تحریر؛۔طارق یسین شاہ
(ولادت ١٩٣١ء ۔ وفات ٢٠٢٤ئ)
مرحوم و مغفور عم محترم میرواعظ مولوی محمد احمد شاہ گزشتہ دنوں اس فانی دنیا کو الوداع کرکے دارالبقا کو رخصت ہو گئے اور اپنے پیچھے ایسی ان گنت یادیں اور کارنامے چھوڑ گئے جو تادیر ان کو ہمارے اور ان کے چاہنے والوں کے اذہان میں زندہ و جاوید رکھیں گے ۔ موت ایک اٹل حقیقت ہے لیکن جن حالات میں مرحوم کا انتقال ہوا وہ ہمارے لئے سب سے زیادہ اس لئے تکلیف دہ ہے کیونکہ وہ آخری عمر میں اپنے قریبی عزیز واقارب سے ملنے اور اپنے وطن مالوف کو آنا چاہتے تھے لیکن یہ بھی ایک بڑی بدقسمتی رہی ہے کہ کشمیر کی تقسیم نے سینکڑوں گھرانوں کے ساتھ ساتھ خاندان میرواعظین کو بھی بانٹ کررکھ دیا اور پھر ستم بالائے ستم یہ کہ حکمرانوں کی چیرہ دستیوں نے حالات ہمارے لئے ایسے تنگ کئے کہ ہم برسوں تک ایک دوسرے کا دیدار کرنے اور خوشی اور غمی کے مواقعہ پر ترستے رہے ۔
جناب میرواعظ مولوی محمد احمد شاہ جن کی ولادت تاریخی میرواعظ منزل راجوری کدل سرینگر 10اپریل 1931 میں ہوئی ۔ آپ اپنے نامور والد تحریک حریت کشمیر کے اولین بانی مہاجر ملت مفسر قرآن میرواعظ مولانا محمد یوسف شاہ صاحب کی اکلوتی اولاد تھے اور انکی تعلیم و تربیت بھی اپنے والد گرامی کی سایہ عاطفت میں ہی پروان چڑھی اور انہوں نے اپنی تعلیم کشمیر کی معروف دانشگاہ انجمن نصرة الاسلام کے تحت اسلامیہ ہائی اسکول اور اورینٹل کالج میں جاری رکھی ۔ اس دوران اپنے ہی خاندان میں17 سال کی عمر میں ازدواجی رشتے سے بھی منسلک ہو گئے ۔چنانچہ آپ والد گرامی حضرت شہید ملت میرواعظ مولوی محمد فاروق صاحب کے برادر نسبتی تھے۔
اپنے نامور والد گرامی کی مہاجرت کے بعدحالات ایسے بنائے گئے کہ مرحوم کو بھی اپنی والدہ ماجدہ اور اہلیہ مرحومہ کے ساتھ ہجرت کرنی پڑی۔ چونکہ مہاجر ملت فطرتاً ایک مہم جو، متحرک اور فعال شخصیت تھے لہٰذا وہاںقیام کے دوران مرحوم نے جہاں اپنی دینی،ملی اور سماجی سرگرمیاں جاری رکھیں وہیں آزاد کشمیرپاکستان کی سرگرم سیاست میں بھی اپنا بھر پور اور مثبت رول نبھایا۔ ظاہر ہے اس دوران مرحوم مولوی محمد احمد شاہ صاحب اپنے والد گرامی کے ساتھ ساتھ انکے رفیق اور مشیر کی حیثیت سے بھی کام کرتے رہے اور اس طرح انکی تربیت بھی ہوتی رہی۔
چنانچہ مولوی محمد احمد شاہ صاحب جو فطرتاً خاموش طبیعت اور شہرت اور ناموری سے زندگی بھر گریزاں رہے تاہم جب بھی ضرورت پیش آئی انہوں نے ملکی و ریاست معاملات میں اپنی صلاحیتوں کو پیش کیا اور چونکہ ایک نامور خاندان کی شخصیت ہونے کے ناطے مقامی سیاسی سسٹم انکو نظر انداز بھی نہیں کرسکتا تھا یہی وجہ ہے کہ جب 1973میں پاکستان میں ایک متفق آئین بنانے کی کوششوں کا آغاز ہوا تو اس میں آزاد کشمیر میں بھی آئین بنانے کیلئے بھی 6سیاسی جماعتوں کے سربراہوں پر مشمل ایک آئین ساز کمیٹی بنائی گئی جس میں جناب مرحوم میرواعظ کو عوامی ایکشن کمیٹی کے مقامی چیرمین کی حیثیت سے نامزد کیا گیا۔
کمیٹی نے ایک سال کی مشاورت کے بعد 1974 میں آزاد کشمیر کا آئین بنایا جس میں مرحوم ایک سرگرم رکن کی حیثیت سے اپنا کردار ادا کرتے رہے ۔
