فیصلے میں غلطی ہوئی تو اصلاح کریں گے، ڈنڈے اٹھا کر فساد پھیلانے سے بہتر ہے مناسب طریقہ اختیار کیا جائے، چیف جسٹس
اسلام آباد(نیوزڈیسک)سپریم کورٹ نے مبارک احمد کی ضمانت کے فیصلے کے خلاف نظرثانی درخواستوں کی سماعت کے دوران تمام درخواست گزار علماء سے 2 ہفتے میں تحریری رائے طلب کر لی، چیف جستس قاضی فائز عیسیٰ کا کہنا تھا کہ اگر عدالت سے فیصلے میں غلطی ہوئی ہے تو اصلاح کریں گے، ڈنڈے اٹھا کر فساد پھیلانے سے بہتر ہے مناسب طریقہ اختیار کیا جائے۔
تفصیلات کے مطابق چیف جسٹس قاضی فائز عیسیٰ کی سربراہی میں سپریم کورٹ کے 3 رکنی بینچ نے مبارک احمد کی ضمانت سے متعلق فیصلے پر نظرثانی کی درخواستوں کی سماعت کی۔
چیف جسٹس کا کہنا تھا کہ فریق بنائے بغیر بھی تمام علماء کی رائے کو سنا جائے گا، اگر عدالت سے فیصلے میں غلطی ہوئی ہے تو اصلاح کریں گے۔
عدالت نے تمام درخواست گزار علماء سے 2 ہفتے میں تحریری رائے طلب کرتے ہوئے واضح کیا کہ علماء اپنی رائے عدالتی فیصلے میں اٹھائے گئے نکات تک محدود رکھیں، مقررہ وقت کے بعد آنے والی آراء کو شمار نہیں کیا جائے گا۔
سماعت کے دوران ریمارکس دیتے ہوئے چیف جسٹس قاضی فائزعیسیٰ کا کہنا تھا کہ سول مقدمات میں متعلقہ افراد کو فریق بنایا جا سکتا ہے، فوجداری مقدمات میں فریق صرف مدعی، ملزم اور حکومت کی بنا سکتے ہیں، فریق بنائے بغیر بھی تمام علماء کی رائے کو سنا جائے گا، اگر عدالت سے فیصلے میں غلطی ہوئی ہے تو اصلاح کریں گے، ڈنڈے اٹھا کر فساد کرنے سے بہتر ہے مناسب طریقہ اختیار کیا جائے۔
جسٹس قاضی فائز عیسیٰ کا مزید کہنا تھا کہ شرعی معاملہ ہے غور و فکر کیساتھ چلنا چاہتے ہیں، علماء سے قانونی رائے نہیں لیں گے کیونکہ قانون ہم زیادہ جانتے ہیں، شریعت میں علماء کا علم ہم سے زیادہ ہے اس پر رہنمائی لیں گے، انہوں نے اس ضمن میں مسلمان کی تعریف دریافت کرتے ہوئے کہا کہ عدالتی فیصلے میں صورت الاحزاب کی آیت 40 کا حوالہ دیا گیا ہے۔
رکن اسلامی نظریاتی کونسل کا موقف تھا کہ قرآن پاک کی صرف ایک آیت سے مفہوم نہیں نکالا جا سکتا، جس پر چیف جسٹس نے کہا کہ آئین میں جو تعریف مسلمان کی لکھی گئی ہے اس کے پابند ہیں، کسی کو آئین پر اعتراض ہے تو پارلیمنٹ سے ترمیم کروا لے، آئین میں ترمیم کرنا ہمارا مینڈیٹ نہیں ہے۔
درخواست گزار علماء کی جانب سے موقف اپنایا گیا کہ آئین میں لکھے گئے الفاظ پر اعتراض نہیں۔
چیف جسٹس قاضی فائز عیسیٰ نے ریمارکس دیے کہ مزید سماعت علماء کی رائے جاننے کے بعد ہوگی۔
مقدمہ کا پس منظر
سپریم کورٹ نے 6فروری کو احمدی کمیونٹی سے تعلق رکھنے والے فرد مبارک احمد ثانی کو ضمانت پر رہا کرنے کا حکم دیا تھا جس پر مذہبی تنظیموں کی جانب سے شدید ردِ عمل سامنے آیا تھا، جبکہ سوشل میڈیا پر چیف جسٹس قاضی فائز عیسیٰ کے خلاف نفرت انگیز مہم بھی چلائی گئی۔
سپریم کورٹ نے گزشتہ ماہ سماعت کے دوران اسلامی نظریاتی کونسل اور جامعہ نعیمیہ سے معاونت طلب کرتے ہوئے قرآن اکیڈمی کراچی اور جمعیت اہلحدیث کو بھی حکم نامے کی کاپی ارسال کرنے کا حکم دیا تھا۔
سپریم کورٹ نے اپنے حکم نامے میں کہا تھا کہ کوئی اسلامی اسکالر یا کوئی بھی ذمے دار شخص عدالت کی معاونت کرنا چاہے تو کر سکتا ہے۔
اصل مقدمہ کیا تھا؟
چھ دسمبر 2022 کو پنجاب کے شہر چنیوٹ کے تھانہ چناب نگر میں تحفظ ختم نبوت فورم کے سیکریٹری جنرل محمد حسن معاویہ کی مدعیت میں احمدیہ جماعت سے تعلق رکھنے والی ایک خاتون سمیت 5 افراد کے خلاف مقدمہ درج کیا گیا تھا۔
ایف آئی آر میں مدعی کے مطابق 7 مارچ 2019 کو مدرستہ الحفظ عائشہ اکیڈمی کی سالانہ تقریب کے دوران مبینہ طور پر تحریف شدہ قرآن کی تفسیر ’تفسیرِ صغیر‘ طلباء میں تقسیم کی گئیں۔
مدعی کے مطابق ممنوعہ تفسیر کی تقسیم کا یہ عمل آئین کے آرٹیکل 295 بی، 295 سی اور قرآن ایکٹ کی خلاف ورزی ہے جب کہ مدعی نے اپیل کی تھی کہ تقریب کے منتظمین اور تحریف شدہ قرآن تقسیم کرنے والوں کیخلاف کارروائی کی جائے۔