تجارتی جنگ میں کوئی فاتح نہیں ہوگا، چینی میڈیا
بیجنگ :امریکہ کے نومنتخب صدرڈونلڈ ٹرمپ نے حال ہی میں سوشل میڈیا پر پوسٹ کیا کہ وہ اگلے سال 20 جنوری کو عہدہ سنبھالنے کے بعد چین، کینیڈا اور میکسیکو سے امریکہ درآمد کی جانے والی مصنوعات پر اضافی محصولات عائد کریں گے۔ یہ بیان امریکہ کے تحفظ پسندانہ رویے کی ایک اور مثال ہے، جس کی نہ صرف متعلقہ ممالک کی جانب سے سخت مخالفت کی گئی، بلکہ تجارتی جنگ کے بارے میں بین الاقوامی برادری کی تشویش میں بھی اضافہ ہوا ہے۔امریکہ کی تجارتی تحفظ پسندی کے جواب میں ، دیگر ممالک نے مختلف جوابی اقدامات اختیار کیے ہیں۔ میکسیکو اور کینیڈا دونوں نے 27 نومبر کو کہا کہ اگر امریکہ نے واقعی اگلے سال اضافی محصولات عائد کیے تو وہ ” "آنکھ کے بدلے آنکھ اور دانت کے بدلے دانت” کے مصداق جواب دیں گے۔ چین نے جوابی اقدامات کے ساتھ برآمد کنندگان کے لئے امدادی اقدامات کا ایک سلسلہ بھی متعاوف کروایا ہے تاکہ بیرونی مارکیٹ کی غیر یقینی صورتحال سے نمٹنے کی صلاحیت میں اضافہ کیا جاسکے۔ چین کی معیشت لچکدار ہے ۔یہ مسابقت اور توانائی سے بھرپور ہے اور بیرونی اثرات کا مقابلہ کرنے کی مکمل صلاحیت رکھتی ہے۔یہ حقیقت ہے کہ تجارتی جنگ نہ صرف امریکہ کے اپنے مسائل حل کرنے میں ناکام ہو گی بلکہ خود امریکہ کو اس سے نقصان پہنچے گا۔ میکسیکو کے وزیر اقتصادیات مارسیلو ابرارڈ نے خبردار کیا ہے کہ امریکی مارکیٹ میں فروخت ہونے والے 88 فیصد پک اپ ٹرک میکسیکو میں بنائے جاتے ہیں۔ اگر محصولات کی امریکی دھمکی پر عمل ہوا تو یہ محصولات میکسیکو میں امریکی کمپنیوں کو متاثر کریں گے اور اس سے امریکہ کو چار لاکھ ملازمتوں کا نقصان ہو سکتا ہے۔ امریکن ریٹیل فیڈریشن نے یہ بھی نشاندہی کی ہے کہ اگر نئے محصولات کا اطلاق ہوگا تو امریکی صارفین کی صارفی صلاحیت میں ہر سال 46 ارب ڈالر سے 78 ارب ڈالر یا فی گھرانہ 362 سے 624 ڈالر کی کمی آ سکتی ہے۔ بڑھتی ہوئی قیمتوں اور کمزور کھپت جیسے مسائل بھی سامنے آئیں گے ، جس کے نتیجے میں امریکی معیشت کی ترقی متاثر ہوگی۔تاریخ نے بار ہا ثابت کیا ہے کہ تجارتی جنگوں میں کوئی فاتح نہیں ہوتا۔ امریکہ کی جانب سے بڑھاوا دینے والی تجارتی کشمکش کی وجہ سے چینی اور امریکی کمپنیوں کو بڑھتی ہوئی لاگت اور سکڑتی ہوئی مارکیٹوں جیسی مشکلات کا سامنا کرنا پڑا ہے اور اس سے ملازمتیں بھی متاثر ہوئی ہیں۔ عالمی صنعتی اور سپلائی چین بھی تجارتی تحفظ پسندی سے متاثر ہو ئی ہیں ، مارکیٹ کے اعتماد میں کمی ہوئی ہے، اور معاشی عالمگیریت کا رجحان خطرے میں ہے. اس صورتحال کے پیش نظر چین نے تمام ممالک کی مشترکہ ترقی کے لیے بھرپور کوشش کی ہے ۔چین بیرونی دنیا کے سامنے کھل کر اپنی خیر سگالی کا اظہار جاری رکھے ہوئے ہے اور ایک بڑے ملک کے طور پر ذمہ دارانہ رویہ کا اظہار کیا ہے ۔حال ہی میں یکم دسمبر 2024 سے چین نے اپنے ساتھ سفارتی تعلقات قائم کرنے والے انتہائی کم ترقی یافتہ ممالک کی 100 فیصد درآمدی مصنوعات کے لیے زیرو ٹیرف ٹریٹمنٹ نافذ کیا ہے۔ یہاں تک کہ امریکہ کے لیے بھی، جو تجارتی تنازعات کو ہوا دینا جاری رکھے ہوئے ہے، چین خیر سگالی کا مظاہرہ جاری رکھے ہوئے ہے۔ امریکہ پر اضافی محصولات کے تابع اشیاء کے لئے اخراج کی چودہویں توسیعی فہرست 30 نومبر 2024 کو ختم ہوئی ہے ۔چین کے اسٹیٹ کونسل کے کسٹمز ٹیرف کمیشن نے حال ہی میں اعلان کیا ہے کہ یکم دسمبر 2024 سے 28 فروری 2025 تک اس فہرست میں شامل اشیاء پر چین کی جانب سے امریکی دفعہ 301 اقدامات کے خلاف اضافی محصولات عائد نہیں کیے جارہے ۔ اس سے قبل بھی چین کئی مرتبہ متعلقہ اخراجی فہرست میں توسیع دے چکا ہے جو نہ صرف متعلقہ کاروباری اداروں کو تعاون فراہم کرتی ہے بلکہ چین اور امریکہ کے مابین تجارتی تناؤ کو کم کرنے میں بھی مدد گار ہے اور یہ عمل تجارتی پالیسی میں چین کی لچک اور عملیت پسندی کی عکاسی کرتا ہے.معاشی عالمگیریت کے آج کے دور میں مختلف ممالک کی معیشتیں ایک دوسرے پر منحصر ہیں اور مفادات آپس میں جڑے ہوئے ہیں۔ باہمی احترام، پرامن بقائے باہمی اور باہمی تعاون کے اصولوں پر عمل کرکے ہی ہم مشترکہ طور پر تمام ممالک کی معیشتوں کی پائیدار ترقی کو فروغ دے سکتے ہیں۔ دنیا کی سب سے بڑی معیشت کی حیثیت سے امریکہ کو عالمی معاشی استحکام کو برقرار رکھنے، تجارتی تحفظ پسندی کو ترک کرنے، مذاکرات اور مشاورت کے ذریعے اختلافات کو حل کرنے او ر عالمی تجارت کی آزادی اور سہولت کاری کو فروغ دینے میں اپنا کردار ادا کر تے ہوئے عالمی معیشت کے استحکام، خوشحالی اور ترقی میں اپنی ذمہ داری ادا کرنی چاہیے ورنہ تجارتی تحفظ پسندی کا یہ دائرہ بڑھتا جائے گا جس سے بالآخر تمام ممالک کے عوام کے مشترکہ مفادات کو ہی نقصان پہنچے گا۔