حقیقت یہ ہے کہ مرحوم میرواعظ مولوی محمد احمد شاہ صاحب جہاں ہمارے خاندان کی ایک بزرگ شخصیت تھے وہیں وہ 1947 کے بعد برصغیر ہندوپاک میں وقوع پذیر ہوئے غیر معمولی حالات ، حادثات اور واقعات کے انتہائی معتبر اور چشم دید گواہ تھے اور اللہ تعالیٰ نے انہیں یادداشت اور قوت حافظہ سے بھی خوب نوازا تھا۔یہی وجہ ہے کہ آزادکشمیر ریڈیو سے کئی دہائیوں تک وہ مہاجر ملت کے کشمیری ترجمہ شدہ قرآن کریم” بیان الفرقان” کو روزانہ کی بنیادوں پر نشر کرتے رہے اور اس طرح انہوں نے کشمیر کے آر پار رہ رہے اپنے ہم وطنوںکو قرآن کریم کی روح اور معنیٰ سے آشنا کیا۔چونکہ مرحوم کی زندگی مختلف حادثات سے عبارت رہی ہے اور انہوں نے اپنی پوری زندگی میں ایسے بھی واقعات کا بھی مشاہدہ کیا جنہوں نے ان کی زندگی میں یکسر تغیر پیدا کردیا۔
وہ پہلی بار حضرت شہید ملت کے دور میں 1979 میں اپنے وطن مالوف سرینگر آئے اور ایک لمبی مدت تک یہاں مقیم رہ کر اپنے تمام عزیز و اقارب سے تفصیل سے ملاقاتیں کیں۔اور اس کے بعد جب سرینگر آزاد کشمیر بس سروس کا آغاز ہوا تو بذریعہ سڑک وہ یہاں تشریف لائے اور کچھ عرصہ قیام کے بعد واپس تشریف لے گئے۔ اس کے بعد ایک دو بار انہیں یہاں آنے کا موقعہ ملا اور ہم سب سے ملاقاتیں رہیں اور اپنی شفقت اور محبت سے ہمیں نوازتے رہے۔
چونکہ مرحوم ان چند حادثات کے بھی عینی گواہ تھے جنہوں نے کشمیر کی سیاسی اُفق پر انمٹ نقوش چھوڑے وہ مہاجر ملت کی رحلت اور ان کی جدائی کے بعد انتہائی صبر آزما حالات سے دوچار رہے اور پھر جب کشمیر ی عوام کے ہر دلعزیز رہنما شہید ملت میرواعظ مولانا محمد فاروق کی1990میں شہادت کا المناک سانحہ پیش آیااور کشمیری عوام کی شدید خواہش و اصرار پر مجھے کمسنی کے عالم میں ہی منصب میرواعظ پر فائز اور تاریخی جامع مسجد کے منبر و محراب سے وعظ و تبلیغ کا فریضہ ادا کرنے کی ذمہ دی گئی تو وہ ہمارے پورے خاندان کیلئے ایک صبر آزما دور تھا اور ان حالات میں ہم نے مرحوم مولوی محمد احمد صاحب کی خاندان کے ایک بزرگ کے حیثیت سے ان کی کمی کو شدت کے ساتھ محسوس کیا۔اور شہید ملت کی سانحہ شہادت کے باوجود اس وقت کے حکمرانوں نے میرواعظ مرحوم اور منقسم خاندان کے دیگر افراد کو کو یہاں آنے کی اجات نہیں دی۔ ظاہر ہے کہ اس طرح کے حالات میں میرواعظ مرحوم کے دن رات کیسے گزرے ہوں یہ وہ خود یا ان کا خدا جانتا ہے۔اب وہ ہمارے درمیان نہیں رہے لیکن ان کی شفقت، ان کی محبت، ان کی عنایات اور مجھے سمیت اپنے تمام عزیز و اقارب سے ان کی انتہائی انسیت اور چاہت ہمارے لئے عظیم سرمایہ ہے اور ہم انکی کمی کو شدت سے محسوس کرتے رہیں گے ۔انکی زندگی کے مختلف واقعات اور حادثات کو قلمبند کرنا یا بیان کرنا مختصر سے وقت میں ممکن نہیں ہے۔ انشاء اللہ وقت ملا تو انکی خود نوشت سوانح حیات”روداد زندگی” کو مناسب وقت پر منظر عام پر لانے کی کوشش کریں گے ۔
اس مرحلے پراللہ تبارک و تعالیٰ سے میری دعا ہے کہ وہ مرحوم میرواعظ کو اپنی جوار رحمت میں جگہ دے اورخاندان کے تمام ارکان سمیت اہالیان کشمیر کو یہ صدمہ جانکاہ برداشت کرنے کی توفیق عطا کرے۔ آمین