگ ہومز چلاتے ہیں ، چین میں نرسنگ ہومز کے سب سے کم عمر سی ای او ہیں ۔
یونیورسٹی میں براڈکاسٹنگ اور ہوسٹنگ پڑھنے والے فین کہتے ہیں کہ ان کے مضامین کا بزرگوں کی دیکھ بھال سے کوئی تعلق نہیں ، لیکن ان کی دادی کو پیش آنے والے حادثے نے انہیں بزرگوں کی مشکلات سے آگاہ کیا اور یوں ان کا کیریئر بدل گیا ۔
فین کہتے ہیں کہ جب وہ یونیورسٹی میں پڑھ رہے تھے تب ان کی دادی گھر پر گر گئیں اور ہسپتال میں ان کے بستر کے قریب بیٹھے انہوں نے سوچا کہ کیا انہیں مستقبل میں کوئی ایسی نوکری مل سکتی ہے جس میں وہ ہر وقت اپنی دادی کے پاس رہ سکیں ؟یوں یہ خیال بزرگوں کی دیکھ بھال کرنے میں فین کی پسند بنا۔
فین نے یونیورسٹی میں پڑھنے کے دوران اپنی چھٹیوں میں اپنے والد کے نرسنگ ہوم میں انٹرنشپ کی ۔ بزرگوں کے قریب رہ کر اور ان کا مشاہدہ کر کے ان کی غیر دلچسپ زندگی نے فین کو روایتی نرسنگ ہومز کے کاروباری ماڈل کو جدید بنانے کا خیال دیا ۔فین نے محسوس کیا کہ جب بزرگ ایک ساتھ ٹی وی دیکھتے ہیں تو ان میں سے کچھ اپنی آنکھیں بھی نہیں جھپکاتے ۔ گویا ان کا ذہن جیسے خالی سا ہو ۔انہیں لگتا ہے کہ یہ بزرگ صرف دوسروں کے ساتھ رہنے کے لیے ٹی وی دیکھنے بیٹھے ہیں ۔ کچھ بستر پر پڑے بزرگ اپنا زیادہ تر وقت چھت کو دیکھتے ہوئے گزارتے ہیں ۔فین ان کے طرز زندگی کو بدلنا چاہتے تھے ۔
شروع شروع میں فین کے والد اپنے بیٹے کے ان انقلابی خیالات کے حق میں نہیں تھے ۔ خود ایک نرسنگ ہوم کے ڈائریکٹر کے طور پر وہ سمجھتے تھے کہ فین اس شعبے سے اچھی طرح واقف نہیں اس لئے انہیں اپنے خیالات میں آگے نہیں بڑھنا چاہئیے ۔لیکن والد نے جلد ہی محسوس کیا کہ فین بزرگوں کی بنیادی ضروریات سے بالاتر سوچ کے ساتھ نرسنگ ہوم کو ایک ایسی جگہ بنانا چاہتا ہے جو بزرگوں کی جذباتی اور روحانی زندگی کی ضروریات کو پورا کر سکے ۔وہ ضروریات جنہیں اس شعبے میں اکثر نظر انداز کیا جاتا ہے ۔
فین کے والد کہتے ہیں کہ انہیں بعد میں اندازہ ہوا کہ فین کا خیال بزرگوں کو تفریح فراہم کرنا ہے کیوں کہ انہیں صرف کھانے اور لباس کی ہی ضرورت نہیں ہوتی ۔ ان میں سے کچھ تنہائی محسوس کرتے ہیں اور انہیں خوش رکھنے کے لیے ایک ساتھی کی ضرورت ہوتی ہے۔فین کے والد سمجھتے ہیں کہ ان کا بیٹا درحقیقت اس شعبے اور لوگوں کی ذہنیت کو تبدیل کر رہا ہے ۔
اس نوجوان نے یونیورسٹی میں جو کچھ سیکھا اس سے فائدہ اٹھاتے ہوئے بزرگوں کو مختصر ویڈیوز بنانے میں حصہ لینے کی ترغیب دی جسے انٹرنیٹ صارفین کی طرف سے بھر پور پسندیدگی حاصل ہوئی ۔فین کہتے ہیں کہ انہیں آغاز میں ویڈیو کے پسند کئے جانے کی توقع نہیں تھی لیکن بہت سے کمنٹس سے حوصلہ افزائی ہوئی اور پھر انہوں نے دوسری قسط کی شوٹنگ کا فیصلہ کیا ۔ اپنے کاروبار کو "ہیپی ایلڈر کیئر ماڈل” کا نام دیتے ہوئے ، فین کو امید ہے کہ بزنس موڈ کو ، جو سوشل میڈیا کے ملٹی چینل نیٹ ورک (ایم سی این) ماڈل کو مربوط کرتا ہے ، بڑے پیمانے پر فروغ دیا جا سکتا ہے اور بزرگوں کے نرسنگ ہوم میں رہنے کی لاگت کو کم کرنے میں مدد مل سکتی ہے ۔فین کو امید ہے کہ بزرگوں کے ساتھ مختصر ویڈیوز بنا کر وہ نرسنگ ہومز کے اخراجات کے لئے کچھ آمدنی حاصل کر سکیں گے اور شاید یہ اتنی ہو کہ ان بزرگوں کے یہاں رہنے کے مکمل اخراجات پورے ہو جائیں ۔ فین کہتے ہیں کہ درحقیقت ان کا ماڈل بزرگوں کی دیکھ بھال کو سوشل میڈیا کے ایم سی این ماڈل کے ساتھ جوڑتا ہے ۔ مستقبل میں ، وہ اپنے اس منفرد نگہداشت کے ماڈل کو فروغ دینا چاہتے ہیں جو بزرگوں کی روحانی ضروریات اور ان کی خوشی پر زیادہ زور دیتا ہے