بھارتی یورپی اقتصادی راہداری کتنی دور تک جا سکتی ہے؟

 

 

نئی دہلی میں حال ہی میں اختتام پذیر ہونے والے جی 20 سربراہ اجلاس کے دوران ، امریکہ ، بھارت ، سعودی عرب اور یورپی یونین نے انڈیا – مشرق وسطی – یورپ اقتصادی راہداری (آئی ایم ای سی) کی تعمیر کا اعلان کرتے ہوئے مفاہمت کی یادداشت پر دستخط کیے۔ امریکی حکام کے مطابق اس راہداری کا مقصد ریل اور بندرگاہوں کے ذریعے مشرق وسطیٰ ممالک کو بھارت سے جوڑنا اور نقل و حمل کے وقت اور لاگت کوکم کرتے ہوئے خلیجی توانائی کی برآمدات اور تجارت کو بڑھانا ہے۔

اگرچہ آئی ایم ای سی اعلامیہ چین کو نشانہ بنانے کا دعویٰ نہیں کرتا ہے ، لیکن حقیقت یہ ہے کہ چین مفاہمت کی یادداشت پر دستخط کرنے والا فریق نہیں ہے۔ 9 تاریخ کو امریکی صدر کے قومی سلامتی کے مشیر سلیوان کے مطابق اس منصوبے پر بات چیت کا آغاز گزشتہ سال جولائی میں امریکی صدر بائیڈن کے دورہ سعودی عرب کے دوران ہوا تھا۔ بلومبرگ کا کہنا ہے کہ رواں سال جنوری سے امریکہ خاموشی سے بھارت اور مشرق وسطیٰ ممالک کے ساتھ مذاکرات کر رہا ہے۔ دوسری بات یہ ہے کہ امریکہ اور بھارت کی قیادت میں یہ منصوبہ جس میں مشرق وسطیٰ ممالک اور یورپی ممالک کو شامل کیا گیا ہے حالیہ برسوں میں امریکہ کی جانب سے پیش کردہ گلوبل انفراسٹرکچر اینڈ انویسٹمنٹ پارٹنرشپ (پی جی آئی آئی) جیسے اقدامات کا حصہ ہے ، اور پی جی آئی آئی ہی امریکہ کی جانب سے چین کے خلاف ترتیب دیا جانے والا عالمی انفراسٹرکچر منصوبہ ہے

اسی لیے متعدد بین الاقوامی ذرائع ابلاغ نے تجزیہ کیا ہےکہ بائیڈن نے جی 20 اجلاس میں واشنگٹن کو ترقی پذیر ممالک کے شراکت دار اور سرمایہ کار کے طور پر پیش کرکے عالمی بنیادی ڈھانچے کے شعبے میں چین کے "بیلٹ اینڈ روڈ” انیشی ایٹو کا مقابلہ کرنے کی کوشش کی ہے۔

مغربی ذرائع ابلاغ نے چین کی عدم شمولیت کی صورت میں بڑے پیمانے پر بنیادی ڈھانچے کے منصوبوں پر تشویش کا اظہار کیا ہے۔ فنانشل ٹائمز کے مطابق یہ منصوبہ راستے میں سعودی عرب، متحدہ عرب امارات، اردن اور اسرائیل سے گزرے گا لیکن اسرائیل نے سعودی عرب، متحدہ عرب امارات اور اردن کے ساتھ سفارتی تعلقات قائم نہیں کیے ہیں اور بلاشبہ سڑک کی تعمیر کے معاہدے پر دستخط کرنے سے قبل بہت سے پیچیدہ کام کرنے ہوں گے۔ اس کے علاوہ، فنڈنگ اور بنیادی ڈھانچے کا تجربہ بھی منصوبے کے لئے ناگزیر مسائل ہیں.

سب سے پہلے فنڈنگ سے شروع کرتے ہیں. مفاہمت کی یادداشت میں اس منصوبے کے لئے فنڈنگ کے ذرائع واضح نہیں کئے گئے۔ تجزیہ کاروں کا خیال ہے کہ ریلوے اور شپنگ جیسے بنیادی ڈھانچے کی تعمیر کے لئے بڑی ابتدائی سرمایہ کاری درکار ہے اور منافع کے حصول میں بھی ایک طویل عرصہ لگتا ہے ، جس پر امریکہ کی وال اسٹریٹ کو دلچسپی نہیں ہوگی.

