اپنی زندگی کا اگلا باب پڑھے بغیر کتاب بند مت کرو
’میٹ دا رائٹر‘ یعنی لکھاریوں سے ملاقات کے نام سے مغرب میں اکثر ایسی تقریبات منعقد ہوتی ہیں جن میں پبلشرز اپنی کتابوں کے مصنفین کو مدعو کرتے ہیں، ان کی کتابوں کے سٹال لگے ہوتے ہیں۔
قارئین وہاں آ کر کتابیں خریدتے اور اپنے پسندیدہ رائٹرز سے آٹوگراف لیتے ہیں۔ یہ ایسی ہی ایک تقریب کا سچا احوال ہے۔
ہال میں تین رائٹر اپنی اپنی ٹیبل پر موجود تھے تاکہ کتابوں پر دستخط کر سکیں۔ دو کے سامنے لمبی قطار تھی۔ ان کے پڑھنے والے سٹال سے کتاب خرید کر ان سے دستخط کرانے لائن میں لگ جاتے۔
دھڑا دھڑ کتابوں پر سائن کیے جا رہے تھے، کچھ لوگ اپنی آٹوگراف بک پر بھی کسی قول کے ساتھ دستخط بھی کرا رہے تھے۔ ایک لکھاری تنہا بیٹھا تھا۔ اس کے سامنے کوئی نہیں کھڑا تھا۔ دوپہر ہوگئی۔ کچھ دیر کے لیے لنچ بریک ہوئی اور پھر یہ کام شروع ہوگیا۔
وہ تیسرا لکھاری ابھی تک فارغ ہاتھ پر ہاتھ رکھ کر بیٹھا تھا۔ بوریت دور کرنے کے لیے اس نے ایک کتاب اُٹھا کر پڑھنا شروع کر دی۔ اچانک ایک بزرگ خاتون اس کا ناول لیے اس میز پر آئی اور اسے دستخط کرنے کی درخواست کی۔
رائٹر یہ دیکھ کر کِھل اُٹھا۔ اس نے جلدی جلدی کتاب پر دستخط کیے اور پھر دلچسپی سے خاتون کو دیکھ کر بولا: ’آپ کو یہ ناول اچھا لگ رہا ہے؟‘
بزرگ خاتون مسکرائی اور پھر صاف گوئی سے بولی کہ ’نہیں، دراصل مجھے برا لگ رہا تھا کہ تم اکیلے بیٹھے ہو اورتمہاری کتاب کوئی نہیں خرید رہا، اس لیے میں نے یہ لے لی کہ کم از کم ایک کتاب تو بکے۔‘
یہ اندازہ لگانا مشکل نہیں کہ اس غریب مصنّف پر کیا گزری ہوگی۔ یہ اس کا پہلا ناول تھا جو بری طرح ناکام رہا، بمشکل چند کاپیاں فروخت ہوئیں۔
کیا اس لکھاری نے اس کے بعد ناول لکھنا بند کر دیا کیونکہ وہ ایک کامیاب ٹی وی، تھیٹر، ڈرامہ رائٹر اور پروڈیوسر تھا؟ اسے ایک فلم کے سکرپٹ پر آسکر ایوارڈ بھی مل چکا تھا۔
وہ اپنے اس کیریئر میں اتنی ترقی کر رہا تھا کہ اسے ناول نگاری کا نیا پنگا لینے کی ضرورت ہی نہیں تھی، خاص کر جب پہلا ناول کمرشل سطح پر کامیاب نہیں ہوا۔
جو آپ ہم سوچ رہے ہیں، ویسا بالکل نہیں ہوا۔ دوسرا ناول بھی لکھا گیا اور دلچسپ بات ہے کہ وہ ناول غیر معمولی کامیابی سے ہمکنار ہوا۔ اس کی کئی ملین کاپیاں فروخت ہوئیں اور اس کے کیریئرکا رخ ہی بدل گیا۔
اس کے بعد اس نے سب چیزیں چھوڑ کر ناول لکھنے پر فوکس کیا۔ آئندہ برسوں میں وہ دنیا کا مقبول ترین فکشن نگار بنا جس کے تھرلنگ ناول کروڑوں کی تعداد میں فروخت ہوئے، 50 سے زائد زبانوں میں ان کے ترجمے ہوئے ان پر فلمیں اور ٹی وی سیریلز بنیں۔
اس پہلے ناول کے بعد وہ مصنّف لگ بھگ 40 سال زندہ رہا، اس کے دو درجن سے زیادہ ناول چھپے اور اپنے انتقال تک وہ ارب پتی مصنّف بن چکا تھا۔
