ایبٹ آباد کی تاریخی ساہنی حویلی کی داستان

نواں شہر، ایبٹ آباد کا قدیم قصبہ ہے جہاں جابجا تاریخی عمارتیں واقع ہیں۔انہی عمارتوں میں سے ایک ساہنی حویلی بھی ہے جو اپنی خستہ حالی کا نوحہ سنا رہی ہے۔
نواں شہر قصبہ ہزارہ کا ایک تاریخی رہائشی علاقہ ہے جو صدیوں سے اہم تجارتی گزرگاہ شاہراہ ریشم کے کنارے پر آباد ہے۔ تقسیم ہند سے قبل اس قصبے میں ہندو مسلم ساتھ رہتے تھے۔
نواں شہر میں واقع ساہنی حویلی 1947 میں ہجرت کرجانے والے ہندو تاجر خاندان کی ملکیت تھی۔ ہندوؤں کی اکثریت بااثر اور صاحب ثروت تھی۔ نواں شہر کے قدیم بازار سے جب اندر داخل ہوں تو پرانے محلے میں ایک وسیع رقبے پر محیط ساہنی حویلی ہے جس کا کچھ حصہ اب بھی بہتر حالت میں ہے جبکہ عمارت کا بیشتر حصہ حوادث زمانہ کا شکار ہوکر منہدم ہو چکا ہے۔
تاریخ کے پروفیسر قیصر الیاس کہتے ہیں کہ دستیاب دستاویزی شواہد کے مطابق نواں شہر میں ہندو کمیونٹی سکھ راج کے دوران ہزارہ کے تربیلا علاقے سے ہجرت کر کے آئی تھی۔ سکھ راج ہزارہ میں انیسویں صدی کے ابتدا میں شروع ہو کر برطانویوں کی آمد تک باقی رہا۔
ایبٹ آباد کے ہندو مسلم تعلقات پر ریسرچ اسکالر بلال بصیر کے تحقیقی مقالے کے مطابق ساہنی حویلی، صاحبِ ثروت لالا سکھدیال شاہ ساہنی نے سن 1900 کے ابتدائی دور میں تعمیر کروائی تھی۔ لالا سکھدیال کا تعلق لالا تیرتھ رام یعنی بابو ایشر داس کے خاندان سے تھا۔
جامعہ ہزارہ کے آرکیالوجی ڈیپارٹمنٹ کی تحقیق کے مطابق 123 سال گزر جانے کے باوجود عمارت کا بچ جانے والا پُرشکوہ حصہ اس کی اعلیٰ تعمیر اور مالک کے متمول ہونے کا ثبوت ہے۔
قیصر الیاس کے مطابق ساہنی حویلی بڑی شہرت حاصل کر چکی تھی اور یہاں کے سب سے خوبصورت عمارتوں میں سے ایک شمار ہوتی تھی۔ اس میں ہندو طرز تعمیر کی خصوصیات پائی جاتی ہے، جیسے شاندار آتش دان اور خوبصورتی سے تیار کیے گئے دروازے وغیرہ۔
حویلی کی تعمیر کے لیے کشمیر اور سرحد (موجودہ پختونخوا) سے ماہر کاریگر بلوائے گئے جنہوں نے عمارت کے دروازوں اور بالکونی میں لکڑی کا خوبصورت کام کرکے اسے چار چاند لگا دیے۔
ضرورت اس امر کی ہے کہ اس طرح کی تاریخی عمارتوں کو قومی ورثہ قرار دیکر حکومت اپنی سرپرستی میں لے اور ان کی تزئین و آرائش کے ساتھ ساتھ مستقل بنیادوں پر دیکھ بھال کا انتظام کرے تاکہ تاریخی ورثے کو ضائع ہونے سے بچایا جا سکے۔

Comments (0)
Add Comment