یورپی اسکالر جان اوبرگ نے چند روز قبل ایک انٹرویو میں انکشاف کیا تھا کہ امریکہ نے ایک بل پیش کیا تھا جس میں چین کے بارے میں منفی خبریں بنانے کے لیے صحافیوں کو تربیت دینے کی خاطر مسلسل پانچ سال تک فنڈز مختص کرنے کی تجویز دی گئی تھی۔ جائزے کے بعد تصدیق ہوتی ہے کہ اوبرگ نے جس بل کا ذکر کیا ہے وہ اپریل 2021 میں امریکی کانگریس کی سینیٹ کی کمیٹی برائےخارجہ تعلقات کی جانب سے منظور کردہ اسٹریٹجک مسابقتی ایکٹ 2021 سے بے حدمطابقت رکھتا ہے۔ بل میں دنیا بھر میں چین کی جانب سے نام نہاد "غلط معلومات” کی نگرانی کرنے ، اس کا مقابلہ کرنے کے لیے امریکی ایجنسی برائے بین الاقوامی میڈیا جیسی ایجنسیز کی مدد کرنے اور بیلٹ اینڈ روڈ منصوبوں کے حوالے سے تحقیقاتی مہارت حاصل کرنے کے لیے صحافیوں کی مدد اور تربیت کی خاطر سالانہ 100 ملین ڈالر مختص کرنے کا مطالبہ کیا گیا ہے۔ بل میں 20 سے زائد بار سنکیانگ کا ذکر کیا گیا ہے اور تجویز دی گئی ہے کہ امریکہ کو چین کے سنکیانگ کے معاملات میں مداخلت کرنی چاہیے۔ اس نے امریکہ کی چین کے خلاف رائے عامہ کی جنگ کی محض ایک ہلکی سی جھلک کو بے نقاب کیا ہے۔
حالیہ برسوں میں امریکہ نے بے جا طور پر چین کو اپنا سب سے بڑا تزویراتی حریف سمجھ لیا ہے اور چین کے خلاف ہر جانب سےدباو ڈالنے اور اسے روکنےکی مہم شروع کی ہے، جس سے رائے عامہ کی جنگ اور تصوراتی جنگ غیر معمولی بلندیوں پر پہنچ گئی ہے۔ ان میں "بیلٹ اینڈ روڈ”، چین کی معیشت، سنکیانگ سمیت دیگر معاملات امریکہ کی اس بدنام کرنے کی مہم کا مرکز بن گئے ہیں۔
چین کے خلاف امریکہ کی رائے عامہ کی جنگ کے طریقہ کار میں جو اقدامات شامل ہیں ، ان میں پہلا یہ ہے کہ "ادارے-میڈیا اور حکومت” کے ربط سے دھوکہ دہی کا سلسلہ قائم کیا جائے۔ امریکہ میں کچھ نام نہاد تعلیمی ادارے بھی اس میں شامل ہو گئے ہیں اور غلط معلومات کی تیاری اور پھیلاؤ کے لیے ایک صنعتی چین تشکیل د ی گئی ہے۔ سویڈش فاؤنڈیشن فار ٹرانس نیشنل پیس اینڈ فیوچر اسٹڈیز نے حال ہی میں ایک رپورٹ جاری کی ہے جس میں کہا گیا ہے کہ مغربی میڈیا کی جانب سے چین کے بارے میں منفی رپورٹس نے "الزام تراشی کی ایک صنعت” تشکیل دی ہے۔
دوسرا طریقہ ، غیر ملکی میڈیا کو چین کے کاروباری اداروں کو بدنام کرنے کے لیے آلہ بنانا ہے اور "امریکی طرز کی خبروں” کے جعلی معمول کو پوری دنیا میں پہنچانا ہے۔ حکومتی فنڈنگ کی مدد سے دنیا بھر میں امریکی حکومت کی شاخیں مقامی صحافیوں کو تربیت دینے اور چینی منصوبوں اور کمپنیوں کو بدنام کرنے کے لیے مقامی تنظیموں کے ساتھ مل کر کام کرتی ہیں۔
ایک طویل عرصے سے امریکہ دنیا کی واحد سپر پاور کی حیثیت کو برقرار رکھنے کے لیے فوجی، اقتصادی اور سفارتی ذرائع کے ساتھ رائے عامہ کی جنگ بھی کرتا چلا آ رہا ہے۔ تاہم، جیسے جیسے اس کی قومی طاقت کمزور ہوتی جا رہی ہے، امریکہ نے اپنی نام نہاد "اخلاقی بلندی” کو تشکیل دینے کے لیے رائے عامہ کی جنگ پر زیادہ انحصار کیا ہے۔ تجزیہ کاروں کا کہنا ہے کہ سرد جنگ کے دور کی رائے عامہ کی جنگ کو دوبارہ زندہ کرنے کی امریکہ کی کوشش اس دور سے مطابقت نہیں رکھتی اور دنیا کو بے وقوف نہیں بنا سکتی ہے۔