آسٹریلیا کے خلاف پرتھ ٹیسٹ میں عامر جمال اپنے ڈیبیو میچ میں 5 وکٹیں لینے والے 14 ویں پاکستانی بولر بن گئے ہیں۔
پی سی بی کے مطابق اس میچ میں عامر جمال چھ وکٹیں حاصل کر کے پاکستان کی ٹیسٹ تاریخ میں ڈیبیو میچ میں بہترین کارکردگی دکھانے والے چھٹے بولر بھی بن گئے ہیں۔
اس سے قبل 1964 میں عارف بٹ نے ڈیبیو کرتے ہوئے آسٹریلیا کے خلاف 89 رنز کے عوض چھ وکٹیں حاصل کی تھیں۔
اُوبر چلانے سے کرکٹر بننے تک کا سفر
شاندار کارکردگی پر پاکستان کرکٹ بورڈ (پی سی بی) کی جانب سے شیئر کیے جانے والے ایک انٹرویو میں عامر کا کہنا تھا کہ ’زندگی میں کوئی شارٹ کٹ نہیں، ایک خاص عمل ہوتا ہے جس سے سب کو گزرنا پڑتا ہے اور اس کے بعد ہی کوئی شخص اپنی کامیابیوں کی صحیح معنوں میں قدر کرتا ہے۔‘
کرکٹ کیریئر میں اپنی جدوجہد کا ذکر کرتے ہوئے عامر نے بتایا کہ ’میں نے 2014 میں انڈر 19 کھیلنے کے بعد چار سال تک کوئی خاطر خواہ کرکٹ نہیں کھیلی۔ مجھے صرف چند سیزنز میں گریڈ 2 کے چند میچ ملے۔ میں کسی ایسے شخص کی دعوت پر آسٹریلیا گیا جو ہمارے کلب میں کھیلنے آئے تھے۔ وہ میرے کام سے متاثر ہوئے اور مجھے سپانسر شپ کی پیشکش کی۔
’آسٹریلیا میں سیزن کے دوران مجھے پاکستان کے آنے والے انڈر 23 دورے کے بارے میں معلوم ہوا اور میں فوری طور پر واپس آ گیا کیونکہ میں پاکستان سے اپنی محبت کو نہیں چھوڑ سکتا تھا۔‘
عامر نے کہا کہ ’میں نے آنے والے گریڈ 2 سیزن میں اپنا آپ منوانے کی امیدیں باندھ رکھی تھیں، لیکن مجھے کسی بھی طرف سے منتخب نہیں کیا گیا۔ اس لیے میں نے بینک لیز پر ایک کار خریدی اور اپنے آپ کو رائیڈ ہیلنگ سروسز کے ساتھ رجسٹر کروایا کیونکہ مجھے اپنا گھر بھی چلانا تھا۔ مجھے میرے گھر والوں کی طرف سے بھی زیادہ تعاون حاصل نہیں تھا اس لیے اب مجھے کما کر اپنا گھر چلانا تھا اور اپنی ٹریننگ کو وقت دینا تھا۔‘
عامر جمال نے بتایا ’دو سال تک فجر کی نماز کے فوراً بعد میں آن لائن آتا تھا اور کام شروع کر دیتا تھا۔ صبح پانچ سے ساڑھے دس بجے تک جب لوگ دفاتر، کالجوں اور یونیورسٹیوں کو جاتے تھے تو میں اپنی پہلی شفٹ کرتا تھا، جس کے بعد دو گھنٹے تک بغیر کسی آرام کے بولنگ کرتا تھا۔ تھوڑا کھانا کھانے کے بعد جو بھی وقت ملتا میں بیٹنگ اور فیلڈنگ کرتا تھا۔ دوپہر کے قریب تین بجے سے شام سات بجے تک، میں اپنی دوسری شفٹ کے لیے آن لائن ہو جاتا تھا۔ سات کے بعد، میں جم کے لیے ایک گھنٹہ نکالتا تھا، اس کے بعد میری تیسری شفٹ ہوتی تھی جو آدھی رات تک جاری رہتی تھی۔‘
عامر نے مزید بتایا کہ ’اس جدوجہد نے مجھے وقت کی پابندی سکھائی اور میں نے چیزوں کی قدر کرنا شروع کی۔ جب آپ محنت کرنے اور خود کماتے ہیں تو آپ چیزوں کی قدر کرتے ہیں۔‘
عامر جمال کے کیرئر پر ایک نظر
میانوالی سے تعلق رکھنے والے 26 سالہ عامر جمال نے پروفیشنل کرکٹ کا آغاز اسلام آباد سے کیا۔ نارتھ زون سے کیریئر کی ابتدا میں ہی اتار چڑھاؤ دیکھے۔ 2015 میں پاکستان انڈر 19 کرکٹ کھیلنے کے بعد عامر جمال ابتدا میں کلب کرکٹ کی سیاست کی نذر بھی ہوئے۔
اسلام آباد میں ہاکس کرکٹ کلب کی نمائندگی کرنے والے عامر جمال کو قریبی ساتھیوں نے اسلام آباد سے کرکٹ چھوڑ دینے کا مشورہ بھی دیا۔
عامر جمال نے فرسٹ کلاس کرکٹ میں پاکستان ٹیلی ویژن کی 2018 کے سیزن میں نمائندگی کی جس کے بعد وہ کرکٹ کھیلنے برطانیہ چلے گئے۔
برطانیہ میں کلب کرکٹ کھیلنے کے بعد ان کے کھیل میں مزید نکھار آیا اور وہ کشمیر پریمئیر لیگ کے سیلکٹرز کی توجہ حاصل کرنے میں کامیاب ہوئے۔
عامر جمال پشاور زلمی کے لیے بطور ریزرو کھلاڑی کے طور پر بھی پاکستان سپر لیگ کا حصہ رہے ہیں۔
وہ وسیم اکرم کو اپنا پسندیدہ کھلاڑی سمجھتے ہیں۔
عامر جمال نے 2019 میں سری لنکا کے دورہ پاکستان کے وقت بطور نیٹ بولر پاکستان ٹیم کے ساتھ کام کیا تھا۔