چین اور پاکستان کے درمیان مصنوعی ذہانت کے شعبے میں تعاون گہرا ہو رہا ہے، چینی میڈیا
حال ہی میں چین اور اقوام متحدہ نے شنگھائی میں مصنوعی ذہانت کی صلاحیت سازی کی ورکشاپ کا مشترکہ اہتمام کیا جو 3 سے 6 ستمبر تک جاری ہے۔اس میں تقریباً 40 ممالک کے نمائندوں نے شرکت کی۔ ماہرین کی تدریس، انٹرایکٹو تبادلوں اور سروے کے ذریعے اس ورکشاپ میں "گلوبل ساؤتھ” ممالک کے نمائندوں کو اے آئی کی موجودہ صورتحال اور ترقیاتی رجحانات کے بارے میں مزید معلومات حاصل ہوئیں۔
اس وقت مصنوعی ذہانت کی ٹیکنالوجی تیزی سے ترقی کر رہی ہے۔ اسمارٹ مینوفیکچرنگ، اسمارٹ شہر اور اسمارٹ ہیلتھ کیئر سمیت وسیع پیمانے پر اے آئی کا استعمال نظر آ رہا ہے، جو سماجی اور معاشی ترقی کو فروغ دینے میں اہم کردار ادا کررہا ہے۔مصنوعی ذہانت سائنس، ٹیکنالوجی اور صنعتوں کی جدید تبدیلی میں ایک اہم محرک قوت بن گئی ہے اور کسی ملک کی مسابقت پر اس کا اہم اثر واضح ہو رہا ہے.
چین مصنوعی ذہانت کی ترقی کو بہت اہمیت دیتا ہے اور یہاں اس شعبے میں کافی پیش رفت بھی حاصل ہوئی ہے۔ ورلڈ انٹلیکچوئل پراپرٹی آرگنائزیشن کی ایک رپورٹ کے مطابق 2014 سے 2023 تک چین نے جنریٹیو اے آئی کی 38 ہزار سے زائد پیٹنٹ درخواستیں دائر کی ہیں جو دنیا میں پہلے نمبر پر ہیں اور دوسرے نمبر پر موجود امریکا سے چھ گنا زیادہ ہیں۔
مصنوعی ذہانت کی ٹیکنالوجی کی تیز رفتار ترقی کے باوجود زیادہ تر ممالک، خاص طور پر ترقی پذیر ممالک ابھی تک اس سے حقیقی طور پر فائدہ اٹھانے کے قابل نہیں ہیں. ورکشاپ کے افتتاحی خطاب میں اقوام متحدہ کے سیکرٹری جنرل انتونیو گوتریس نے کہا کہ مصنوعی ذہانت دنیا کو حیرت انگیز رفتار سے ترقی دے رہی ہے ، تبدیل کر رہی ہے اور پائیدار ترقی کے اہداف کے حصول میں اہم کردار ادا کرے گی۔ تاہم انہوں نے اس بات پر زور دیا کہ مصنوعی ذہانت کے مواقع مساوی طور پر تقسیم نہیں ہو رہے ہیں اور بہت سے ممالک ان سے فائدہ اٹھانے سے قاصر ہیں۔ مصنوعی ذہانت کی پوری صلاحیت کو بروئے کار لانے کے لیے بین الاقوامی برادری کو اے آئی تقسیم کے خاتمے ے لیے یکجہتی اور تعاون کو مضبوط کرنے کی ضرورت ہے۔
