پاکستان چینی گلوبل ڈیولپمنٹ انیشی ایٹو کی حمایت کرنے والے ابتدائی ممالک میں شامل
گزشتہ جولائی میں بیجنگ میں ہونے والے گلوبل فورم فار شیئرڈ ڈیولپمنٹ ایکشن کے پہلے اعلیٰ سطحی اجلاس کے نام اپنے تہنیتی خط میں چینی رہنما شی جن پھنگ نے کہا: "میں نے پائیدار ترقی کے لیے اقوام متحدہ کے 2030 کے ایجنڈے پر عمل درآمد کو تیز کرنے میں مدد کے لیے گلوبل ڈیولپمنٹ انیشی ایٹو پیش کیا ہے۔ مجھے یہ دیکھ کر خوشی ہوئی ہے کہ تمام فریقین کی شرکت سے گلوبل ڈیولپمنٹ انیشی ایٹو کے حوالے سے تعاون نے اہم ابتدائی نتائج حاصل کیے ہیں جس سے بہت سے ترقی پذیر ممالک مستفید ہوئے ہیں”۔
صدر شی کی تقریر پر ہر جانب سے پرجوش ردعمل سامنے آیا ۔ پاکستان گلوبل ڈیولپمنٹ انیشی ایٹو کی حمایت کرنے والے ابتدائی ممالک اور اس کے گروپ آف فرینڈز میں شامل ہونے والے پہلے ممبروں میں سے ایک تھا۔ ایک پاکستانی ماہر اقتصادیات نے کہا کہ 2023ء چین پاکستان اقتصادی راہداری کے آغاز کی 10 ویں سالگرہ ہے جس سے پاکستان میں بنیادی ڈھانچے کی تعمیر کی سطح میں نمایاں بہتری آئی ہے، معاشی اور سماجی ترقی کو فروغ ملا ہے اور بڑی تعداد میں مقامی سطح پر ملازمتوں کے مواقع پیدا ہوئے ہیں۔ پاکستان اور چین کے درمیان عملی تعاون کے سلسلے کے نتیجہ خیز نتائج برآمد ہوئے ہیں اور مجھے یقین ہے کہ گلوبل ڈیولپمنٹ انیشی ایٹو کے محرک کے تحت پاک چین تعلقات بہتر سے بہتر ہوں گے۔
بانٹنے سے محبت، دنیا سے محبت، اور تمام جانداروں کے لئے ذمہ داری کا احساس،یہ چینی ثقافت کی روایت ہے۔ 5 ہزار سال پرانی چینی ثقافت میں یہ روایت قوم کے خون اور جین میں شامل ہے۔ چینی لوگ اجتماعی مفادات کو اہمیت دینے کے عادی ہیں۔یہ دوسروں کے ساتھ تعاون کرنے کے لئے تیار رہتے ہیں اور باہمی تعلقات کی ہم آہنگی پر زور دیتے ہیں۔انہی خصوصیات نے چینی تہذیب میں پائیدار توانائی پیدا کی ہے.
