چین کو سمجھنے کے لئے، کمیونسٹ پارٹی آف چائنا کو سمجھنا ہوگا، چینی میڈیا
بیجنگ : کتنے لوگ واقعی اپنے ملک کو جانتے ہی؟ دوسرے ملک کو جاننا اور سمجھنا تو دور کی بات ہے۔ امریکی مصنف جان اسٹین بیک (1902-1968) نے ایک بار لکھا تھا، "میں نے پایا کہ میں اب اپنے ملک کو نہیں جانتا. میں صرف کتابوں اور اخبارات سے جانتا ہوں . میں نے پچیس سالوں سے اس ملک کو محسوس نہیں کیا ۔ میری رائے میں، ایک نام نہاد مصنف کے لئے، یہ ایک جرم ہے”. لہٰذا وہ اپنے کتے چارلی کو لے کر امریکہ کے براعظم میں پیدل چلے گئے، خود کو امریکہ اور امریکیوں سے دوبارہ متعارف کروایا اور اپنا مشہور سفرنامہ "ٹریولز ود چارلی: ان سرچ آف امریکہ” لکھا۔اسی طرح یہ سوال بھی پیدا ہوتا ہے کہ کیا لوگ چین کو صرف کتابوں اور اخبارات سے سمجھ سکتے ہیں؟ یقینا نہیں۔ اس لیے دنیا نے چین کو سمجھنےاور چین نے اپنے آپ کو سمجھانے کی امید میں اپنی پوری کوشش کی۔ اسی تناظر میں بین الاقوامی کانفرنس "انڈرسٹینڈنگ چائنا” کا جنم 2013 میں ہوا اور اس سال یعنی 2024 تک یہ آٹھ بار منعقد ہو چکی ہے۔چین کو کیسے سمجھا جا سکتا ہے ؟ گزشتہ 11 سالوں میں چینی صدر شی جن پھنگ نے بار ہا”انڈرسٹینڈنگ چائنا” بین الاقوامی کانفرنس کے نام پیغامات بھیجے اور دنیا کو چین کو سمجھنے کی کلید سمجھانے کے لئے ہدایات دیں ۔ 2021 میں صدر شی جن پھنگ نے اپنی تقریر میں کہا "آج کے چین کو سمجھنے کے لئے، کمیونسٹ پارٹی آف چائنا کو سمجھنا ہوگا.”۔ 2023 میں صدر شی جن پھنگ نے اپنے پیغام میں اس بات پر زور دیا کہ "چین کو سمجھنے کی کلید چینی طرز کی جدیدیت کو سمجھنا ہے”۔ اس سال صدر شی جن پھنگ نے ایک بار پھر کانفرنس کو ایک تہنیتی خط بھیجا، جس میں کہا گیا کہ "چین کو سمجھنے کے لئے، یہ سمجھنے کی ضرورت ہے کہ چین کس طرح ہمہ جہت طریقے سے اصلاحات کو مزید گہرا کر رہا ہے اور چینی طرز کی جدیدیت کو فروغ دے رہا ہے”۔چین کو سمجھنا ایک اہم موضوع ہے جو وقت نے دنیا کو دیا ہے۔ دنیا کی دوسری سب سے بڑی معیشت اور بہت سے شعبوں میں ایک اہم شراکت دار اور رہنما کی حیثیت سے، چین کی ترقی کی راہ، پالیسی کا رجحان اور ثقافتی پس منظر عالمی پیٹرن پر گہرا اور مسلسل اثر ڈالتے ہیں. چین کے بارے میں ایک واضح، درست اور جامع تفہیم ،ممالک کے لئے معقول خارجہ پالیسیاں تشکیل دینے، موثر اقتصادی اور تجارتی تعاون کو آگے بڑھانے اور کثیر الثقافتی تبادلوں میں اس کے مشغول ہونے سے ممکن ہے۔ بین الاقوامی کانفرنس ” انڈرسٹینڈنگ چائنا ” کا قیام اسی تناظر میں تفصیلی بات چیت، واضح تبادلوں اور وسیع اشتراک کے لئے وجود میں آیا ، جس کا مقصد مشترکہ طور پر چین کی ترقیاتی منطق کا تجزیہ کرنا اور چین اور دنیا کے لئے ہم آہنگی کے ساتھ مل جل کر کام کرنے کا بہترین راستہ تلاش کرنا ہے۔ جیسا کہ گوانگ چو میں آٹھویں بین الاقوامی کانفرنس ” انڈرسٹینڈنگ چائنا ” میں شرکت کرنے والے آسٹریا کے سابق چانسلر وولف گینگ شوسل نے کہا، "انڈرسٹینڈنگ چائنا انٹرنیشنل کانفرنس عالمی اقتصادی رجحانات جیسے اہم موضوعات پر تبادلہ خیال کرنے کا ایک بروقت موقع ہے۔ چین کو سمجھنے کے لئے، آپ کو سب سے پہلے سننا سیکھنا ہوگا. اصلاحات اور کھلے پن کے بعد سے چین کی معیشت نے تیزی سے ترقی کی ہے اور اب یہ دنیا کی دوسری سب سے بڑی معیشت بن چکی ہے جو ترقی یافتہ ممالک سمیت تمام ممالک کے لئے سیکھنے کے قابل ایک تجربہ ہے”۔ پاکستان کے "انڈرسٹینڈنگ چائنا” فورم کے چیئرمین اور پاک چین اقتصادی راہداری کے سابق پاکستانی خصوصی ایلچی ظفر الدین محمود نے کہا کہ مختلف چیلنجز کا سامنا کرتے ہوئے چینی عوام نے ہمیشہ ان چیلنجز کو پوری محنت سے حل کرنے پر زور دیا ہے اور اس کے ساتھ ساتھ چین دنیا کے ساتھ مل کر ترقی کر نا چاہ رہا ہے جس کے لئے وہ پرعزم بھی ہے ۔ ” انڈرسٹینڈنگ چائنا ” نے چین کی اصلاحات اور کھلے پن کی پالیسی کے جوہر کو مزید واضح کیاہے۔امریکی سیاستدان سیموئل ہنٹنگٹن نے سرد جنگ کے بعد مختلف تہذیبوں کے درمیان ناقابل تلافی تصادم کو بیان کرنے کے لئے "تہذیبوں کا ٹکراؤ” کا نظریہ استعمال کیا تھا۔ یہ سچ ہے کہ ایک دوسرے کو جاننا اور سمجھنا کوئی آسان کام نہیں ہے، لیکن اسی وجہ سے مختلف تہذیبوں اور ممالک کے درمیان باہمی تفہیم اور احترام خاص طور پر اہم ہے، اور چین کا "ترقی و خوشحالی میں اشتراک”، "عالمی ہم آہنگی” اور بنی نوع انسان کے ہم نصیب معاشرے کا تصور انتہائی اہمیت کا حامل ہے. 2013 میں پہلی ” انڈرسٹینڈنگ چائنا ” سے لے کر آج تک، گزشتہ دس سالوں میں دنیا چین کو دیکھ کر چین کو سمجھنے میں مسلسل آگے بڑھ رہی ہے، اور چین نے دنیا کے ساتھ ایک ہی سمت میں آگے بڑھنے اور دنیا کے ساتھ اشتراک کرنے کے عمل میں تمام ممالک کی "قدر کی پہچان” حاصل کی ہے. "چینی خیالات”، "چینی رویوں” اور "چینی حل” کی ضرورت دنیا کے تمام ممالک پر مشتمل "انسانیت کے ہم نصیب معاشرے کی تعمیر” اور مختلف تہذیبوں کے مابین باہمی تفہیم اور باہمی احترام کی خواہش کے عین مطابق ہے ، کیونکہ یہ حقیقی آفاقی قدر ہے۔سو ابھی بھی وقت ہے کہ آپ امریکی مصنف جان اسٹین بیک کی طرح اپنے کسی ساتھی کوساتھ لے کر اپنی آنکھوں سے دنیا اور اس میں بسنے والوں کو محسوس کرنے اور انہیں جاننے کے لئے روانہ ہو جائیں، کیونکہ ہم سب ایک مشترکہ تقدیر کا اشتراک کرتے ہیں، لہذا ہمیں ایک دوسرے کو پڑھنے اور سمجھنے کی ضرورت ہے۔