یہ کہانی دنیا کے ایک بہت مقبول فکشن رائٹر سڈنی شیلڈن کی ہے۔
سڈنی شیلڈن کی زندگی کسی ڈرامائی ناول سے کم نہیں۔ انہوں نے اپنی موت سے تین سال پہلے شائع ہونے والی اپنی خودنوشت ’ دا ادر سائیڈ آف می‘ کو ایک ناول کے انداز ہی میں لکھا ہے۔
اس کا ہر باب ایک ڈرامائی پن لیے ہوئے ہے۔ اپنی داستانِ حیات میں سڈنی نے انکشاف کیا کہ آغاز میں وہ فیکٹری ورکر، جوتوں کے سیلز مین اورریڈیو اناؤنسر کے طور پر کام کرتے رہے۔
اور پھر وہ نغمہ نگار بننے کے لیے نیویارک پہنچ گئے جہاں انہیں خاصے تلخ تجربات ہوئے۔ وہ ایک تھیٹر کے باہر ہاکر(اونچی آواز میں ڈرامے کی سٹریٹ پبلسٹی کرنے والے) کا کام بھی کرتے رہے۔ جب موقع ملا اور حالات سازگار ہونے لگے تو سڈنی پر ڈپریشن کا دورہ پڑا۔
سڈنی شیلڈن دراصل زندگی بھر ایک نفسیاتی عارضے بائی پولر ڈس آرڈرکا شکار رہے۔ اس بیماری میں مریض کے موڈ میں ڈرامائی تبدیلیاں آتی ہیں۔ انتہائی خوشی کے موقع پر وہ خواہ مخواہ غمگین ہوجاتا ہے۔
ڈپریشن کے مرض کا شکار ہونے کے بعد نوجوان رائٹر دل شکستگی کے عالم میں اپنے گھر واپس پہنچ گیا۔ کچھ عرصے کے بعد اس نے ہالی وڈ میں قسمت آزمانے کی ٹھانی۔ شروع میں کسی قدر مایوسی ہوئی۔ آخر کار یونیورسل سٹوڈیو میں بائیس ڈالر ہفتہ وار تنخواہ پر سکرپٹ ریڈر کی ملازمت مل گئی۔
سڈنی کی زندگی بڑی کامیابیوں اور اتنی ہی بڑی ناکامیوں سے معمور رہی۔ آہستہ آہستہ فلموں کی سکرپٹ رائٹنگ کا بھی موقع ملا۔
کئی بی کلاس فلموں کی کہانیاں لکھنے کے بعد 1947ء میں فلم ’دی بیچلر اینڈ دی بوبی ساکسر‘ ریلیز ہوئی۔ غیر متوقع طور پر فلم ہٹ ہوگئی اور اپنے کیریئر سے مایوس سڈنی شیلڈن کوسکرپٹ رائٹر کا آسکر ایوارڈ مل گیا۔
ہالی وڈ میں آسکر کیریئر کا کلائمکس سمجھا جاتا ہے۔ جلد ہی سڈنی شیلڈن کو ایک بہت بڑے سٹوڈیو کے لیے ایک فلم ’ڈریم وائف‘ لکھنے اور ڈائریکٹ کرنے کا موقع مل گیا۔
سٹوڈیو کے سربراہ کا نام بطور پروڈیوسر دیا گیا۔ ہالی وڈ میں فلم کی ریلیز سے پہلے تبصرہ نگاروں کے لیے ایک خصوصی پبلسٹی شو کرایا جاتا ہے۔ بدقسمتی سے بعض جرائد نے اس فلم کے بارے میں منفی تبصرے شائع کیے۔
سٹوٖڈیو کے سربراہ نے ناکامی اور اپنے نام کی بدنامی کے خدشے سے پبلسٹی روکتے ہوئے اسے لو پروفائل فلم کے طور پر ریلیز کیا۔
سڈنی نے احتجاجاً استعفیٰ دے دیا۔ وہ اگلے کئی مہینوں تک ہاتھ پر ہاتھ دھرے بیٹھا رہا۔ نوبت یہاں تک آگئی کہ اپنی شادی کی سالگرہ پر باہر ڈنر کرنے کے لیے اسے اپنی خادمہ سے 50 ڈالر اُدھار مانگنا پڑے۔
کچھ عرصے کے بعد اسے ایک ایسی فلم مل گئی جس نے باکس آفس پر تہلکہ مچا دیا۔ ایسے ہی ڈرامائی اُتارچڑھاؤ اس کے تھیٹر کرئیر میں بھی آئے۔
