چین کی مدد سے پاکستان میں ثقافتی ورثے کا تحفظ
اسلام آباد(شِنہوا) ضلع مردان میں واقع تخت بھائی میں غیر معمولی طور پر محفوظ اور شاندار خوبصورتی کی حامل قدیم بودھ خانقاہ کی پتھر کی سیڑھیوں پر چڑھتے ہوئے محمد حسن کا ذہن بدھ مت کی تاریخ اور ثقافت سے متعلق سوچ میں غرق تھا۔
پاکستان ثقافتی ورثے سے مالا مال ہے اور تاریخی ثقافتی مقامات کی ایک بڑی تعداد ملک کے مختلف حصوں میں واقع ہے۔ چین اور پاکستان نے دونوں ممالک کے ماہرین آثار قدیمہ اور رضاکاروں کی شمولیت کے ساتھ گارڈینز آف گندھارا پروگرام کے تحت تخت بھائی سمیت دیگر ثقافتی آثار کے مقامات کو محفوظ بنانے کے لیے بھرپور کوششیں کی ہیں۔
گارڈین آف گندھارا پروگرام کے تحت شروع کی گئی ہیریٹیج کنزرویشن کلاسز کے 13 سالہ طالب علم کا کہنا ہے کہ ہر دو ہفتے بعد میں یہاں کم از کم 50 طلبا کے ساتھ بدھ خانقاہ، سٹوپا، اس دور کے بادشاہوں اور ان کی رہائشی سہولیات کے بارے میں جاننے کے لیے آتا ہوں۔ ہمارے اساتذہ ہمیں مختلف شہروں میں دوسرے عجائب گھر بھی لے کر گئے ہیں جہاں ہمیں تہذیبوں اور تاریخی مقامات کے بارے میں بتایا گیا۔
اس کا کہنا تھا کہ چین کی مدد سے، ہم آنے والی نسلوں کے لیے اپنے ثقافتی ورثے کو محفوظ بنائیں گے کیونکہ یہ مقامات ہماری تاریخ، برادری اور شناخت سے جڑے ہوئے ہیں۔
ایک اور طالبہ طاہرہ نے کہا کہ قدیم بادشاہوں کی کہانیاں بہت دلچسپ ہیں۔ آثار قدیمہ کی یہ جگہ اہم معلومات فراہم کرتی ہے کہ تقریبا 2 ہزار سال پہلے لوگ کس طرح رہتے تھے، عبادت کرتے تھے اور تعلیم حاصل کرتے تھے یہ کافی دلکش ہے۔
خیبرپختونخوا کے ڈائریکٹوریٹ آف آرکیالوجی اینڈ میوزیم کے کنزرویشن اسسٹنٹ معاذ علی نے شِنہوا سے گفتگو کرتے ہوئے کہا کہ مختلف تعلیمی منصوبوں کا بنیادی مقصد آثار قدیمہ کے قریب رہنے والے مقامی لوگوں کو پاکستان کے تاریخی ورثے کے مقامات کے بارے میں آگاہ کرنا اور ثقافتی ورثے کے ساتھ ان کا تعلق دوبارہ استوار کرنا ہے۔
انہوں نے کہا کہ خاص طور پر، نوجوان نسل پر گندھارا کے تحفظ کی ذمہ داری ہے کیونکہ وہ مستقبل میں پاکستان کے ان اہم آثار قدیمہ کے مقامات کو محفوظ کرنے میں پیش پیش ہوں گے۔
ان کے مطابق پاکستان اور چین کی ٹیمیں مل کر پاکستان میں آثار قدیمہ کے مختلف مقامات کی بحالی پر کام کر رہی ہیں، انہوں نے مزید کہا کہ تحفظ کے کام کے مزید آثار قدیمہ کی نشاندہی کی جا رہی ہے۔
انہوں نے کہا کہ کئی مقامات پر بحالی کے کام کے ساتھ سیاحوں کی تعداد، خاص طور پر چینی اور جاپانی سیاحوں کی تعداد میں گزشتہ برسوں میں اضافہ ہوا ہے۔ "ہزاروں سیاح حال ہی میں تاریخی مقامات کا دورہ کر رہے ہیں، جس سے پاکستان کے سیاحتی شعبے اور قومی ترقی کی رفتار میں تیزی آئی ہے۔
چین کے ثقافتی ورثے کی ریاستی انتظامیہ اور پاکستان کے قومی ورثہ اور ثقافت ڈویژن نے آثار قدیمہ، ثقافتی ورثے کے تحفظ و بحالی، نمائش کے تبادلوں اور نوادرات کی غیر قانونی اسمگلنگ کو روکنے کے لیے مفاہمت کی یادداشت پر دستخط کیے ہیں۔
خیبرپختونخوا کے آثار قدیمہ اور عجائب گھروں کے ڈائریکٹر عبدالصمد نے شِنہوا کو بتایا کہ چین نے ہمیشہ جو کہا اسے کرکے دکھایا ہے ایشیا میں ثقافتی ورثے کے تحفظ کے لیے اس کا عزم عملی ہے، چین پاکستانی ماہرین آثار قدیمہ کے ساتھ جدید ٹیکنالوجی کے استعمال سے آثار قدیمہ کے مقامات کو محفوظ اور بحال کرنے کے لیے تعاون کر رہا ہے۔
انہوں نے کہا کہ پاکستان کو ثقافتی ورثے کے مقامات کے تحفظ کے لیے چین کے ساتھ تعاون کو مزید مضبوط بنانے دونوں ممالک کی یونیورسٹیوں اور ثقافتی ورثے کے اداروں کے درمیان علمی تعاون کو برقرار رکھنے اور مشترکہ سائنسی اور تکنیکی تحفظ کے اقدامات شروع کرنے کی ضرورت ہے۔
صمد کا کہنا تھا کہ ثقافتی ورثے میں چینی تعاون اور پاکستان سمیت مختلف ممالک کے ساتھ تبادلے کے پروگرام مثالی ہیں، انہوں نے مزید کہا کہ دنیا کی مختلف تہذیبوں میں بقائے باہمی کے لیے چین کے موثر اقدامات نے دنیا کے لیے مثال قائم کی ہے۔
شنگھائی اکیڈمی آف فائن آرٹس کے ایسوسی ایٹ پروفیسر اور گارڈینز آف گندھارا پروگرام کے ڈائریکٹر چھین ژی گانگ نے شِنہوا کو بتایا کہ چین نے پاکستانی حکومتوں، آثار قدیمہ بیورو، عجائب گھروں اور ورثے کے مقامات کے ساتھ کثیر سطحی تبادلوں پر مبنی تعلقات قائم کیے ہیں۔
پاکستان کے ثقافتی مقامات اور آثار کے تحفظ کے لیے تعاون کے منصوبوں کے حوالے سے انہوں نے بتایا کہ دونوں ممالک کو سیاحت کے بنیادی ڈھانچے کی بہتری، بنیادی دیکھ بھال اور آثار قدیمہ کی کھدائی پر مزید توجہ دینے کی ضرورت ہے۔
انہوں نے کہا کہ اس کے علاوہ ثقافتی ورثے کی ڈیجیٹلائزیشن، مشترکہ سائنسی تحقیقی منصوبوں کے ساتھ ساتھ ثقافتی ورثے کی تعلیم اور ثقافتی تبادلوں کی مستقبل میں مزید حوصلہ افزائی کی جائے گی۔