چل اُڑ جا رے پنچھی کہ اب یہ دیس ہوا بیگانہ‘ والدہ کی اب کبھی سیاسی واپسی نہیں ہو گی، سجیب واجد
ڈھاکہ: بنگلہ دیش کی مستعفی وزیراعظم شیخ حسینہ واجد کے بیٹے اور سیاسی مشیر سجیب واجد جوئے نے کہا ہے کہ ان کی والدہ بہت مایوس ہوئی ہیں اور اب کبھی بھی ان کی سیاست میں واپسی نہیں ہو گی۔
برطانوی ٹیلی ویژن کو دیے گئے ایک انٹرویو میں شیخ حسینہ واجد کے بیٹے جو ان کے سرکاری طور پر سیاسی مشیر بھی ہیں، نے کہا کہ ان کی والدہ کو اس بات پر سب سے زیادہ مایوسی ہوئی ہے کہ انہوں نے اس ملک کے لیے بہت کچھ کیا لیکن اس کے باوجود ’ایک اقلیت ان کے خلاف اٹھ کھڑی ہوئی‘۔
سجیب واجد جوئے نے کہا کہ ان کی والدہ شیخ حسینہ واجد اتوار سے ہی استعفیٰ دینے پر غور کر رہی تھیں، پیر کو انہوں نے بالآخر استعفیٰ دے دیا اور اپنے اہل خانہ کے اصرار کے بعد اپنی حفاظت کے لیے ملک چھوڑ کر چلی گئی ہیں۔
سجیب واجد جوئے نے اقتدار میں اپنی ماں کے ریکارڈ کا دفاع کرتے ہوئے کہا کہ ان کی والدہ نے بنگلہ دیش کا رخ موڑ دیا تھا، جب انہوں نے اقتدار سنبھالا تو بنگلہ دیش کو ایک ناکام ریاست سمجھا جاتا تھا۔ یہ ایک غریب ملک تھا ان کے اقتدار میں آنے کے بعد بنگلہ دیش کو ایشیا کے ابھرتے ہوئے ٹائیگرز میں سے ایک سمجھا جاتا تھا، لیکن آج وہ بہت مایوس ہیں۔
سجیب واجد جوئے نے ان الزامات کو مسترد کر دیا کہ حکومت نے مظاہرین سے نمٹنے میں سخت رویہ اختیار کیا ہے، انہوں نے کہا کہ مظاہرین نے پولیس اہلکاروں کو ڈنڈوں سے پیٹ پیٹ کر ہلاک کیا – جب آپ پولیس پر حملہ آور ہوں گے انہیں ماریں گے تو واپس آپ پولیس سے کیا توقع رکھ سکتے ہیں۔
وزیر اعظم شیخ حسینہ واجد کا سیاست سے کنارہ کشی اختیار کرنے کا فیصلہ ملک کے سیاسی منظر نامے میں ایک اہم تبدیلی کی علامت سمجھا جا رہا ہے۔
بنگلہ دیش کے آرمی چیف جنرل وقارالزمان نے ملک میں عبوری مخلوط حکومت کا اعلان کرتے ہوئے کہا ہے کہ یہ حکومت سیاسی جماعتوں کی شرکت سے تشکیل پائے گی۔ اس سے قبل میڈیا نے خبر دی تھی کہ حسینہ واجد کی جلاوطنی میں حکومت بنانے کا امکان ہے۔
واضح رہے کہ شیخ حسینہ واجد نے پیر کو اپنی حکومت کے خلاف ملک گیر پر تشدد مظاہروں اور احتجاج کے بعد وزیراعظم ہاؤس چھوڑ دیا تھا اور بعد ازاں وہ بھارت فرار ہو گئیں تھیں۔ بنگلہ دیش کی فوج نے ایک عبوری حکومت تشکیل دینے کے منصوبے کا اعلان کیا ہے جس میں سیاسی جماعتیں شامل ہوں گی جھڑپیں ہوئی ہیں۔
اتوار کو پر تشدد مظاہروں میں کم از کم 95 افراد ہلاک ہوئے جن میں 14 پولیس افسران بھی شامل تھے، مخالف فریق لاٹھیوں اور چاقوؤں سے لڑ رہے تھے اور سیکیورٹی فورسز نے رائفلوں سے فائرنگ کی ، جس کے بعد جولائی میں مظاہروں کے آغاز سے اب تک ہلاک ہونے والوں کی تعداد کم از کم 300 ہو گئی ہے۔