ہمیں ہر قیمت پر آئی ایم ایف اور مغرب کی غلامی سے نکلنا ہوگا: مفتی تقی عثمانی
کراچی :معروف عالم دین مفتی تقی عثمانی نے کہا ہے کہ ہم پر سیاسی غلامی مسلط ہے، ہم آئی ایم ایف کے بغیر نہیں چل سکتے، ایسے میں معاشرے کے مختلف طبقات مل بیٹھ کر حل نکالیں کہ ہم اس غلامی سے کیسے نکل سکتے ہیں۔
کراچی میں پریس کانفرنس کرتے ہوئے معروف عالمی دین مفتی تقی عثمانی نے کہا کہ انگریز جو ریلوے لائن ڈال کرگئے، اس کے بعد کوئی لائن نہیں ڈالی گئی، جھیل سیف الملوک کے راستے کو آج تک پکا نہیں کرسکے،سوال یہ ہے کہ کون سی قدرتی دولت ہمارے پاس موجود نہیں؟ سوال یہ ہے کہ غلطی کہاں ہوئی، جڑ کہاں ہے؟
مفتی تقی عثمانی نے کہا کہ سیاسی سطح پر ہم پر غلامی مسلط ہے، ہم آئی ایم ایف کے بغیر نہیں چل سکتے، ہم مغرب کی سپورٹ کے بغیر نہیں چل سکتے، سیاسی نظام کی وجہ سے ملک میں اسلامی نظام کو لانا بڑا مشکل لگ رہا ہے لیکن کیا ہم مایوس ہوجائیں کہ چونکہ ہمارا سیاسی نظام ابتر ہے، لہذا ہم ہاتھ پر ہاتھ دھرے بیٹھ جائیں۔
انہوں نے کہا کہ دنیا میں انقلاب آتے ہیں تو وہ صرف حکومت کے ذریعے نہیں آتے، وہ عوام کے ذریعے آتے ہیں، جب عوام اور معاشرے کے مختلف طبقات یہ طے کرلیں کہ ہم نے آزاد ہونا ہے تو سیاست مجبور ہوکر، گھٹنے ٹیک کر آزاد ہوجائے گی۔
انہوں نے کہا کہ ہم ابھی تک اس انتظار میں ہیں کہ سیاسی نظام میں کچھ بہتری آئے، کوئی اچھی قیادت آجائے جو ہمارے دکھوں کا مداوا کرے، ہمارے تکلیفوں کو دور کرے، الیکشن پہ الیکشن ہوتے جارہے ہیں اور پھر ہر الیکشن میں دھاندلی کے نعرے بلند ہوتے ہیں، پھر الیکشن کا مطالبہ ہوتا ہے، اس صورتحال میں معاشرے کے مختلف طبقات سے کہنا چاہتا ہوں کہ وہ سیاست سے قطع نظر ہوکر ملک و ملت کے مفاد کے لیے اکٹھے ہوں، سوچیں اور سوچ کر حل نکالیں کہ ہم کس طرح اس غلامی سے نکل سکتے ہیں۔
مفتی تقی عثمانی نے کہا کہ آئی ایم ایف سے معاہدہ ہوا ہے، اس کی شرط بھی ہے کہ آپ درآمدات پر پابندی عائد نہیں کرسکتے، لیکن چونکہ ہم غلام ہیں لہٰذا اس کی شرط کو ہم نے مان لیا لیکن عوام پر کونسی پابندی ہے کہ وہ درآمدی اشیا استعمال کریں؟ تاجروں پر کونسی پابندی ہے کہ وہ امپورٹیڈ مصنوعات خریدیں۔
ان کا کہنا تھا کہ اگر یہ تحریک چلائی جائے کہ تاجر حضرات غیر ضروری اور عیاشی والی درآمدی مصنوعات کو اپنے پاس نہیں رکھیں گے، عیاشیوں کی چیزیں درآمد ہو رہی ہیں، بے کار چیزیں امپورٹ ہو رہی ہیں، اور اس میں ہمارا زرمبادلہ خرچ ہو رہا ہے، اگر حکومت کی طرف سے درآمد پر پابندی عائد ہوتی ہے تو عالمی طاقتیں درمیان میں آجاتی ہیں۔