اسلام آباد: سپریم کورٹ میں سیاستدانوں کی تاحیات نااہلی کی مدت کے تعین سے متعلق کیس کی براہ راست سماعت نمازجمعہ کے وقفہ تک ملتوی کردی گئی۔
چیف جسٹس قاضی فائز عیسیٰ کی سربراہی میں 7 رکنی بنچ معاملے کی سماعت کررہا ہے جبکہ جسٹس منصور علی شاہ، جسٹس یحییٰ آفریدی، جسٹس امین الدین خان، جسٹس جمال مندوخیل، جسٹس محمد علی مظہر اور جسٹس مسرت ہلالی بھی 7 رکنی لارجر بنچ کا حصہ ہیں ۔عدالتی کارروائی سپریم کورٹ کی ویب سائٹ پر براہ راست دکھائی جارہی ہے۔
دورانِ سماعت چیف جسٹس پاکستان قاضی فائز عیسیٰ نے کہا کہ ہم نے فیصلہ کیا ہے کہ انتخابات سے متعلق انفرادی کیس ہم نہیں سنیں گے، ہم آئینی تشریح سے متعلق کیس کو سنیں گے، انتخابات سے متعلق انفرادی کیس اگلے ہفتے کسی اور بنچ میں لگا دیں گے۔
جہانگیر ترین کے وکیل مخدوم علی خان نے دلائل کا آغاز کر دیا، جسٹس منصور علی شاہ نے جہانگیر ترین کے وکیل سے سوال کیا کہ آپ کے مطابق نااہلی کا ڈیکلیریشن سول کورٹ سے آئے گا؟
وکیل مخدوم علی خان نے جواب دیا کہ جی، ڈکلیریشن سول کورٹ سے آئے گا، سول کورٹ کے فیصلے پر کسی کا کوئی بنیادی آئینی حق تاحیات ختم نہیں ہوتا، کامن لاء سے ایسی کوئی مثال مجھے نہیں ملی، کسی کا یوٹیلیٹی بل بقایا ہو اور وہ ادا ہو جائے تو وہ اہل ہو جاتا ہے۔
جسٹس محمد علی مظہر نے سوال کیا کہ آرٹیکل 62 ون ایف انتخابات سے پہلے لگ سکتا ہے یا بعد میں بھی لگ سکتا ہے؟
وکیل مخدوم علی خان نے جواب دیا کہ آرٹیکل 62 اور 63 کو ملا کر پڑھیں تو انتخابات سے پہلے ہی نااہلی ہوتی ہے۔
چیف جسٹس پاکستان قاضی فائز عیسیٰ نے کہا کہ پاکستان کی تاریخ دیکھیں کہ 62 ون ایف کی نااہلی جیسی ترامیم کب لائی گئیں؟ آئین میں اس قسم کی ترامیم ایوب خان کے دور میں شروع ہوئیں اور آگے چلتی گئیں، پاکستان کی تاریخ کو فراموش نہیں کیا جا سکتا، ہم نے نااہلی کیس میں پبلک نوٹس جاری کیا مگر کوئی ایک سیاسی جماعت فریق نہیں بنی، پاکستان کے عوام کا کسی کو خیال نہیں ہے، ملک تباہ کر دیں کچھ نہیں ہوتا، کاغذاتِ نامزدگی میں ایک غلطی تاحیات نااہلی کر دیتی ہے۔
چیف جسٹس نے ریمارکس دیے کہ مخصوص نئی جزئیات داخل کرنے سے کیا باقی حقوق لے لیے گئے؟ ہم پاکستان کی تاریخ کو بھول نہیں سکتے، پورے ملک کو تباہ کرنے والا پانچ سال بعد اہل ہوجاتا ہے۔وکیل مخدوم علی خان نے کہا کہ الیکشن ٹریبونل پورے الیکشن کو بھی کالعدم قرار دے سکتا ہے، الیکشن میں کرپٹ پریکٹس کی سزا دو سال ہے، جس پر جسٹس جمال مندوخیل نے کہا کہ کہ اگر کوئی فراڈ کرتا ہے تو اس کا مخالف ایف آئی آر درج کراتا ہے، کیا سزا تاحیات ہوتی ہے؟
چیف جسٹس نے کہا کہ جب آئین نے خود طے کیا ، نااہلی اتنی ہے تو ٹھیک ہے ، نیب قانون میں بھی سزا دس سال کرائی گئی، آئین وکلاء کیلئے نہیں عوام پاکستان کیلئے ہے، آئین کو آسان کریں، آئین کو اتنا مشکل نہ بنائیں کہ لوگوں کا اعتماد ہی کھو دیں۔
