اسلام آباد:پاکستانی روپے کی قدرگزشتہ 7 سال سے مسلسل گر رہی ہے، سال 2023 میں بھی یہ سلسلہ برقرار رہا۔
عالمی حالات، بیرونی ادائیگیوں کا دباؤ، ملکی سیاسی صورتحال اور زرمبادلہ کی قلت روپے کو سال کے دوران گرانے کی وجوہات رہیں۔
اس کے علاوہ آئی ایم ایف کی شرح تبادلہ مارکیٹ کے ذریعے متعین کرنے کی شرط، حکومت نے زرمبادلہ بچانے کے لیے درآمدات کو کنٹرول کیا اور اوپن مارکیٹ میں 500 ڈالر کی خریداری کو دستاویزی ثبوت سے مشروت کیا۔
لیکن ان کوششوں کے باوجود سال کے آغاز پر 226 روپے میں مل رہا ڈالر جون تک 286 روپے کا ہوچکا تھا۔ کنٹرول کی وجہ سے گرے مارکیٹ الگ قائم ہوگئی۔ جہاں ڈالر ملکی انٹر بینک اور اوپن مارکیٹ سے زیادہ مہنگا تھا اور جو آفیشل مارکیٹ کے ڈالر بھاؤ پر اثر انداز ہو رہی تھی۔
نگران حکومت آنے کے بعد انٹربینک میں ڈالر ریکارڈ 307 روپے اور اوپن مارکیٹ کا بھاؤ 328 روپے ہوا لیکن پھر حکومت اور سرکاری اداروں کی انتطامی کوششوں نے روپے کی گرتی قدر کو بحال کیا۔
سرحد پر کرنسی کی اسمگلنگ کو روکا گیا، غیر قانونی کاروبار کرنے والی ایکسچینج کمپنیوں کے خلاف کارروائی کی گئی، بی ایکسچینج کمپنیوں کو ختم کردیا گیا۔
سال کا اختتام انٹربینک میں ڈالر 281 روپے اور اوپن مارکیٹ میں 283 روپے پر کیا ہے۔
اگرچہ سال کی بلند ترین شرح تبادلہ سے اختتامی قیمت کم ہے لیکن ایک سال میں ڈالر 55 روپے مہنگا ہوکر 281 روپے کا ہوگیا ہے۔ سال کے دوران روپے کی قدر ڈالر کے مقابلے میں 20 فیصد گری ہے۔
سال کے دوران روپے کی قدرمیں 20 فیصد کمی،10سالوں کی سالانہ 8 فیصد اور 5 سالوں کی سالانہ 13 فیصد اوسط سے بہت زیادہ ہے۔