بی آر آئی کی ایک دہائی:چینی صدر کا عالمی چیلنجز سے نمٹنے کا منصوبہ
بیجنگ(شِنہوا) وبا کے بعد 2023 کے دوران سفارتی سرگرمیوں میں ہلچل دیکھی گئی جس سے مغربی میڈیا یہ کہنے پر مجبور ہوگیا تھا کہ تمام راستے بیجنگ کی طرف جارہے ہیں۔
زیادہ دور کی بات نہیں۔ رواں ہفتے، 140 سے زائد ممالک کے نمائندے بیلٹ اینڈ روڈ منصوبے (بی آر آئی) کی 10ویں سالگرہ کے موقع پر منعقد ہونے والی تقریبات کے تحت ایک اعلیٰ سطحی فورم میں شرکت کے لیے چینی دارالحکومت میں اکٹھے ہوں گے۔
2013 میں، چینی صدر شی جن پھنگ نے سلک روڈ اکنامک بیلٹ اور 21ویں صدی کی میری ٹائم سلک روڈ کی تعمیر کی تجویز پیش کی تھی جو بعدازاں پچھلی دہائی میں عالمی تعاون کے لیے صدر شی کے مجوزہ بی آر آئی منصوبے کے نام سے معروف ہوئے۔
یہ منصوبہ تاریخی شاہراہ ریشم کے تصور سے مستعار لیا گیا ہے، جہاں اونٹوں کے قافلے اور تجارتی کارواں مشرق اور مغرب کے درمیان سامان اور خیالات کے تبادلے کو فروغ دیتے تھے۔
پہلی بار بی آر آئی کی نقاب کشائی کے وقت یورپ قرضوں اور مالیاتی بحرانوں کی وجہ سے کساد بازاری سے دوچار تھا، جب کہ امریکہ مالیاتی بحران کے بعد کی مشکلات اور افغانستان میں جنگ کی پیچیدگیوں سے گزر رہا تھا۔
بی آر آئی کو دنیا کو درپیش سنگین چیلنجزسے نمٹنے کے لیے صدر شی جن پھنگ کے ردعمل کے طور پر دیکھا جاتا ہے۔ انہوں نے ایک بار کہا تھا کہ عالمی ترقی کو نئے محرکات کی ضرورت ہے، ترقی کو زیادہ جامع اور متوازن ہونے کے ساتھ امیر اور غریب کے درمیان فرق کو کم کرنے کی ضرورت ہے۔
صدر شی کی خواہش ایک ایسا پلیٹ فارم قائم کرنا تھا جو زیادہ سے زیادہ عالمی رابطوں کو آسان بنائے،جس کی تصدیق ان کے ان الفاظ سے ہوتی ہے کہ "کسی ایک ملک کے لیے اکیلے آگے بڑھنا یا دنیا کو درپیش مسائل کو حل کرنا مشکل ہے۔”
قدیم شاہراہ ریشم کی تاریخی علامت کا استعمال کرتے ہوئے، بی آر آئی دنیا بھر میں رابطوں کے ایک چیمپیئن کی حیثیت سے شریک ممالک کے ساتھ شراکت داری کو مضبوط کررہا ہے۔ گزشتہ دہائی کے دوران، چین نے 150 سے زائد ممالک اور 30 سے زائد بین الاقوامی تنظیموں کے ساتھ 200 سے زائد بی آر آئی تعاون کے معاہدوں پر دستخط کیے ہیں۔ منصوبے کے تحت 3ہزار سے زائد تعاون کے منصوبے شروع کیے گئے ہیں۔