چیف جسٹس نے کہا کہ الیکشن کاغذات میں یہ بھی پوچھا جاتا ہے آپ کے پاس کتنے گرام سونا ہے، آپ گھر جا کر سونا تولیں گے پھر بتائیں گے، آپ اگر وہ انگوٹھی بھول گئے جو بیوی نے پہن رکھی ہے تو تاحیات نااہل ؟ آپ لائیو ٹی وی پر ہیں عوام کے لیے اس کی منطق تو واضح کریں، اگر کوئی سونا چند گرام لکھوائے تو کیا ہوگا۔جسٹس جمال مندوخیل نے کہا کہ لوگوں کو طے کرنے دیں کہ کون سچا ہے کون ایماندار ہے، جسٹس مسرت ہلالی نے کہا کہ ایک مخصوص کیس کے باعث حلقے کے لوگ اپنے نمائندے سے محروم کیوں ہوں۔
جسٹس منصور علی شاہ نے کہا کہ مدت پانچ سال طے کرنے کا معاملہ عدالت آیا، کیا ہم 232 تین کو ریڈ ڈاؤن کرسکتے ہیں، جسٹس جمال مندوخیل نے کہا کہ یہ بہت مشکوک نظریہ ہے۔جسٹس منصور علی شاہ نے کہا کہ کیا عدالت یہ کہہ سکتی ہے کہ پارلیمنٹ 232 تین کو اس طرح طے کرے کہ سول کورٹ سے ڈگری ہوئی تو سزا پانچ سال ہوگی۔
وکیل مخدوم علی خان نے کہا کہ سپریم کورٹ 185 کے تحت اپیلیں سن رہا ہے، 232 تین کو اگلا پارلیمنٹ ختم کرسکتا ہے، عدالت نے طے کرنا ہے کہ سمیع اللہ بلوچ کیس درست تھا یا نہیں، اگر سمیع اللہ بلوچ کیس کالعدم قرار دیا گیا تو قانون کا اطلاق ہوگا۔
جسٹس محمد علی مظہر نے کہا کہ ہم سیکشن 232 دو کو کیسے کالعدم قرار دیں وہ تو ہمارے سامنے ہے ہی نہیں، وکیل مخدوم علی خان نے کہا کہ تاحیات نا اہلی کا اصول عدالتی فیصلے سے طے ہوا، جسٹس یحیٰی آفریدی نے ریمارکس دیے کہ میرے خیال میں فیصلے میں تاحیات کا ذکر نہیں ہے۔وکیل مخدوم علی خان نے کہا کہ فیصلے میں کہا گیا جب تک ڈیکلریشن رہے گا نااہلی رہے گی،جسٹس امین الدین خان نے استفسار کیا کہ اگر عدالت ڈکلیریشن کی ہی تشریح کر دے تو کیا مسئلہ حل ہوجائے گا؟
وکیل مخدوم علی خان نے سوال اٹھایا کہ ماضی کا حصہ بنے ہوئے ڈیکلریشن کا عدالت دوبارہ کیسے جائزہ لے سکتی ہے؟ جو مقدمات قانونی چارہ جوئی کے بعد حتمی ہوچکے انہیں دوبارہ نہیں کھولا جا سکتا۔
خیال رہے کہ عدالت نے فریقین کو نوٹسز جاری کر رکھے ہیں، 2 جنوری کو ہونے والی سماعت پر اٹارنی جنرل سمیت دیگر فریقین کے وکلا عدالت کے سامنے پیش ہوئے تھے۔
گزشتہ سماعت میں چیف جسٹس فائز عیسیٰ نے ریمارکس دیے تھے کہ عدالت کو اس معاملے پر معاونین کی خدمات درکار ہوگی، ہم میڈیا یا سوشل میڈیا کو کنٹرول نہیں کر سکتے، موجودہ کیس سے یہ تاثر نہ لیا جائے کہ عدالت کسی مخصوص جماعت کی حمایت کر رہی ہے، ایک آئینی مسئلہ ہے جس کو ایک ہی بار حل کرنے جا رہے ہیں۔دوران سماعت چیف جسٹس آف پاکستان نے ریمارکس دیئے کہ آمروں نے صادق اور امین والی شرط اپنے لیے کیوں نہ ڈالی؟۔
چیف جسٹس نے مزید ریمارکس دیے تھے کہ کوشش ہوگی کہ 4 جنوری کو کیس کی سماعت مکمل کریں، مشاورت کے بعد عدالتی معاون بھی مقرر کر سکتے ہیں، بعد ازاں سماعت 4 جنوری (آج) تک ملتوی کردی گئی تھی۔