بشار الاسد نے بھائی کو بھی فرار کا نہیں بتایا، دو کزنوں کو المناک انجام پر چھوڑ دیا
دمشق:ہر گزارتے دن کے ساتھ شام کے معزول صدر بشار الاسد کے بارے میں مزید راز افشا ہو رہے ۔ اب مزید تفصیل سامنے آئی ہے کہ وہ شام سے روس لے جانے والے طیارے میں کیسے فرار ہوئے تھے۔ معلوم ہوا ہے کہ بشار نے اپنے چھوٹے بھائی ماھر الاسد کو بھی اپنے ایگزٹ پلان سے آگاہ نہیں کیا تھا۔
عرب میڈیا العریبیہ کے مطابق بشار الاسد نے شام سے فرار ہونے کے اپنے منصوبے کے بارے میں تقریباً کسی کو نہیں بتایا تھا بلکہ ان کے قریبی لوگوں، ان کے رشتہ داروں حتیٰ کہ ان کے معاونین اور سرکاری اہلکاروں کو بھی دھوکہ دیا گیا تھا۔ 10 سے زیادہ لوگوں نے ایکس پر ان باتوں کا اظہار کیا ہے۔
تین معاونین نے بتایا کہ بشار الاسد نے اپنے چھوٹے بھائی ماھر الاسد جو بکتر بند گاڑیوں کی ڈویژن کے کمانڈر تھے کو بھی اپنے نکلنے کے منصوبے سے آگاہ نہیں کیا تھا۔ ان میں سے ایک نے بتایا کہ ماھر ہیلی کاپٹر کے ذریعے عراق اور پھر روس چلا گیا۔
اسی طرح شامی معاون اور ایک لبنانی سکیورٹی اہلکار نے بتایا کہ جب دمشق اپوزیشن فورسز کے قبضے میں آگیا تو بشار الاسد نے اپنے کزن ایہاب اور ایاد مخلوف کو اپنے ساتھ لے جانا مناسب نہیں سمجھا اور انہیں پیچھے چھوڑ دیا۔
دو کزن حملے کی زد میں
سکیورٹی عہدیدار نے مزید کہا کہ دونوں نے کار کے ذریعے لبنان کی طرف بھاگنے کی کوشش کی لیکن مخالف جنگجوؤں نے ان پر سڑک پر گھات لگا کر حملہ کردیا۔ جنگجوؤں نے ایہاب کو گولی مار کر ہلاک اور عیاد کو زخمی کر دیا۔ خبر ایجنسی رائٹرز اس واقعہ کی آزادانہ طور پر تحقیق نہیں کر سکی۔
ذرائع کے مطابق بشار الاسد نے ماسکو فرار ہونے سے چند گھنٹے قبل وزارت دفاع میں 30 کے قریب فوج اور سکیورٹی رہنماؤں کے ساتھ ہفتے کے روز ایک میٹنگ میں تصدیق کی کہ روسی فوجی مدد راستے میں آ رہی ہے۔ میٹنگ میں شریک ایک کمانڈر نے نام ظاہر نہ کرنے کی درخواست پر بتایا کہ بشار الاسد نے اجلاس میں زمینی افواج پر کارروائی کرنے کا زور دیا۔
سرکاری ملازمین کو بھی کچھ معلوم نہیں تھا۔ بشار الاسد نے اپنے آفس مینیجر کو بتایا کہ وہ گھر جا رہے ہیں۔ بشار کے قریبی حلقے کے ایک معاون نے بتایا کہ بشار الاسد نے ہفتے کے روز اپنے آفس مینیجر کو بتایا کہ وہ کام ختم کر کے گھر واپس آ جائیں گے لیکن اس کے بجائے وہ ہوائی اڈے کی طرف روانہ ہو گئے۔
