چین پاک اقتصادی راہداری ۔مستقبل کی تصویر

 

آج پوری دنیا میں بیلٹ اینڈ روڈ اینیشی ایٹو کے حوالے سے کامیابیوں اور  دنیا کو اس سے ملنے والے فوائد کے بارے میں بات کی جا رہی ہے ۔اس سال اکتوبر کے مہینے میں بی آر آئی فورم میں بھی دنیا کے کئی ممالک کے سربراہان نے اس منصوبے کے گزشتہ دس سالوں کی کامیابیوں کا ذکر کیا اور آنے والے دس سالوں کے لئے لائحہ عمل پر بھی بات کی۔پاکستان اس منصوبے سے براہ راست فائدہ اٹھانے والے اولین ممالک میں سے ایک ہے جہاں چین پاک اقتصادی راہداری نے توانائی ،بنیادی ڈھانچے ،تعلیم،ذراعت ، صحت اور مواصلات کے شعبوں میں نمایاں حصہ ڈالا اور پاکستان کے ان شعبوں میں مسائل کو کسی حد تک کم کیا۔اکتوبر 2023 میں ہی بی آر آئی فورم میں شرکت کے لیے آئے پاکستانی وزیر اعظم  انوار الحق کاکڑ اور ان کے ساتھ وفد میں شامل مختلف وزاررتوں کے وزرا ء نے ہر فورم اور ہر اجلاس میں اس  نکتے کو دہرایا کہ پاکستان میں سی پیک کے پہلے مرحلے میں بنیادی ڈھانچے کی تعمیر کے بعد اب وہ وقت ہے کہ وسائل سے فائدہ اٹھایا جائے اور ملکی تجارت  سمیت تمام اہم شعبہ جات کو سی پیک سے مربوط کیا جائے ۔ ماہرین کا کہنا ہے کہ 10 سال کی نتیجہ خیز  کامیابیوں کے بعد توقع ہے کہ چین پاکستان اقتصادی راہداری اگلے مرحلے میں پاکستان اور چین دونوں کے عوام کے لئے زیادہ نتیجہ خیز اور فائدہ مند ثابت ہوگی۔

گلوبل سلک روٹ ریسرچ الائنس کے بانی چیئرمین اور بیجنگ میں قائم سینٹر فار چائنا اینڈ گلوبلائزیشن کے نان ریزیڈنٹ فیلو ضمیر احمد اعوان  اس حوالے سے کہتے ہیں کہ جدت طرازی، ڈیجیٹل معیشت اور ماحول دوست ترقی اہم ہوگی۔ ساتھ  ہی سپلائی چین کے استحکام  پر اس منصوبے سے اثر پڑے گا جو اگلی دہائی میں پاکستان کی علاقائی اور عالمی حیثیت کو مزید مستحکم کرے گا۔

2013 میں شروع ہونے والا سی پیک چین کی جانب سے تجویز کردہ بیلٹ اینڈ روڈ انیشی ایٹو کے تحت ایک فلیگ شپ منصوبہ ہے۔ یہ پاکستان کی جنوب مغربی گوادر بندرگاہ کو شمال مغربی چین کے سنکیانگ ویغور خود   اختیا ر علاقے   کے شہر کاشغر سے جوڑتا ہے، جس میں توانائی، نقل و حمل اور صنعتی تعاون پر توجہ مرکوز کی جاتی ہے۔

سال 2023 میں  اس منصوبے کے پہلے دس سال مکمل ہونے پر کئی تقریبات کا  انعقاد ہوا ۔اسی سلسلے میں  31 جولائی کو پاکستان اور چین نے سی پیک کی تعمیر کو وسعت دینے اور اسے  تیز کرنے پر اتفاق کیا۔ سرکاری دستاویزات کے مطابق سی پیک کے دوسرے مرحلے میں زراعت، سائنس اور ٹیکنالوجی، اہلکاروں کی تربیت، جدت طرازی، صحت اور تعلیم پر زیادہ توجہ دی جائے گی تاکہ پاکستان کی "سافٹ پاور” کو بڑھایا جا سکے۔

گزشتہ دہائی کی کامیابیوں اور تجربے کی بنیاد پر ماہرین کو توقع ہے کہ سی پیک کا دوسرا مرحلہ پاکستان اور پورے خطے کی اقتصادی ترقی میں نئی رفتار لائے گا۔

یہ بھی توقع ہے کہ ڈیجیٹل انفراسٹرکچر کی تعمیر، ڈیجیٹل ڈیولپمنٹ اور ڈیجیٹلائزڈ صنعتوں  میں چین کے وسیع تجربے سے پاکستان کے لیے  کی ایک بڑی تعداد میں  مواقع کھل جائیں گے ۔لہٰذا سی پیک کے تحت چین کے ساتھ دوطرفہ تعاون کو گہرا کرنے سے صنعتی اور سپلائی چین کے آپریشنز کو نمایاں فروغ ملے گا۔پاکستان میں ایشین انسٹی ٹیوٹ آف ایکو سولائزیشن ریسرچ اینڈ ڈیولپمنٹ کے سی ای او شکیل احمد رامے کا خیال ہے کہ  سی پیک سے جنوبی ایشیائی ممالک میں رابطوں میں مزید بہتری آئے گی اور اس منصوبے کی مدد سے پاکستان گوادر بندرگاہ کے فوائد کو مؤثر طریقے سے استعمال کر کے خود کو علاقائی رابطے کے مرکز میں تبدیل  کر سکتا ہے ۔اس سلسلے میں پاکستان نے پہلے ہی  گوادر بندرگاہ اور گوادر ہوائی اڈے کے زیادہ سے زیادہ فوائد حاصل کرنے کے لئے وسطی ایشیائی ممالک کے ساتھ معاہدوں پر دستخط  کر رکھے ہیں ۔ مزید  یہ کہ پاکستان، افغانستان اور ازبکستان نے علاقائی رابطوں کو بڑھانے کے لئے گوادر کو جوڑنے والی ریلوے  کی تعمیر پر بھی اتفاق کر رکھا ہے ۔چین نے پاکستان بھر میں پن بجلی کے منصوبوں اور ونڈ فارمز کی تعمیر میں مدد کی ہے، جو پاکستان کی معیشت کی پائیدار ترقی کو فروغ دیتے ہیں اور  پاکستان  کے ماحول  کی حفاظت کرتے ہیں ۔

اس میں کوئی شک نہیں کہ پاکستان کے ٹرانسپورٹ نیٹ ورک میں 2500 کلومیٹر سے زائد موٹر ویز اور نیشنل گرڈ میں 10 ہزار میگاواٹ بجلی پیدا کرنے کی صلاحیت سمیت  سی پیک نے پاکستانی معیشت میں اہم کردار ادا کیا ٓہے  اور ساتھ ہی غربت میں کمی،روزگار میں اضافے اور قومی جی ڈی پی کو بہتر بنانے میں مدد ملی ہے اور پاکستان میں زراعت، صنعت اور صحت کے شعبوں کو بھی فائدہ ہوا ہے۔یوں یہ کہا جاسلتا ہے کہ یہ  منصوبہ جسے  چین پاک اقتصادی راہداری  کے نام سے جاتا ہے ،نہ صرف یہ کہ چین پاک تعاون  اور دوستی کی اعلی ترین شکل ہے بلکہ پاکستان کی معیشت  اور اس کے مستقبل کے لیے ناگزیر ہے ۔

Comments (0)
Add Comment