News Views Events

50 سال تک شام پر حکومت کرنے والے الاسد خاندان کے عروج و زوال پر ایک نظر

0

 

شام پر 50 سال  سے زیادہ عرصے تک حکومت کرنے والے الاسد خاندان کے اقتدار کا سورج بالآخر غروب ہوگیا، اور باغیوں نے فتح کا اعلان کردیا ہے۔

میڈیا رپورٹس کے مطابق شامی باغیوں نے مختلف شہروں پر قبضہ جمانے کے بعد دارالحکومت دمشق کا کنٹرول بھی سنبھال لیا، جبکہ بشارالاسد ملک سے فرار ہوگئے ہیں۔

بشارالاسد کے ملک سے فرار ہونے کے بعد باغی گروپ تحریر الشام ملیشیا کے سربراہ ابو محمد الجولانی نے کہا ہے کہ پُرامن انتقال اقتدار تک سابق وزیراعظم محمد غازی الجلالی کے پاس تمام ریاستوں کے امور چلانے کا اختیار ہوگا۔

اب نظر ڈالتے ہیں الاسد خاندان کے 5 دہائیوں پر مشتمل دور حکومت کی، اس دوران کیا کچھ ہوا؟

الاسد خاندان کے اقتدار کی کہانی 1970 سے شروع ہوتی ہے جب حافظ الاسد اس وقت شامی حکومت میں وزیر دفاع تھے اور انہوں نے ایک تحریک کی قیادت کرتے ہوئے 16 نومبر 1970 کو فوجی بغاوت کی۔

بعد ازاں 1970 میں وہ بعث پارٹی کے امیدوار کے طور پر شام کے صدر منتخب ہوگئے، ان کے مقابلے میں کوئی امیدوار سامنے نہیں آیا تھا۔

1973 میں اسرائیل سے جنگ
شام اور مصر نے 1967 کی 6 روزہ جنگ میں اسرائیلی قبضے میں جانے والی زمین واپس حاصل کرنے کے لیے 1973 میں اسرائیل پر اچانک حملہ کیا۔ تاہم اس میں دونوں ممالک کو شکست کا سامنا کرنا پڑا، اور یوں شام کو گولان کی پہاڑیاں بھی اسرائیل کو دینا پڑیں۔

1982 جب حماہ میں قتل عام ہوا
اخوان المسلمین کی تحریک کے خلاف حافظ الاسد حکومت نے 1982 میں خونی آپریشن کیا، جس میں ایک اندازے کے مطابق 10 سے 40 ہزار افراد لقمہ اجل بن گئے۔

حافظ الاسد کے بیٹے باسل الاسد کا انتقال
باسل الاسد کو ممکنہ طور پر حافظ الاسد کا جانشین سمجھا جارہا تھا، لیکن وہ 1994 میں ایک ٹریفک حادثے میں جان کی بازی ہار گئے۔

 

حافظ الاسد نے بیٹے کی ٹریفک حادثے میں موت کے بعد چھوٹے بیٹے بشارالاسد کو قیادت کے لیے تیار کرنا شروع کردیا، حالانکہ وہ اس وقت امراض چشم کے طور پر تربیت حاصل کررہے تھے۔

حافظ الاسد کے انتقال کے بعد کیا ہوا؟
حافظ الاسد تقریباً 30 برس تک اقتدار میں رہے، اور پھر 10 جون 2000 کو ان کا انتقال ہوا۔

حافظ الاسد کے انتقال کے وقت ان کے بیٹے بشارالاسد کی عمر 34 برس تھی، انہیں صدر بنانے کے لیے آئین میں ترمیم کرکے صدر کے لیے کم از کم عمر کی حد کو کم کیا گیا، اور وہ صدر منتخب ہوگئے، ان کے مقابلے میں بھی کوئی امیدوار سامنے نہ آیا۔

سنہ 2000 سے 2011 تک کیا ہوا؟
شام کے 100 دانشوروں نے سنہ 2000 میں مطالبہ کیاکہ ملک سے مارشل لا ختم کرکے سیاسی آزادیاں یقینی بنائی جائے۔