بین الاقوامی تحفظ امن کے عمل سے لے کر عالمی موسمیاتی تبدیلیوں سے نمٹنے، غربت کے خاتمے تک، ترقی پذیر ممالک کے مفادات کے تحفظ کی سوچ سے لے کر زیادہ منصفانہ بین الاقوامی حکمرانی کے نظام کے فروغ تک، چین ایک بہتر دنیا کے لئے سخت محنت کر رہا ہے اور اس نے کبھی ہمت نہیں ہاری ۔ زمبابوے کے نائب وزیر خارجہ موسیبیانا نے کہا تھا کہ افریقہ میں ایک کہاوت ہے کہ ‘اکیلے سفر تیز ہو سکتا ہے،لیکن ساتھ چلنے سے دور تک جایا جا سکتا ہے’۔ چین اس سوچ کی وکالت کرتا ہے کہ ترقی کی راہ پر کسی بھی ملک کو پیچھے نہیں چھوڑنا چاہیے ۔ چین نہ صرف یہ کہتا ہے بلکہ کرتا بھی ہے۔ چین نے دنیا کے لئے اپنی ذمہ داری کا مظاہرہ کرتے ہوئے دوسرے ممالک کو بروقت اور بے لوث مدد فراہم کی ہے۔ ہمیں یقین ہے کہ چین عالمی ترقیاتی تعاون کو فروغ دینے میں بڑا کردار ادا کرے گا۔
ایک ایسے وقت میں جب دنیا میں” یکطرفہ پسندی "عروج پر ہے اور کثیر الجہتی عالمی گورننس کو چیلنجز کا سامنا ہے، لوگ اس بات سے زیادہ بخوبی آگاہ ہیں کہ تضادات اور اختلافات کو حل کرنے کے لئے مشاورت اور تعاون ہی صحیح راستہ ہے۔ جب تک ہم ایک دوسرے کے ساتھ برابری کا سلوک کرتے رہیں اور ایک دوسرے کے سامنے جھکتے رہیں تب تک کوئی ایسا مسئلہ نہیں ہے جو حل نہ ہو سکتا ہو ۔ ہمیں کھلے پن کے ذریعے ترقی حاصل کرنے پر زور دینا چاہئے، "علیحدگی” کے بجائے "ہاتھ تھامنے” پر زور دینا چاہئے، اور "دیواروں کی تعمیر” کے بجائے "دیواروں کو توڑنے” پر زور دینا چاہئے۔ ہمیں انسانیت کے ہم نصیب معاشرے کے تصور کو برقرار رکھنا ہوگا، ہر ملک کے جائز خدشات اور ترقیاتی حقوق کا احترام کرنا ہوگا، مسابقت اور محاذ آرائی کی سوچ سے باہر نکلنا ہوگا، تبادلوں اور جیت جیت والے تعاون کا سب سے بڑا مشترکہ نقطہ تلاش کرنا ہوگا، اور اپنی ترقی، مشترکہ خوشحالی اور عالمی امن و ترقی کے لئے مل کر کام کرنا ہوگا۔
"”تمام چیزوں کی تفہیم اور مطالعہ کے ذریعے ہی سے ہم علم حاصل کرسکتے ہیں، علم حاصل کرنے کے بعد ہی ہم اپنے خیالات میں مخلص ہوسکتے ہیں ،صرف اپنے ذہن کے مخلص ہونے کے بعد ہی ہم اپنے جسم اور دماغ کو پروان چڑھا سکتے ہیں، جب ہم اپنے جسم اور دماغ کو پروان چڑھا تے ہیں تو ہی ہم اپنے اپنے خاندان کو اچھی طرح سے سنبھال سکتے ہیں ،اپنے خاندان کو اچھی طرح سے منظم کرنے کے بعد ہی ہم ملک پر اچھی طرح سے حکمرانی کرسکتے ہیں اور صرف ملک پر اچھی طرح سے حکمرانی کرنےکے بعد ہی ہم دنیا میں امن قائم کرسکتے ہیں”۔ مختصر الفاظ میں کہیں تو ، اپنے آپ سے محبت کرو، دنیا سے محبت کرو. یہ قدیم زمانے سے فرد اور ملک کے درمیان قریبی تعلقات کے بارے میں چینی قوم کی تفہیم ہے ، اور یہ چینی رہنماؤں کی طرف سے پیش کردہ گلوبل ڈویلپمنٹ انیشی ایٹو ، گلوبل سیکیورٹی انیشی ایٹو اور گلوبل سولائزیشن انیشی ایٹو کا ثقافتی منبع بھی ہے۔ چین کی قدیم دانش مندی ،عالمی امن، ترقی، تعاون اور جیت جیت کے نتائج کے تاریخی رجحان کے مطابق ہے، اور دنیا ایک "نجی میز” نہیں ہے جس پر یکطرفہ طور پر چند سپر پاورز کا غلبہ ہو ، بلکہ یہ ایک کھلا اسٹیج ہے جہاں تمام ممالک منصفانہ طور پر مقابلہ کرسکتے ہیں اور ذمہ داریاں اور خوشحالی بانٹ سکتے ہیں.