چینی ہائبرڈ گھاس ٹیکنالوجی سے دنیا بہتری کی جانب گامزن
کیگالی / فوژو (شِنہوا) اگست کے اوائل میں روانڈا میں موسم قدرے گرم اور خشک تھا، اس وقت جنوبی صوبے کے نوجوان کسان شاندار فصل کا جشن منا رہے تھے۔ ان کے ہاتھ مکئی یا چاول سے نہیں بلکہ مشروم سے بھرے ہوئے تھے جو ایک ایسی ٹیکنالوجی کی مدد سے کاشت کئے گئے تھے جو دور دراز کے ایک ملک سے افریقہ کی اس "ہزار پہاڑیوں کی سرزمین” میں منتقل کی گئی تھی۔
تقریب میں پروفیسر لین ژان شی بھی شریک تھے۔ یہ 80 سالہ سائنسدان 1980 کی دہائی سے چین کے جنوب مشرقی صوبے فوجیان میں جون کاؤ ٹیکنالوجی پر کام کرنے والی ایک تحقیقی ٹیم کی قیادت کررہے ہیں۔ ہائبرڈ گھاس ٹیکنالوجی پھپھوندی کو کٹے درختوں کے بجائے گھاس پر مشتمل اسبسٹریٹس پر اگنے کے قابل بنادیتی ہے یہ جنگلات کو مشروم صنعت سے لاحق خطرے کا حل ہے۔
اس پودے کے نام کا مطلب چینی زبان میں "مشروم” اور "گھاس” ہے۔ ورسٹائلٹی اس کی ایک اہم خاصیت ہے۔ جس سے اسے خوردنی مشروم اگانے، مویشیوں کو چارہ فراہم کرنے اور صحرا کو بڑھنے سے روکنے میں مدد ملتی ہے۔
چینی صدر شی جن پھنگ کی فعال اور دور اندیشی کی بدولت جون کاؤ ٹیکنالوجی نہ صرف چین بلکہ بیرون ملک بھی تیزی سے مقبول ہورہی ہے۔ یہ ایشیا بحرالکاہل، افریقہ اور لاطینی امریکہ کے ترقی پذیر ممالک میں روزگار بہتر بناکر پائیدار ترقی کو فروغ دے رہی ہے۔
لین کو ” بابائے جون کاؤ” بھی کہا جاتا ہے۔ وہ فوجیان کے غریب دیہی پہاڑوں میں پلے بڑھے۔ غربت کے ساتھ ان کے ذاتی تجربات نے جون کاؤ ٹیکنالوجی کے ساتھ ان کی وابستگی مزید گہری کی۔
کئی دہائیوں کی تحقیق کے بعد ان کی ٹیم اعلیٰ پیداوار، خشک سالی اور نمکیات کے خلاف مزاحمت کرنے والے جڑی بوٹیوں کے پودوں کا پتہ لگانے اور ان کی افزائش کرنے میں کامیاب رہی جو کھانے کے قابل اور ادویاتی مشروم اگانے میں لکڑی کے متبادل کے طور پر استعمال کی جاسکتی ہے۔
جون میں عالمی تجارتی تنظیم نے جنیوا میں 9 ویں ایڈ فار ٹریڈ گلوبل ریویو کانفرنس کا انعقاد کیا تھا جس میں نے اس بات پر روشنی ڈالی گئی تھی کہ جون کاؤ ٹیکنالوجی نے اپنے عالمی سفر کیسے شروع کیا تھا۔ لین نے 1992 میں پہلی بار جنیوا میں ایجادات سے متعلق ایک عالمی نمائش میں جون کاؤ ٹیکنالوجی کو پیش کیا تھا جسے بڑے پیمانے پر سراہا گیا۔ سوئٹزرلینڈ میں ٹیکنالوجی کے متعلق مزید معلومات کے لئے انہیں کئی لوگوں نے رابطہ کیا۔
لین نے یاد دلایا کہ کس طرح صدر شی نے غربت کا مقابلہ کرنے کے لئے سائنس و ٹیکنالوجی ذرائع استعمال کرنے میں پرجوش تعاون کیا۔
سال 1997 میں کمیونسٹ پارٹی آف چائنہ کی فوجیان صوبائی کمیٹی کے اس وقت کے نائب سیکرٹری شی نے جون کاؤ ٹیکنالوجی کو شمال مغربی ننگ شیا ہوئی خود مختار علاقے میں تحفف غربت کی کوششوں کے طور پر نفاذ کیا۔ لین ذمہ داری ملنے پر فوری طور پر اپنی ٹیم کے ساتھ ساتھ گھاس اور پھپھوندی کے بیجوں کو ننگ شیا کے غربت زدہ علاقے شی ہائی گو لے گئے تھے۔
