چینی کمپنیوں کے پن بجلی منصوبوں کا چین۔ پاکستان دوستی میں نمایاں کردار
تیان جن (شِنہوا)سینوہائیڈرو فاؤنڈیشن انجینئرنگ کمپنی لمیٹڈ (سینو ہائیڈرو) کو حال ہی میں نبی سر ویجھیار واٹر سپلائی منصوبے کے تعمیر کے دوران ان کی سائنسی مہارت پر ایک تعریفی خط ملا ہے۔
پاور کنسٹرکشن کارپوریشن آف چائنہ (پاور چائنہ) سے منسلک سینو ہائیڈرو کئی برس سے پاکستانی بنیادی ڈھانچے کی تعمیر میں اپنا کردار ادا کررہی ہے اور یہ چین ۔ پاکستان دوستی کے فروغ کی علامت بن چکی ہے۔
تھر میں واقع نبی سر وجی ہار واٹر سپلائی منصوبے ایک لاکھ 29 ہزار 600 ٹن کا واٹر ٹریٹمنٹ پلانٹ، تین آبی ذخائر اور متعلقہ پائپ لائنوں پر مشتمل ہے۔ سینو ہائیڈرو نے فراہمی آب منصوبے کی بروقت تکمیل یقینی بناتے ہوئے آبی ذخائر کو موثر طریقے سے صاف کیا۔
سینو ہائیڈرو انٹرنیشنل کے جنرل منیجر شین زنگ لیانگ نے بتایا کہ "سینو ہائیڈرو 2006 سے پاکستان میں کام کررہا ہے اس نے بتدریج چین پاکستان اقتصادی راہداری (سی پیک) کی تعمیر میں حصہ لیا جو چین ۔ پاکستان دوستی کا ایک ورثہ ہے۔
گزشتہ برسوں میں کمپنی نے پاکستان میں متعدد اہم منصوبوں کی تعمیر میں حصہ لیا ہے جن میں ڈوبر خاور پن بجلی گھر منصوبہ، قاسم پورٹ کوئلہ بجلی گھر منصوبہ ، باشا اور کروٹ پن بجلی گھر منصوبے شامل ہیں جو پاکستان کا بنیادی ڈھانچہ بہتر بنانے اور بجلی کی قلت دور کرنے میں نمایاں کردار ادا کررہے ہیں۔
قاسم پورٹ کوئلہ بجلی گھر منصوبہ سی پیک پر کام شروع ہونے کے بعد پاور چائنہ کا توانائی میں سرمایہ کاری کا پہلا منصوبہ تھا جس سے سینو ہائیڈرو کی پاکستان میں جڑیں مضبوط ہوئیں۔
شین نے کہا کہ ادارے نے کوئلے اتارنے کی گودی کے جامع منصوبے میں حصہ لیا جو کمپنی کا تعمیر کردہ پہلا جامع گودی منصوبہ تھا۔ یہ بجلی گھر کے لئے ایک اہم معاون سہولت ہے جس میں کوئلہ اتارنے کی گودی بجلی گھر کی تعمیر کے دوران بڑے مکینیکل اور الیکٹرک آلات اتارنے کے کام آتی ہے اور بجلی گھر کی تکمیل کے بعد مال بردار جہازوں کے لنگر انداز ہونے اور سامان اتارنے کی ضمانت مہیا کرتی ہے۔
انہوں نے بتایا کہ تعمیراتی عمل کے دوران کئی مسائل کا سامنا کرنا پڑا ٹیم نے زیر سمندر کیسنگ کی تنصیب، راک ڈرلنگ اور فضلہ صاف کرکے اسے ٹھکانے لگانے جیسے مسائل کا حل تلاش کیا اور کمپنی کا پہلا بیرون ملک "نیشنل کوالٹی انجینئرنگ ایوارڈ” جیتا۔