سڈنی شیلڈن نیویارک براڈوے تھیٹر کے لیے کام کرتا رہا۔ اس کے کریڈٹ پر کم بجٹ سے بننے والا ایک ایسا سُپر ہٹ ڈرامہ آیا جو کئی مہینے چلا۔ اس کا اگلا میوزیکل ڈرامہ نیویارک کی تاریخ کا مہنگا ترین ’اوپرا‘ تھا جو اس قدر فلاپ ہوا کہ ایک ہفتہ بھی نہیں چل پایا۔
ٹی وی کی آمد پر اس نے ادھر بھی قسمت آزمائی۔ اس کا لکھا ’پیٹی ڈیوک شو‘ مسلسل سات برس تک چلتا رہا۔ اس کے علاوہ ’نینسی‘ اور ’آئی ڈریم آف جینی‘ سُپر ہٹ ہوئے۔
1970 میں سڈنی 53 سال کا ہو چکا تھا۔ اس کے ٹی وی شوز لاکھوں افراد دیکھ رہے تھے۔ اس کا خیال تھا کہ ایک کامیاب ٹی وی پروڈیوسر اور رائٹر کے طور پروہ اپنی زندگی کی تمام کامیابیاں سمیٹ چکا ہے مگر زندگی کی کتاب کا اگلا ڈرامائی باب ابھی آنے والا تھا۔
اس کے دماغ میں ایک آئیڈیا خاصے عرصے سے گردش کر رہا تھا جسے ڈرامے یا فلم میں دینا ممکن نہیں تھا ۔اس نے ایک ناول ’دا نیکڈ فیس‘ لکھا۔ پانچ پبلشروں نے اسے رَد کر دیا، آخر ایک نے صرف ہزار ڈالر میں مسودہ خرید لیا۔
یہ ناول گو زیادہ بکا نہیں مگر نیویارک ٹائمز نے اسے سال کا بہترین مسٹری ناول قرار دیا۔ سڈنی نے ہمت نہیں ہاری اور دوسرا ناول ’دی اَدر سائیڈ آف مڈ نائیٹ‘ لکھا جس نے اس کی زندگی بدل دی۔
اس کی کئی ملین کاپیاں کاپیاں فروخت ہوئیں۔ باقی ماندہ زندگی سڈنی شیلڈن نے ناول نگاری کی۔ نوجوانی میں 100 ڈالر کے نوٹ کے لیے ترسنے والے سڈنی کے اثاثے تین بلین ڈالرتک پہنچ گئے۔
سڈنی نے 17 سال کی عمر میں خودکشی کرنا چاہی لیکن والد کے بروقت پہنچ جانے کی وجہ سے وہ ایسا نہ کر پایا۔
اس کے والد ایک سمجھدار سیلزمین تھے جنہوں نے نوجوان سڈنی کو نصیحت کی کہ ’تم پڑھنے لکھنے کے شائق ہو، ناول بہت پڑھتے ہو، یاد رکھو کہ زندگی ایک تھرلنگ ناول کی مانند ہے۔ اگلا صفحہ پلٹنے سے پہلے تم کچھ اندازہ نہیں لگا سکتے کہ کیا ہونے والا ہے۔
تم خودکشی کرنا چاہتے ہو جو جی چاہے کرو، مگر مجھے یہ افسوس ہے کہ تم زندگی کی کتاب کو بہت جلد بند کر رہے ہو۔ اس طرح تو تم اس جوش و خروش اور دلچسپیوں سے محروم ہو جاؤ گے جنہیں زندگی کی کتاب کے اگلے باب میں آنا ہے۔
یاد رکھو! کہ یہ کتاب بند کرنے کا فیصلہ تو کبھی بھی کیا جا سکتا ہے مگرایک بار بند ہونے کے بعد دوبارہ یہ کتاب نہیں کھل سکتی۔‘
ان چند فقروں نے نوجوان کے ارادے کو تبدیل کردیا۔
اپنی بائیوگرافی میں بھی سڈنی شیلڈن نے اپنی زندگی کا نچوڑ یہی بیان کیا کہ ’زندگی کی کتاب کا ہر باب دوسرے سے مختلف اور کئی بار بڑا سنسنی خیز اور ڈرامائی ہوتا ہے۔ آج تم ناکام ہو تو کل حیران کُن کامیابیاں مل سکتی ہیں۔ اس لیے اپنی زندگی کا اگلا باب پڑھے بغیر کتاب مت بند کرو۔‘
(بشکریہ اردو نیوز)