جنوبی کوریا: مواخذے کی تحریک کامیاب، صدر یون معطل
جنوبی کوریا میں مارشل لا لگانے والے صدر کے خلاف پارلیمنٹ میں پیش کی گئی مواخذے کی تحریک کامیاب ہو گئی ہے۔
غیر ملکی میڈیا کے مطابق جنوبی کوریا کے اسمبلی نے ہفتہ کو صدر یون سک یول کی طرف سے مارشل لا نافذ کرنے پر مواخذے کی تحریک پر ووٹنگ کی۔
صدر یون کو عہدے سے ہٹانے کے لیے حزب اختلاف کو 300 میں 200 ووٹوں کی ضرورت تھی، جبکہ مواخذے کے حق میں 204 ووٹ ڈالے گئے۔ 85 نے مخالفت میں ووٹ دیا۔ تین غیر حاضر رہے، آٹھ ووٹ کالعدم قرار پائے۔
جنوبی کوریا میں مارشل لاء لگانے والے صدر یون سک یول کے خلاف مواخذے کی دوسری تحریک پر ووٹنگ کا کامیاب ہوگئی ہے۔
غیر ملکی میڈیا کی رپورٹس کے مطابق مواخذے کی دوسری تحریک کامیاب ہونے کے بعد صدر کو ان کے فرائض سے معطل کر دیا گیا ہے۔
میڈیا کی رپورٹس کے مطابق اب عدالت فیصلہ کرے گی کہ صدر کو عہدے سے ہٹایا جائے۔
میڈیا کی رپورٹس کے مطابق 300 اراکین میں سے 204 ارکان نے مواخذے کے لیے ووٹ دیے۔
میڈیا کی رپورٹس کے مطابق جنوبی کوریا کی حکمران جماعت کے پارلیمنٹیرینز نے صدر کے خلاف مواخذے پر ووٹ دینے کے لیے اتفاق کیا۔
مواخذے کی تحریک کا سامنا کرنے والے جنوبی کوریا کے صدر یون سک یول کے خلاف تقریباً 2 لاکھ سے زائد مظاہرین دارالحکومت سیؤل میں پارلیمنٹ بلڈنگ کے باہر مظاہرے میں شریک ہیں جو صدر سے استعفیٰ دینے کا مطالبہ کر رہے ہیں۔
میڈیا رپورٹس کے مطابق مارشل لاء لگانے پر صدر کے خلاف مواخذے کی دوسری تحریک پر اب سے کچھ دیر بعد ووٹنگ ہوگی، حکمراں پارٹی کے پارلیمنٹیرینز نے صدر کے خلاف ووٹ دینے کی حمایت کا اظہار کیا ہے۔
میڈیا رپورٹس کے مطابق اپوزیشن کو 300 رکنی پارلیمنٹ میں دو تہائی اکثریت کے لیے کم ازکم 8 حکومتی ووٹ درکار ہیں جبکہ حکمراں جماعت کے اب تک 7 ارکان مواخذے کی حمایت کر چکے ہیں۔
واضح رہے کہ صدر یون کے خلاف مواخذے کی پہلی تحریک گزشتہ ہفتے کو ناکام ہو گئی تھی۔
خیال رہے کہ عدالت کو 180 دن میں صدر کے مستقبل کے حوالے سے فیصلہ کرنا ہو گا۔
اگر صدر یون سک یول برطرف ہوتے ہیں تو یہ جنوبی کوریا کے دوسرے صدر ہوں گے جو مواخذے کا نشانہ بنے، اس سے قبل 2004ء میں صدر روہ مو ہیون کو پارلیمنٹ نے ہٹا دیا تھا۔
قابلِ ذکر بات یہ ہے کہ صدر روہ مو ہیون کے خلاف مواخذے کے ووٹ کو عدالت نے روک دیا تھا اور ان کی برطرفی کی حمایت نہیں کی تھی۔
جنوبی کوریا کی عدالت میں اس وقت صرف 6 جج ہیں جس کا مطلب ہے کہ ان کا فیصلہ متفقہ ہونا چاہیے۔