جون کاؤ ٹیکنالوجی آج چین بھر کے 31 صوبوں میں استعمال کی جارہی ہے اور اس نے تحفیف غربت اور دیہی علاقوں کی بحالی میں نمایاں کردار ادا کیا ہے۔
لین ژان شی کے تعاون سے پاپوا نیو گنی میں جون کاؤ ٹیکنالوجی کو متعارف کرانے کے لئے 2000 میں ایک آزمائشی منصوبہ شروع کیا گیا۔ یہ جون کاؤ ٹیکنالوجی کا بیرون ملک پہلا عملی اطلاق تھا۔
اپنی لگن اور قائدانہ جذبے سے متاثر ہو کر لین اور دیگر چینی محققین نے اس ٹیکنالوجی کو دنیا بھر کے 106 ممالک اور خطوں میں متعارف کرایا ۔
دنیا بھر میں تخفیف غربت مشن کے دوران چینی سائنسدانوں نے جون کاؤ ٹیکنالوجی کے کچھ مشکل ماحول آزمائش کی۔ انہوں نے دیکھا کہ پاپوا نیو گنی کے مشرقی پہاڑی علاقوں میں قبائل اب بھی فصل کی کٹائی کے بعد فضلے کو جلانے کی زراعت پر کام کرتے ہیں۔
روانڈا میں مویشیوں یا ٹریکٹرز نہ رکھنے والے خاندان کیچڑ والے کھیتوں میں صرف کھدال کا استعمال کرتے ہیں جبکہ انہوں نے وسطی افریقی جمہوریہ میں جنگ کے بعد پیدا شدہ قحط کے تباہ کن اثرات کا مشاہدہ کیا۔ان برسوں میں انہیں سرعام ڈکیتیوں، ملیریا، بلندی پر رہتے ہوئے بیماریوں اور بجلی یا پانی کے بغیر دور دراز علاقوں میں طویل عرصے تک رہنے جیسی آزمائش کا سامنا کرنا پڑا۔ ترقی پذیر ممالک میں انتہائی غربت کا مشاہدہ کرنے کےبعد ان کی جون کاؤ سے وابستگی مزید مستحکم ہوئی۔
لین نے بتایا کہ ہم لوگوں کی مدد کرنے کے حقیقی جذبے سےغریب ترین علاقوں میں جاتے تھے۔
ایگنس آئن کامیے روانڈا میں جون کاؤ منصوبے کی پہلی رابطہ کار تھیں۔
انہوں نے بتایا کہ ایک چیز نے مجھے بہت خوشی دی وہ یہ تھی کہ ہم نے لوگوں کی بہت معاونت کی اس منصوبے کو بہت پذیرائی ملی اور ہم نے کافی لوگوں خاص کر خواتین اور نوجوانوں کے گروپس کو تربیت دی ۔ میں نے اپنے کام سے کافی لطف اندوز ہوئی اور ماہرین سے تعاون کرنے پر خوشی ملی۔
آئن کامیے نے مزید کہا کہ جون کاؤ ٹیکنالوجی کافی مقبول ہوچکی ہے اور لوگ اس سے پیسہ کماسکتے ہیں۔
لین نے کہا کہ روانڈا کے تقریباً 4 ہزار گھرانوں نے اس ٹیکنالوجی سے فائدہ اٹھایا ہے، جن میں سے کچھ کی آمدن گزشتہ برسوں میں دو یا تین گنا ہوگئی ہے۔
اقوام متحدہ کے سیکرٹری جنرل کے شیف ڈی کیبنٹ ارل کورٹنی ریٹرے نے کہا کہ جون کاؤ ٹیکنالوجی سستی ہے ٹیکنالوجی کا اطلاق اس انداز میں کیا جاتا ہے کہ یہ مقامی سطح پر سستی ہوجاتی ہے جو میری رائے میں بنیادی فائدہ ہے۔
فجی کے صوبے نیتاسیری کے سیریا گاؤں کی سیرووائیا کابوکابو ان خواتین میں سے ایک ہیں جنہیں فجی کے تیسرے سب سے بڑے شہر نادی کے جون کاؤ مظاہرہ مرکز میں تربیت دی گئی تھی۔
کابو کابو نے بتایا کہ تربیت مکمل کرنے کے بعد ہم میں سے ہر ایک کو مرکز کی جانب سے مشروم سبسٹرٹ بیگ بلامعاوضہ ملے، تکنیکی ماہرین کی رہنمائی میں ہم نے 7 سے 10 دن میں مشروم کی کٹائی اور فروخت شروع کردی جس سے ان کے خاندان نے کافی پیسہ کمایا۔