اس مطالبے کے بعد بشارالاسد نے کچھ اصلاحات متعارف کراتے ہوئے سیاسی پابندیوں کو نرم کیا، لیکن یہ سلسلہ زیادہ دیر نہ چل سکا، اور حکومت نے ایک بار پھر آمرانہ روش اپناتے ہوئے مخالفین کے گرد گھیرا تنگ کردیا۔

بشارالاسد کی پالیسیوں کے باعث کرپشن، معاشی عدم مساوات اور سیاسی مخالفین کو دبانے کا سلسلہ برقرار رہا جس کی وجہ سے ملک حالات دن بدن خراب ہوتے رہے۔

2011 میں شام میں خانہ جنگی کا آغاز
ملک میں سیاسی آزادیاں نہ ہونے کے باعث عوام نے احتجاجی مظاہرے شروع کردیے اور سیاسی آزادی سمیت کرپشن کے خاتمے کا بھی مطالبہ کیا۔ تاہم بشارالاسد نے لوگوں کی بات پر دھیان دینے کے بجائے پرتشدد کریک ڈاؤن شروع کردیا، اور یہاں سے شام میں خانہ جنگی شروع ہوگئی۔

خانہ جنگی نے جب طول پکڑا تو امریکا، روس اور دیگر طاقتیں بھی ملوث ہوگئیں، اس خانہ جنگی کے نتیجہ میں ایک اندازے کے مطابق 3 لاکھ 88 ہزار سے زیادہ لوگ موت کے منہ میں چلے گئے، جبکہ ایک کروڑ سے زیادہ بے گھر ہوئے۔

بشارالاسد حکومت پر کیمیائی ہتھیار استعمال کرنے کا الزام
2013 میں بشارالاسد کی حکومت پر الزام عائد کیا گیا کہ انہوں نے غوتہ کے شہریوں پر کیمیائی ہتھیاروں کا استعمال کیا ہے، جس کی عالمی سطح پر مذمت بھی کی گئی۔

بشارالاسد 2021 میں چوتھی مرتبہ صدارت کے منصب پر فائز ہوئے
بشارالاسد نے اس عرصہ اقتدار میں کسی مخالف سیاسی قوت کو پنپنے ہی نہ دیا، اور یوں 2021 کے متنازع انتخابات میں وہ چوتھی مدت کے لیے بھی صدر منتخب ہوگئے۔

بشار الاسد کے چوتھی مرتبہ صدر بننے کے بعد عرب ریاستوں نے ایک بار پھر بشارالاسد حکومت سے تعلقات کی بحالی شروع کردی، اور یوں 2023 میں شام کو ایک بار پھر عرب لیگ میں شامل کرلیا گیا۔

دسمبر 2024 میں الاسد خاندان کے اقتدار کا سورج غروب
دسمبر 2024 میں شامی باغیوں نے شام میں پیش قدمی شروع کی اور چند دنوں میں ہی اہم شہر پر قبضہ کرنے کے بعد اب شام کا مکمل کنٹرول حاصل کرلیا ہے۔

گزشتہ روز 8 دسمبر کو شامی باغیوں کی جانب سے بشارالاسد کی حکومت ختم کرنے کا اعلان کیا گیا، جبکہ میڈیا رپورٹس کے مطابق بشارالاسد ملک سے فرار ہوگئے ہیں۔

غیر ملکی خبررساں ایجنسی کے مطابق روس نے سابق شامی صدر بشار الاسد اور ان کے خاندان کو انسانی ہمدردی کی بنیاد پر پناہ دے دی ہے۔

روسی چینل ون نے بھی کریملن ذرائع کا حوالہ دیتے ہوئے کہا ہے کہ سابق شامی صدر بشار الاسد اور ان کا خاندان روس میں ہے۔

اس سے قبل بشار الاسد کی طیارہ حادثے میں ہلاکت کی متضاد خبریں سامنے آرہی تھی۔

Leave A Reply

Your email address will not be published.