اسسٹنٹ نے مزید کہا کہ بشار الاسد نے اپنے میڈیا ایڈوائزر بوتھینا شعبان کو بھی فون کیا اور ان سے کہا کہ وہ ان کے لیے تقریر لکھنے کے لیے ان کے گھر آئیں۔ جب وہ پہنچا تو وہاں کوئی نہیں تھا۔
ایک علاقائی تھنک ٹینک عرب ریفارم انیشی ایٹو کے ایگزیکٹو ڈائریکٹر ندیم نے کہا کہ بشار الاسد نے اپنی افواج کو متحرک نہیں کیا۔ بشار کے آخری ایام اور اقتدار کے اوقات سے واقف 14 لوگوں کے انٹرویوز ایک ایسے رہنما کی تصویر کشی کر رہے ہیں جو اپنے 24 سالہ اقتدار کو بڑھانے کے لیے باہر سے مدد کی تلاش میں تھے اور پھر انہوں نے دھوکہ دہی اور رازداری سے نکلنے کا آپشن اختیار کرلیا۔
بشار الاسد بذریعہ ہوائی جہاز شام کے ساحل پر واقع شہر اللاذقیہ میں روسی حمیمیم فضائی اڈے پر گئے اور وہاں سے ماسکو گئے۔ تین قریبی ساتھیوں اور ایک سینئر علاقائی اہلکار کے مطابق بشار کے خاندان کے ارکان، ان کی اہلیہ اسماء اور ان کے تین بچے روس کے دارالحکومت میں پہلے سے ہی ان کا انتظار کر رہے تھے۔ بشار کے گھر کے ویڈیو کلپس اس بات کی نشاندہی کرتے ہیں کہ وہ جلد بازی میں چلے گئے کیونکہ وہ چولہے پر پکا ہوا کھانا اور بہت سے ذاتی سامان اپنے پیچھے چھوڑ گئے۔
روس اور ایران
اس مرتبہ روس سے بشار الاسد کو ایسی فوجی مدد نہیں ملی جیسے 2015 میں روس نے مداخلت کرکے خانہ جنگی کا رخ اسد کے حق میں کردیا تھا۔ اسی طرح دوسرے اتحادی ایران سے بھی پہلے کی طرح مدد نہ مل سکی۔ لوگوں نے کہا کہ شام کے سابق صدر پر یہ بات ان کے فرار سے پہلے کے دنوں میں واضح ہو گئی تھی جب انھوں نے اقتدار سے چمٹے رہنے اور اپنی حفاظت کو محفوظ بنانے کے لیے مایوس کن دوڑ میں مختلف فریقوں سے مدد مانگی تھی۔
تین علاقائی سفارت کاروں نے بتایا کہ بشار نے 28 نومبر کو ماسکو کا دورہ کیا تھا لیکن کریملن سے فوجی مداخلت کی ان کی بشار الاسد کی اپیل اسے متاثر نہ کرسکی۔ روس مداخلت کرنے کو تیار نہیں تھا۔ بیرون ملک حزب اختلاف کے شامی قومی اتحاد کے سربراہ ہادی البحرہ نے بشار کے اندرونی حلقے کے ایک ذریعے اور ایک علاقائی عہدیدار کا حوالہ دیتے ہوئے کہا کہ بشار نے اپنے معاونین تک کو صورتحال کی حقیقت نہیں بتائی تھی۔
البحرہ نے مزید کہا کہ بشار نے ماسکو کے دورے کے بعد اپنے کمانڈروں اور معاونین کو مطلع کیا کہ فوجی مدد آ رہی ہے۔ حالانکہ وہ ان سے جھوٹ بول رہا تھا کیونکہ ماسکو سے جو پیغام ملا وہ منفی تھا۔ کریملن کے ترجمان دمتری پیسکوف نے بدھ کو صحافیوں کو بتایا کہ روس نے ماضی میں شام میں استحکام کے لیے بہت کوششیں کی ہیں لیکن اب اس کی ترجیح یوکرین کا تنازع ہے۔