جون کاؤ منصوبے سے حاصل کردہ آمدن سے انہوں نے ضروری سامان خرید ا، پکا بیت الخلا اور غسل خانہ تعمیر کرکے خاندان کا معیا زندگی بلند کیا اور اپنی بستی میں صاف پانی کے منصوبے میں حصہ لیا۔
کابوکابو نے کہاکہ فجی کو جغرافیائی تنہائی، موسمیاتی تبدیلی کی بدولت قدرتی آفات سے لیکر زراعت، پائیدار ترقی اور غذائی تحفظ میں رکاوٹ جیسے متعدد مسائل کا سامنا ہے۔
گزشتہ ایک دہائی میں فجی میں 2 ہزار 400 افراد کو جون کاؤ کی تربیت دی گئی اس وقت فجی میں جون کاؤ کا رقبہ 2 ہزار ہیکٹر سے زائد ہوچکا ہے۔
لین نے کہا کہ سیکھنے میں آسان اور اس پر عملدرآمد مؤثر ہے۔ انہوں نے اس بات پر بھی زور دیا کہ جون کاؤ ٹیکنالوجی کو بیرون ملک اپنی تکنیکی درخواست کی حد کو کم کرنا چاہیے تاکہ غریب ترین کسان بھی اس سے مستفید ہوسکیں۔
اب تک تقریبا 350 بین الاقوامی ورکشاپس کے ذریعے 14 ہزار سے زائد افراد کو جون کاؤ ٹیکنالوجی کی تربیت دی جاچکی ہے جبکہ اس کے تعارفی مقالے دنیا کی 18 زبانوں میں دستیاب ہیں۔
جون کاؤ ٹیکنالوجی نے مشروم کی کاشت کے علاوہ اپنا اختراعی عمل بھی جاری رکھا ہے۔ جس میں چارہ اور کھاد شامل کرکے پیداوار میں اضافہ ہوا ۔
تنزانیہ کے بمبوی سودی کی ایک کسان تاہیا موساوے نے جون کاؤ کو بطور چارہ استعمال کرنے سے دودھ کی کثافت و غذائیت اور اس کی پیداوار میں اضافہ دیکھا ۔
شِنہوا سے گفتگو میں انہوں نے کہا کہ اس سے پیسے کی بچت ہوئی کیونکہ پہلے جو رقم چارے پر خرچ ہوتی تھی وہ اب گھاس استعمال کرکے بچائی جاسکتی ہے۔
تنزانیہ کی وزارت زراعت میں منصوبہ بندی، پالیسی اور تحقیق کے ڈائریکٹر ماکامے کٹوانا نے کہا ہے کہ کسان جون کاؤ کو بڑھاتے اور اسے اپنے کھیتوں میں استعمال کرتے ہیں۔ اس کے بارے میں موصول رائے سے پتہ چلتا ہے کہ کسان اس ٹیکنالوجی کو صرف اس لئے قبول کرتے ہیں کہ یہ بھرپور ہوتی ہے۔
انہوں نے کہاکہ سائنسی اعتبار سے یہ ثابت شدہ ہے کہ اس میں پروٹین کے ساتھ ساتھ کاربن کی مقدار بھی زیادہ ہے، جس سے مویشی دیگر گھاس کی نسبت جون کاؤ گھاس کا استعمال کرکے زیادہ اطمینان محسوس کرتے ہیں۔
جون کاؤ ماحولیاتی نظام بہتر بنانے میں بھی مدد کرتی ہے۔
روانڈا جیسے ممالک میں مٹی کا کٹاؤ ایک سنگین مسئلہ رہا ہے۔ روانڈا کے حکام کو خدشہ تھا کہ اگر یہ مسئلہ حل نہیں ہوا تو روانڈا کے پاس کاشت کاری کے لیے زمین نہیں ہوگی۔ لین نے ہمیشہ ان کے خدشات کو ذہن میں رکھا۔
وہ آج بھی روانڈا میں ایک دہائی قبل اپنے دورے میں کئے گئے تجربات کو یاد کرتے ہیں۔ ایک دن ڈھائی گھنٹے میں 51.4 ملی میٹر بارش ہوئی اور تمام دیوہیکل (جون کاؤ) گھاس میں جذب ہوگئی یہ پانی کے تحفظ اور مٹی کو برقرار رکھنے میں بہت مؤثر تھا۔
لین نے فجی میں فروری میں سیم زدہ مٹی میں جون کاؤ ٹیکنالوجی کا تجربہ کیا۔ جس کا مقصد بحر الکاہل کے جزیرہ ممالک سمیت ترقی پذیر ممالک میں موسمیاتی تبدیلی سے نمٹنے کے لئے اضافی حل تلاش کرنا تھا۔
لین بتایا کہ تجرباتی نتائج کافی امید افزا تھے۔ جون کاؤ خوشیاں بانٹے والی گھاس ہے اور یہ سب کے لئے چین کا ایک تحفہ ہے۔