امریکا کی ایک عدالت نے سابق سفیر رچرڈ اولسن کو قطر کو امریکی پالیسی پر اثر انداز ہونے میں مدد کرنے اور ایک امیر شخصیت سے وصول کردہ تحائف کو ظاہر نہ کرنے کے جرم میں تین سال کی پروبیشن سزا اور 93 ہزار 350 ڈالر جرمانہ ادا کرنے کا حکم دیا ہے۔
امریکی میڈیا کے مطابق مجسٹریٹ جج مائیکل ہاروے نے جمعے کو رچرڈ اولسن کے کیس کا فیصلہ سناتے ہوئے کہا کہ اولسن کے جرائم کے لیے بھاری جرمانہ مناسب تھا لیکن انہیں جیل بھیجنے کی ضرورت نہیں۔
عدالت نے انہیں تین سال کی پروبیشن جیل کی سزا سنائی ہے، یعنی وہ جیل نہیں جائیں گے لیکن اس عرصے تک وہ پروبیشن افسر کی نگرانی میں رہیں گے۔
جج نے رچرڈ اولسن کومخاطب کرتے ہوئے کہا کہ "امریکہ کے عوام ایک اعلیٰ سفارت کار سے اعلیٰ رویے کی توقع رکھتے ہیں اور یہ وہ طریقہ نہیں تھا جو آپ نے اپنایا۔”
رچرڈ اولسن پر الزام ہے کہ انہوں 2016 میں محکمۂ خارجہ سے الگ ہونے کے بعد اگلے سال ہی قطری حکومت کی مدد کی جس سے امریکی پالیسی اثر انداز ہوئی۔ یہی نہیں ان پر امریکی تاجر عماد زبیری سے وصول کردہ تحائف ظاہر نہ کرنے کا بھی الزام تھا۔
اس مقدمے کی سماعت کے دوران پراسیکیوٹر نے مؤقف اختیار کیا کہ اولسن نے اپنے غلط کام کو چھپانے کے لیے کئی ای میل ڈیلیٹ کیں اور وفاقی تحقیقاتی ادارے ایف بی آئی سے جھوٹ بھی بولا۔
پراسیکیوٹر کا کہنا تھا کہ رچرڈ اولسن نے کانگریس کے اراکین کو بیرونی ممالک کو ہتھیاروں کی فروخت کی منظوری کے لیے لابی کرنے میں مدد کی اور انہوں نے اس سلسلے میں عماد زبیری کے ساتھ فرسٹ کلاس سفر کا بھی اعتراف کیا تھا۔
پراسیکیوٹر نے جج کے روبرو اس بات پر اصرار کیا کہ رچرڈ اولسن نے اپنے غلط کاموں کے لیے ذمے داری لینے سے انکار کیا ہے اس لیے انہیں جیل بھیجا جائے تاکہ دیگر اعلیٰ سفارت کاروں کو ایک واضح پیغام جانا چاہیے۔
پراسیکیوٹر نے کہا کہ اگر لوگوں کو یہ اجازت دی جائے گی کہ قوانین ان پر اپلائی نہیں ہوتے تو وہ ایسا ہی کریں گے۔
رچرڈ اولسن کے وکیل نے مؤقف اختیار کیا کہ ان کے مؤکل نے سرکاری حیثیت میں عماد زبیری کی مدد کے لیے کبھی کوئی غلط کام نہیں کیا اور استغاثہ غیر ضروری بیانیہ بنا کر حقائق کو بیان کر رہے ہیں۔