چین، بیجنگ میں سبز شہر کی تعمیر جاری
بیجنگ ()
بہار کے موسم میں "20 منٹس ان دی پارک” تھیوری چینی سوشل نیٹ ورکس پر مقبول ہو رہی ہے۔ "20 منٹس ان دی پارک ” تھیوری کا مطلب ہے کہ اگر لوگ پارک میں جاتے ہیں اور 20 منٹ ٹھہرتے ہیں، چاہے وہ کچھ نہ بھی کریں، تو بہت سی پریشانیاں دور ہوتی ہیں اور جسم و ذہن کو فائدہ ہوتا ہے۔
یہ تخیلاتی بات نہیں ہے۔ درحقیقت،جسمانی اور ذہنی صحت کے لیے جنگلات میں جانا بہت سے ممالک میں ایک مقبول رجحان بن چکا ہے۔ تحقیق سے ثابت ہوا ہے کہ جنگلات میں ذہنی تناؤ کم ہوتا ہے، بلڈ پریشر نارمل رہتا ہے اور دل کے دورے کا خطرہ بھی کم ہوتا ہے۔ شہر کے باسیوں کے لیے قدرتی جنگلات میں جانا تھوڑا مشکل کام ہے۔ لیکن درختوں سے بھرے پارکس سب سے قریبی جنگل سمجھے جا سکتے ہیں۔
اعداد و شمار سے پتہ چلتا ہے کہ دنیا کی نصف سے زیادہ آبادی شہری علاقوں میں رہتی ہے، اور یہ تناسب 2050 تک تقریباً 70 فیصد تک بڑھنے کی توقع ہے۔ شہروں میں جنگلات شہری باشندوں کی جسمانی اور ذہنی صحت کے لیے بہت اہم ہیں۔ اس مقصد کے لیے بیجنگ نے سبز شہر کی تعمیر جاری رکھی ہوئی ہے، جسے "قومی جنگلاتی شہر” کا نام دیا گیا ہے۔ فی الحال، شہر میں 1,065 پارکس ہیں، اور جنگلات کی کوریج کی شرح 2012 میں 38.6 فیصد سے بڑھ کر 44.8 فیصد ہوگئی ہے۔88 فیصد آبادی کے لیے 500 میٹر کے اندر پارکس موجود ہیں اور شہریوں کی سبز ماحول کی ضروریات کی مؤثر طریقے سے ضمانت دی گئی ہے۔
جسمانی اور ذہنی صحت کے علاوہ، جنگلات انسانوں کو خوراک، توانائی، پناہ گاہ اور دوا جیسی براہ راست روزی روٹی فراہم کرتے ہیں۔ جنگلات حیاتیاتی تنوع کے تحفظ اور موسمیاتی تبدیلیوں کا مقابلہ کرنے میں بھی اہم کردار ادا کرتے ہیں۔ تاہم کٹائی کی وجہ سے ہر سال 10 ملین ہیکٹر جنگل ختم ہو جاتے ہیں اور لگ بھگ 70 ملین ہیکٹر جنگل آگ سے متاثر ہوتے ہیں۔ اس لیے ہر سال 21 مارچ کو جنگلات کا عالمی دن منایا جاتا ہے تاکہ لوگوں کو جنگلات کی حفاظت کی یاد دلائی جا سکے۔
2024 میں جنگلات کے عالمی دن کا تھیم "جنگلات اور اختراع – ایک بہتر دنیا کے لیے اختراعی حل” ہے۔ اقوام متحدہ کی فوڈ اینڈ ایگریکلچر آرگنائزیشن نے ایک ویڈیو جاری کی جس میں اس بات پر زور دیا گیا کہ جنگلات کی کٹائی کے رجحان کو ریورس کرنے کے لیے نئی تکنیکی ترقی کی ضرورت ہے۔ویڈیو میں کہا گیا ہے کہ ابتدائی انتباہی نظام کو مضبوط بنانے، لکڑی کی پائیدار پیداوار کو فروغ دینے اور نقشہ سازی اور موسمیاتی مالیات کے ذریعے مقامی لوگوں کو بااختیار بنانے کے لیے تکنیکی جدت اہم ہے۔ "جنگلات اور درختوں سے پیدا ہونے والے مواد کو پلاسٹک، تعمیراتی مواد، کپڑے، ادویات اور بہت سی چیزوں میں تبدیل کیا جا رہا ہے ۔اس کے ساتھ ،تیزی سے ترقی کرنے والی ڈرون اور سیٹلائٹ ٹیکنالوجیز جنگلات کی نگرانی اور ان کا انتظام کرنے، آگ کا پتہ لگانے اور بجھانے اور ماحولیاتی نظام کی حفاظت میں ہماری مدد کر رہی ہیں۔ اختراعات جنگلات کی پائیدار بحالی، تحفظ، انتظام اور استعمال میں مدد کرتی ہیں۔”
درحقیقت، فطرت اور جنگلات کی حفاظت تمام ممالک کے لوگوں کی مشترکہ کوشش بن گئی ہے، جو مختلف تہذیبوں کے درمیان افہام و تفہیم کے لیے توانائی بھی فراہم کرتی ہے۔ پاکستان کے شکرپریاں پارک میں ایک "دوستی کا جنگل "ہے۔ جنگل میں زیادہ تر درخت پاکستان کے دورے پر آئے ہوئے غیر ملکی سربراہان نے لگائے ہیں۔ ان میں سے ایک درخت چین کے پہلے وزیر اعظم مرحوم چو این لائی نے فروری 1964 میں اپنے دورہ پاکستان کے دوران لگایا تھا جو چین اور پاکستان کے درمیان سدا بہار دوستی کی علامت بن گیا ہے۔ چین اور پاکستان کے سفارتی تعلقات کے قیام کی 70ویں سالگرہ کے موقع پر دونوں ممالک کی مشترکہ طور پر تیار کردہ اینیمیشن "اللھیار و افسانہ مارخور” بھی جنگل کی کہانی بیان کرتی ہے۔فلم میں اللھیارنامی ایک لڑکا ایک مارخور کو بچا کر اس کو گھر لے جاتا ہے۔ فلم میں دیکھا جا سکتا ہے کہ جنگلی حیات کی حفاظت اور جنگلاتی ماحولیات کی نگرانی چین اور پاکستان کے مشترکہ تصورات ہیں۔ درحقیقت، چین اور پاکستان ٹراپیکل خشک اقتصادی جنگلات ، جنگلات کی کٹائی کو کنٹرول کرنےاور جنگلاتی وسائل کے پائیدار انتظام کے لیے اختراعی حل تلاش کررہے ہیں اور موسمیاتی تبدیلیوں سے نمٹنے میں مشترکہ کوشش کر رہے ہیں۔