ایک ترقی پذیر ملک کی حیثیت سے، چین ہمیشہ مصنوعی ذہانت پر بین الاقوامی تعاون اور حکمرانی کو فروغ دینے کے لئے پرعزم رہا ہے. اکتوبر 2023 میں ، تیسرے بیلٹ اینڈ روڈ فورم برائے بین الاقوامی تعاون میں چینی صدر شی جن پھنگ نے اعلان کیا کہ چین نے گلوبل اے آئی گورننس انیشی ایٹو پیش کیاہے۔ رواں سال یکم جولائی کو اقوام متحدہ کی جنرل اسمبلی نےچین کی جانب سے پیش کردہ”مصنوعی ذہانت کی صلاحیت سازی پر بین الاقوامی تعاون کی مضبوطی” سے متعلق ایک قرارداد منظور کی تھی، جس پر 143 ممالک نے مشترکہ طور پر دستخط کیے تھے۔ 4 جولائی کو عالمی مصنوعی ذہانت کانفرنس نے مصنوعی ذہانت کی عالمی گورننس پر شنگھائی اعلامیہ جاری کیا۔ یہ تمام اقدامات مصنوعی ذہانت کی شمولیت،زیادہ سے زیادہ ممالک تک اس کی رسائی اور پائیدار ترقی پر زور دیتے ہیں، مصنوعی ذہانت کی ترقی میں حصہ لینے کے لئے ترقی پذیر ممالک کی توقعات کا جواب دیتے ہیں اور دنیا کے تمام ممالک کے عمومی مفادات سے مطابقت بھی رکھتے ہیں۔
مصنوعی ذہانت کی عالمی حکمرانی میں چین ایک مثبت وکیل اور فعال معمار بھی ہے. چین مصنوعی ذہانت پر دوسرے ممالک کے ساتھ ٹھوس تعاون کر رہا ہے ، خاص طور پر ترقی پذیر ممالک کو مصنوعی ذہانت کی صلاحیت مضبوط بنانے میں بھرپور مدد کررہا ہے ۔ شنگھائی میں مصنوعی ذہانت کی صلاحیت سازی کی ورکشاپ ترقی پذیر ممالک کو مصنوعی ذہانت کی حکمرانی کو بہتر بنانے میں مدد کرنے اور اے آئی خلا کو پر کرنے کے لیے چین کا ایک تازہ اقدام ہے۔
سی پیک کی تعمیر کے ساتھ ساتھ مصنوعی ذہانت کے شعبے میں چین اور پاکستان کے درمیان تعاون گہرا ہو رہا ہے۔ مثال کے طور پر چین پاکستان انٹلیجنٹ سسٹمز لیبارٹری پاکستان میں موثر ٹریفک مینجمنٹ سسٹم اور انفراسٹرکچر مانیٹرنگ سسٹم جیسے اسمارٹ سٹی منصوبے پر کام کر رہی ہےاور اس تعاون کے تحت پاکستان کے ہیلتھ کیئر سسٹم کی کارکردگی کو بہتر بنانے میں بھی مدد ملی ہے۔چین پاکستان زرعی اے آئی لیبارٹری اسمارٹ زرعی مشینری آلات سمیت جدید ٹیکنالوجی کا استعمال کر کے زرعی پیداوار کی کارکردگی اور فصل کی پیداوار کو بہتر بنانے کی کوشش کر رہی ہے۔ مذکورہ منصوبے نہ صرف تکنیکی تبادلے اور ٹیلنٹ کی تربیت کو فروغ دیتے ہیں اور مقامی سماجی اور معاشی ترقی کو بڑھاتے ہیں بلکہ عالمی مصنوعی ذہانت کی ترقی اور بین الاقوامی تعاون کے لئے قیمتی تجربہ اور ماڈل بھی فراہم کرتے ہیں۔
آئی ٹیکنالوجی کی ترقی میں چین ہمیشہ ترقی پذیر ممالک کے ساتھ کھڑا رہا ہے، اے آئی تقسیم کو کم کرنے کی حمایت کی ہے، ہمیشہ انسانی فلاح و بہبود کو اولیت دی ہے اور انسانی مفادات کے لیے اے آئی ” کے اصول پر عمل کیا ہے۔ عالمی مصنوعی ذہانت میں چین کی خدمات مستقبل میں بھی اسی طرح جاری رہیں گی۔