قاسم پورٹ کوئلہ بجلی گھر نے 2018 میں تجارتی بنیادوں پر کام شروع کیا تھا۔ اس وقت بجلی گھر کی قومی گرڈ کو سپلائی کی صلاحیت کا پاکستان کی مجموعی سپلائی کا تقریبا 10 فیصد ہے۔ اس نے بجلی کی قلت دور کرنے ، بجلی توانائی کا ڈھانچے بہتر بنانے ، مقامی معاشی ترقی کے فروغ اور پاکستان میں لوگوں کا ذریعہ معاش بہتر بنانے میں کردار ادا کیا ہے۔
اس کی تعمیر کے دوران چین ۔ پاکستان دوستی بھی گہری ہوئی ہے۔ اگست 2015 میں پوٹ قاسم کوئلہ بجلی گھر کی بنیادوں پر کام شروع ہوا تو نیشنل یونیورسٹی آف پاکستان سے فارغ التحصیل 3 پاکستانی طالب علموں کو ٹیکنیشن، مترجم اور مالیاتی معاون بھرتی کیا گیا۔
اگرچہ انہوں نے اس وقت باضابطہ چینی زبان نہیں سیکھی تھی تاہم وہ چینی میں "بھائی” کہنا جانتے تھے۔ جیسے جیسے سینو ہائیڈرو کے پاکستانی منصوبوں میں توسیع ہوئی یہ تینوں منیجر بن گئے اور کمپنی کا بہترین غیرملکی ملازمین ایوارڈ حاصل کیا۔
سینو ہائیڈرو نے کروٹ پن بجلی گھر منصوبے کی تعمیر میں بھی حصہ لیا۔ 720 میگاواٹ کی مجموعی صلاحیت کا حامل یہ منصوبہ سی پیک کے تحت پہلا پن بجلی گھر سرمایہ کاری منصوبہ تھا جسے چین ۔ پاکستان مشترکہ اعلامیہ میں بھی شامل کیا گیا۔
سافٹ راک جیولوجی کی مدد سے کمپنی نے بھرائی میں درپیش مسائل پر قابو پایا۔
پاکستانی وزیراعظم شہباز شریف نے 25 مئی 2022 کو زیر تعمیر کروٹ پن بجلی گھر منصوبے کا جائزہ لیکر اسے اعلیٰ معیار کا قرار دیا ۔
شین نے بتایا کہ سینو ہائیڈرو کو پاکستان دفتر 12 برس سے زائد عرصہ ہوچکا ہے اس دوران اس نے مقامی افراد کوسالانہ تقریبا ایک ہزار ملازمتیں فراہم کی ہیں ۔ زیادہ تر پاکستانی ملازمین غیر ہنر مند دیہاتی تھے جنہیں ویلڈنگ ، پیمائش اور اسٹیل کی تصیب کی مہارت سکھائی گئی۔
محمد الیاس نے سب سے پہلے سینو ہائیڈرو حویلی گیس کمبائنڈ سائیکل بجلی گھر فیز 1 فیلڈ پائلنگ منصوبے میں مترجم کی حیثیت سے کام کیا۔ الیاس نے موقع سے بھرپور فائدہ اٹھاتے ہوئے چینی عملے کی بتائی گئی تکنیکی مہارتوں کو سکھانےکیلئے درست ترجمے کیے۔
الیاس نے مقامی افراد، سپلائرز اور متعلقہ صنعتوں کے ساتھ مضبوط تعلقات بنائے۔ انہوں نے کہا کہ میرے فون کی ایڈریس بک میں 500 سے زیادہ رابطہ نمبرز ہیں اور وہ ہرمنصوبے کے لئے وہ اپنے گاؤں والوں کو کام پر بلاتے تھے۔
الیاس نے مزید کہا کہ ہر کوئی ان کے کام سے خوش ہے۔ ان کے دو بھائی چینی کمپنی کے منصوبوں میں کام کررہے ہیں ان کے تین بچے پڑھ رہے ہیں۔ وہ بھی اپنے خوابوں کی یونیورسٹی میں تعلیم حاصل کرنے اور مستقبل میں چینی کمپنیوں کے ساتھ کام کرنے کا ارادہ رکھتے ہیں۔