چین -روس تعلقات کا صحیح راستہ ، شورش زدہ دنیا کے لیے روشن خیالی لایا ہے، چینی میڈیا
بیجنگ :
چین کے صدر شی جن پھنگ نے بیجنگ میں روسی صدر ولادیمیر پیوٹن سے بات چیت کی۔ دونوں رہنماؤں نے سفارتی تعلقات کے قیام کے بعد سے گزشتہ 75 سالوں کے دوران چین اور روس کے کامیاب تجربات کا جامع خلاصہ پیش کیا، دوطرفہ تعلقات اور مشترکہ تشویش کے اہم بین الاقوامی اور علاقائی امور پر تفصیلی تبادلہ خیال کیا اور مشترکہ طور پر دوطرفہ تعاون کے لئے ایک نیا خاکہ تیار کیا۔ چین اور روس نے ایک مشترکہ بیان جاری کیا اور تعاون کی متعدد دستاویزات پر دستخط کیے، جس سے دوطرفہ تعلقات کی گہرائی میں مزید اضافہ ہوا ہے۔
چین-روس تعلقات کی اپنی خصوصیات ہیں۔دونوں ممالک سرد جنگ کے دور کے فوجی و سیاسی اتحاد سے آگے بڑھ کر بین الاقوامی برادری کے لئے ایک نئی طرز کے بین الاقوامی تعلقات کی مثال قائم کرتے ہوئے،افراتفری سے دو چار دنیا میں قابل قدر استحکام لائے ہیں۔ دونوں فریق "عدم وابستگی، عدم محاذ آرائی اور کسی تیسرے فریق کو نشانہ نہ بنانے” کے اصول پر عمل پیرا ہیں۔
سنہ 2013 سے اب تک چین اور روس کے سربراہان مملکت 40 سے زائد مرتبہ ملاقات کر چکے ہیں۔ دونوں ممالک کے رہنماؤں کی اسٹریٹجک رہنمائی میں دوطرفہ تعلقات تاریخ کی بلند ترین سطح پر پہنچ گئے ہیں۔ چین -روس تعاون کی کامیابی کی کلید یہ ہے کہ دونوں ہمیشہ پرامن بقائے باہمی کے پانچ اصولوں کو آگے بڑھاتے ہیں ، ایک دوسرے کا احترام کرتے ہیں ، ایک دوسرے پر مساوی بنیادوں پر اعتماد کرتے ہیں ، ایک دوسرے کے خدشات کا خیال رکھتے ہیں اور حقیقی معنوں میں دونوں فریقوں کی ترقی اور احیا کے لئے باہمی مدد فراہم کرتے ہیں – یہ تجربات، جو تاریخی دانش مندی کا احاطہ کرتے ہیں،انہوں نے چین – روس تعلقات کے آگے بڑھنے کی سمت کی نشاندہی کی ہے اور یہ شورش زدہ دنیا میں روشن خیالی بھی لائے ہیں۔
تاریخ پر نظر ڈالیں تو معلوم ہوتا ہے کہ بڑی طاقتیں ایک دوسرے کے ساتھ کیسے مل جاتی ہیں، یہ ہمیشہ ایک مشکل مسئلہ رہا ہے۔ اس وقت بعض مغربی ممالک ‘عظیم طاقتوں کے مقابلے’ اور دنیا میں تقسیم و محاذ آرائی کو ہوا دینے پر تلے ہوئے ہیں۔ اس کے برعکس چین- روس تعلقات کی پائیدار اور مستحکم ترقی سے ظاہر ہوتا ہے کہ بڑی طاقتیں،مضبوط دوطرفہ تعلقات کے ذریعے دنیا میں ترقی، تعاون اور سلامتی لانے کا صحیح راستہ تلاش کر سکتی ہیں۔
اس وقت دنیا افراتفری کا شکار ہے اور اکثر و بیشتر علاقائی تنازعات سامنے آتے رہتے ہیں۔ اقوام متحدہ کی سلامتی کونسل کے مستقل ارکان کی حیثیت سے چین اور روس دونوں اقوام متحدہ کے ساتھ ر بین الاقوامی قانون پر مبنی بین الاقوامی نظام کی مضبوطی سے حمایت کرتے ہیں نیز حقیقی کثیر الجہتی کی وکالت کرتے ہیں۔ تجزیہ کاروں نے نشاندہی کی ہے کہ بین الاقوامی میدان میں چین اور روس کے درمیان قریبی ہم آہنگی اور تعاون بعض مغربی طاقتوں کی تسلط پسندانہ کارروائیوں کو روکنے اور دنیا کو بلاک تصادم میں پڑنے سے روکنے کے لیے سازگار ہے۔ یہ "گلوبل ساؤتھ” کی ترقی کو بھی فروغ دے گا ، جو عالمی گورننس کو بہتر بنانے اور عالمی امن و ترقی کے تحفظ کے لیے بہت اہمیت کا حامل ہے۔