ترقی پسند، انسانی حقوق کے علمبردار اور اُردو کے عہد ساز شاعر فیض احمد فیض کو مداحوں سے بچھڑے 39 برس گزر گئے۔
چلی ہے رسم کہ کوئی نہ سر اٹھا کے چلے،،،،،،،، انقلاب کو موتیوں کی خوبصورت لڑی میں پرونے والے فیض احمد فیض 13 فروری 1911ء میں سیالکوٹ میں پیدا ہوئے، انہوں نے اردو کو بین الاقوامی سطح پر روشناس کرایا اور انہی کی بدولت اردو شاعری سربلند ہوئی۔
نقش فریادی، دست صبا، زنداں نامہ، دست تہ سنگ، سروادی سینا، شام شہریاراں اورمیرے دل میرے مسافر فیض احمد فیض کے کلام کے مجموعے ہیں، انہوں نے نثر میں بھی میزان، صلیبیں مرے دریچے میں، متاع لوح و قلم، ہماری قومی ثقافت اور ماہ و سال آشنائی جیسی یادگار کتابیں چھوڑیں۔
ترقی پسند شاعر فیض احمد فیض براعظم ایشیا کے وہ واحد شاعر ہیں جنہیں روس کی جانب سے لینن امن ایوارڈ سے بھی نوازا گیا،انہوں نے ساری زندگی ظلم، بے انصافی اور جبر و استبداد کے خلاف جدوجہد کی اور ہمیشہ شاعر کا منصب بھی نبھایا ان کی فکر انقلابی مگر لہجہ غنائی تھا۔
فیض احمد فیض نے انقلابی فکر اور عاشقانہ لہجے کو ایسا آمیز کیا کہ اردو شاعری میں ایک نئی جمالیاتی شان پیدا ہوگئی اور ایک نئی طرز فغاں کی بنیاد پڑی جو انہی سے منسوب ہو گئی، وہ 20 نومبر 1984ء کو اپنے خالق حقیقی سے جا ملے، فیض احمد فیض کی انقلابی سوچ آج بھی زندہ ہے۔