حالیہ برسوں میں، امریکی قومی قرضوں میں مسلسل اضافہ ہوتا جا رہا ہے اور قرضوں کی حد کو بار بار ایڈجسٹ کرنا پڑتا ہے. اتنے بڑے منصوبے کے لئے مسلسل بھاری سرمایہ کاری کی ضرورت ہوتی ہے ، اور اگر تعمیراتی فنڈز کے ذرائع واضح نہیں کیے جاتے تو منصوبے پر عمل درآمد دوبارہ "کھوکھلی بیان بازی” ہو سکتی ہے۔ دوبارہ سے مراد یہ ہے کہ اس حوالے سے امریکہ اور مغرب کے پاس "مثالیں” موجود ہیں۔امریکی صدر بائیڈن نے عہدہ سنبھالنے کے بعد امریکہ میں کھربوں ڈالر کے انفراسٹرکچر بل کو بھرپور انداز میں فروغ دینے کی کوشش کی تھی، لیکن اب تک اس کا کوئی نتیجہ سامنے نہیں آیا ہے۔ 2022 کے جی سیون اجلاس میں بائیڈن نے اعلان کیا تھا کہ امریکہ ترقی پذیر ممالک میں بنیادی ڈھانچے کی تعمیر میں مدد کے لئے مغربی ممالک کے ساتھ مل کر 600 ارب ڈالر کی سرمایہ کاری فراہم کرےگا ،سوال یہی ہے کہ اب تک کون سا ترقی پذیر ملک اس سے مستفید ہوا ہے؟

جہاں تک بنیادی ڈھانچے کی تعمیر میں تجربے کا تعلق ہے، اگر چین خود کو دوسرے نمبر پر قرار دیتا ہے تو اول نمبر کہلانے کی ہمت کون رکھتا ہے؟ چینی کمپنیوں نے مشرق وسطیٰ کے بہت سے ممالک میں پہلے سب وے ، پہلی لائٹ ریل اور پہلی تیز رفتار ریلوے کی تعمیر شروع کی ہے ، اور مشرق وسطیٰ کے مختلف پیچیدہ ماحول میں تعمیر اور آپریشن میں بہت کامیاب تجربہ حاصل کیا ہے۔ اگرچہ بھارتی یورپی اقتصادی راہداری کے منصوبے میں فرانس اور جرمنی جیسے یورپی ممالک شامل ہیں ، لیکن اس سے یہ حقیقت تبدیل نہیں ہو سکتی کہ اس منصوبے میں حصہ لینے والے زیادہ تر ممالک کمزور ریلوے کے حامل ممالک ہیں۔یہاں تک کہ امریکہ میں ابھی تک ایک کلومیٹر ہائی اسپیڈ ریل بھی نہیں ہے. اگر مشرق وسطیٰ کے ممالک کم لاگت اور مؤثر ریلوے نیٹ ورک بنانا چاہتے ہیں تو ، چین بلاشبہ بہترین شراکت دار ہے۔ چین کو جان بوجھ کر خارج کرنے سے اس طرح کے منصوبے کی کامیابی شائد مشکل ہوگی۔

چین نے ہمیشہ عالمی انفراسٹرکچر کی تعمیر کو فروغ دینے کے اقدامات کا خیرمقدم کیا ہے ، لیکن بنیادی ڈھانچے کی تعمیر کے بہانے کسی بھی جغرافیائی سیاسی حساب کتاب کی مخالفت کی ہے۔

حال ہی میں عرب لیگ کے وزرائے خارجہ کی کونسل نے مسلسل 43 ویں بار چین سے متعلق مثبت قرارداد منظور کی، جس میں "بیلٹ اینڈ روڈ” انیشی ایٹو کے لئے عرب ممالک کی حمایت کا اعادہ کیا گیا اور علاقائی امن اور ترقی کو فروغ دینے میں چین کی کوششوں کو سراہا گیا۔ اکتوبر 2020 میں لاہور کی اورنج لائن سب وے کے باضابطہ افتتاح سے لے کر حال ہی میں آپریشنل ہونے والی جنوب مشرقی ایشیا میں سب سے پہلی تیز رفتار ریلوے اور چین اور انڈونیشیا کی مشترکہ تعمیر کردہ جکارتہ بانڈونگ ہائی اسپیڈ ریلوے تک ، "بیلٹ اینڈ روڈ” کے متعدد اعلیٰ معیار کے منصوبوں کی یکے بعد دیگرے تکمیل تک ،متعلقہ ممالک کے بنیادی ڈھانچے اور معاشی ترقی کو ٹھوس فوائد حاصل ہوئے ہیں۔

مشرق وسطیٰ اس وقت عظیم مفاہمت کے مرحلے سے گزر رہا ہے اور آزادی مشرق وسطیٰ میں وقت کا موضوع بن رہی ہے. بھارتی یورپی اقتصادی راہداری کا مرکز مشرق وسطیٰ کے علاقے میں ہے۔ اگر ہم اسے ایک عوام دوست منصوبہ بنانا چاہتے ہیں جو حقیقی معنوں میں علاقائی ممالک کو فائدہ پہنچا سکتا ہے تو ہمیں بنیادی ڈھانچے کے منصوبوں کو سیاسی رنگ دینے سے گریز کرنا ہوگا۔ بصورت دیگر ، "بھارتی یورپی اقتصادی راہداری ” کا منصوبہ جو دیکھنے میں تو اچھا لگتا ہے لیکن بہت سے خود غرض خیالات اور الجھنوں کا شکار ہو کر ، عمل درآمد سے کوسوں دور رہے گا۔

Comments (0)
Add Comment