بیجنگ :
گوادر بندرگاہ "بیلٹ اینڈ روڈ” کے سلسلے میں چین پاکستان اقتصادی راہداری کا ایک علامتی منصوبہ ہے۔ ہفتہ کے روز چا ئنہ میڈ یا گروپ نے ایک رپورٹ میں کہا ہے کہ ماہی گیروں کے ایک چھوٹے سے گاؤں سے ایک جدید بندرگاہ تک، گوادر بندرگاہ کی ترقی اور تبدیلیوں نے چین اور پاکستان کے لوگوں کو حیران کر دیا ہے۔
دس سال کی تعمیر و ترقی کے بعد، گوادر بندرگاہ مکمل سہولیات اور آسان نقل و حمل کے حامل ایک علاقائی لاجسٹک مرکز اور صنعتی اڈے میں تبدیل ہوگئی ہے۔ خیال رہے کہ گوادر بندرگاہ کی تعمیر سے نہ صرف مقامی اقتصادی ترقی کو موثر انداز میں فروغ ملا ہے بلکہ بالواسطہ یا بلاواسطہ دو لاکھ سے زائد افراد کو روزگار بھی ملا ہے۔
مقامی نوجوان ماجد عیسی علی نے دو سال قبل گوادر پورٹ آپریٹر چائنا پورٹ کنٹرول گروپ میں شمولیت اختیار کی تھی۔ انہیں یہ کام بہت پسند تھا۔وہ اپنی پیشہ ورانہ صلاحیتوں کو مسلسل بڑھاتے رہے اور اب وہ چائنا پورٹ کنٹرول کے کمرشل کنٹریکٹ ڈپارٹمنٹ کے اسسٹنٹ جنرل منیجر ہیں ۔ماجد عیسی کا کہنا ہے کہ گوادر پورٹ کی تعمیر سے مقامی لوگوں کی زندگیوں میں زبردست تبدیلیاں آئی ہیں۔ چین کی طرف سے تعمیر کئے جانے والے بنیادی ڈھانچے کی ترقی سے مقامی برادریوں کو جو فوائد حاصل ہوئے ہیں وہ طویل مدتی اسٹریٹجک اہمیت کے حامل ہیں۔ مثال کے طور پر چائنا پاکستان فرینڈشپ ہسپتال کو لے لیجیے۔ اس ہسپتال کے بعد لوگوں کو علاج کے لیے اب سیکڑوں کلومیٹر کے سفر کی ضرورت نہیں ہے کیوں کہ یہاں اعلیٰ معیار کی طبی سہولیات میسر ہیں۔ اسی طرح چائنا پاکستان ووکیشنل اینڈ ٹیکنیکل کالج کے قیام سے مقامی افراد کو جدید ٹیکنالوجی اور ہنر سیکھنے کا موقع ملا ہے جس سے انہیں گوادر پورٹ اور فری زون میں روزگار مل سکے گا ۔
ماجد عیسی کہتے ہیں کہ وہ گوادر بندرگاہ کے روشن مستقبل کے بارے میں بہت پرامید ہیں ۔ گزشتہ ایک دہائی کے دوران چین پاکستان اقتصادی راہداری اور بیلٹ اینڈ روڈ انیشی ایٹو کے تناظر میں گوادر بندرگاہ میں حیران کن تبدیلیاں آئی ہیں۔ انہوں نے کہا کہ مجھے پختہ یقین ہے کہ اگلی دہائی امن، خوشحالی اور ترقی کی دہائی ہوگی۔ گوادر بندرگاہ مکمل بنیادی ڈھانچے کے ساتھ عملی خدمات انجام دے رہی ہوگی اور چین کے تعاون سے تعمیر کردہ بنیادی ڈھانچے سے ارد گرد کے عام عوام مستفید ہوں گے ۔ "